سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے 45 متاثرین کو تاحال امداد نہ ملنے پر ہائیکورٹ کا افسوس

اسٹاف رپورٹر  ہفتہ 13 ستمبر 2014
ایم ایل اوز کی کرپشن کیخلاف درخواست پر 2 ہفتے میں جواب طلب، کراچی میں شہریوں کی سہولت کیلیے ڈی این اے لیب بھی قائم کی جائے، درخواست گزار۔ فوٹو: فائل

ایم ایل اوز کی کرپشن کیخلاف درخواست پر 2 ہفتے میں جواب طلب، کراچی میں شہریوں کی سہولت کیلیے ڈی این اے لیب بھی قائم کی جائے، درخواست گزار۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے متاثرین کو معاوضے کی عدم ادائیگی، شناخت نہ ہونے والی لاشوں کی ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ میں تاخیر اور مقدمے کی بروقت پیروی نہ کرنے کے خلاف دائر درخواست پر کمشنر کراچی ،وفاقی سیکریٹری داخلہ اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 26 ستمبر تک جواب طلب کرلیا جبکہ ڈائریکٹر انچارج اور پراجیکٹ ڈائریکٹر نیشنل فارنسک ایجنسی کو بھی طلب کرلیا گیا۔

جمعہ کو سماعت کے دوران پائلر کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ 2 سال گذرچکے ہیں لیکن سانحہ بلدیہ کے 45 متاثرین کو میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے اعلان کردہ معاوضے کی رقم ادا نہیں کی گئی ہے ،محکمہ محنت حکومت سندھ کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے 210 متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ کی رقم ادا کردی گئی ہے جبکہ 45 افراد اب تک معاوضے کی رقم سے محروم ہیں۔

چیف جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت اتنے بڑے سانحہ کے مظلوم لوگوں کو اعلان کے باوجود معاوضے کی رقم ادا نہیں کررہی ہے، چیف جسٹس نے حکومت کے وکیل سے استفسار کیا کہ اب تک کتنے لوگوں کو معاوضہ ادا کیا گیا ہے اور کتنے لوگ اس سے محروم ہیں، پائلر کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 سال گذرنے کے باوجود مقدمے میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوئی۔

ماتحت عدالت نے تفتیشی آفیسر کو متعدد بار شوکاز نوٹس جاری کیے لیکن اس نے تاحال مقدمے کا چالان پیش نہیں کیا اور فیکٹری مالکان سمیت دیگر ملزمان کو بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا، انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ حکم جاری کیا جائے کہ پراسیکیوشن کے تمام مرحلے مکمل کرکے 6 ماہ کے اندر مقدمے کی سماعت مکمل کرلی جائے ، عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو حکم دیا کہ مقدمے کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کریں ،پائلر کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سانحہ میں جاں بحق ہونے والے 259 میں سے 17 لوگوں کی اب تک شناخت نہیں ہوسکی۔

علاوہ ازیں سندھ ہائیکورٹ نے میڈیکولیگل افسران (ایم ایل اوز) کی کرپشن کے خلاف درخواست پر سیکریٹری صحت کو ہدایت کی ہے کہ کرپشن کی روک تھام اورفرائض سے غفلت جیسے مسائل کے تدارک کے لیے متعلقہ افسران کااجلاس طلب کر کے پالیسی وضع کرکے 2 ہفتے میں رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔

جسٹس شفیع صدیقی کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے یہ ہدایت ’’مددگار‘‘ نامی این جی او کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی،درخواست میں کہا گیا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں ایم ایل اوز شہریوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں اور رپورٹ تیار کرنے میں دانستہ تاخیر کرتے ہیں اور بھاری رشوت طلب کرتے ہیں،ایم ایل اوز پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت سے جعلی رپورٹس تیار کرکے عدالتوں میں پیش کردیتے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین اور بچے پولیس سرجن اور ایم ایل اوز کی غفلت سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں،عام طور پر ایم ایل اوز ملزمان کی ملی بھگت سے بھی رپورٹ تیار کرتے ہیں متاثرہ فریق کے بیان کو توڑ مروڑ کر بیان کردیا جاتا ہے، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ کراچی میں شہریوں کی سہولت کے لیے ڈی این اے لیب بھی قائم کی جائے،عدالت نے سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔