بُک شیلف

نکمے لوگ جن سے اپنا ملک سنبھالا نہیں جاتا اور اچھلتے کودتے ایسے رہتے ہیں جیسے ساری مسلم دنیا کا بوجھ بس انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہو۔ فوٹو: فائل

نکمے لوگ جن سے اپنا ملک سنبھالا نہیں جاتا اور اچھلتے کودتے ایسے رہتے ہیں جیسے ساری مسلم دنیا کا بوجھ بس انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہو۔ فوٹو: فائل

زیتون کا جھنڈ

مصنفہ: ایلسا مارٹن ،مترجم: الطاف فاطمہ ، ناشر: شہزاد‘ کراچی‘ صفحات: 208‘ قیمت 250 روپے

اس تبصرے کا آغاز ’’عرض مترجم‘‘ کے ایک اقتباس سے کیا جاتا ہے۔ ’’ساٹھ کی دہائی میں… لاہور میں ایک ایفروایشین کانفرنس برپا ہوئی اور اس کانفرنس میں ایک بے وطن اور بے زمین شخص… حسام الخطیب شریک ہوا اور میں اس کی بے کلی اور اضطراب بھول ہی نہیں سکتی۔ کس کرب سے وہ التجا کرتا تھا کہ ان کے حق میں ایک قرارداد منظور کر دیں مگر اس کو اس کامقالہ پڑھنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ وقت کی کمی وجہ معذرت بتائی گئی۔‘‘

آج بھی ہمارا رویہ مختلف نہیں۔ کسی بے وقوف وزیرکو مدعو کر کے لایعنی تقریر (جو کسی معتمد کی لکھی ہوتی ہے) کرنے کا موقع ضرور دیں گے مگر جو لوگ زیربحث موضوع پر اظہار خیال کرنے کے اہل ہوں انہیں ٹرخا دیا جائے گا۔ ویسے بھی فلسطین یا فلسطینیوں کے لئے ہم نے اب تک کیا بھی کیا ہے۔ آئندہ بھی ہم کیا کر سکیں گے۔ نکمے لوگ جن سے اپنا ملک سنبھالا نہیں جاتا اور اچھلتے کودتے ایسے رہتے ہیں جیسے ساری مسلم دنیا کا بوجھ بس انہوں نے ہی اٹھا رکھا ہو۔

مشرق وسطیٰ کے بارے میں یہ کہانیاں ایک امریکی خاتون کی لکھی ہوئی ہیں۔ مصنفہ کی دردمندی اور خلوص میں کلام نہیں لیکن دگردگر ہے اور جگر جگر۔ اپنے دکھ درد کو وہی ٹھیک طرح پہچان او ربیان کر سکتا ہے جو اس کے لئے روزمرہ کی واردات ہو۔ کہانیوں کا پس منظر عراق‘ شام‘ لبنان‘ اردن‘ فلسطین اور مصر ہے۔ جس آشوب سے ان کہانیوں کے کردار دوچار ہیں وہ ہمارا جانا پہچانا ہے۔ اسے ہماری خوش نصیبی سمجھئے کہ ابھی تک عراقیوں‘ شامیوں اور فلسطینیوں کی طرح تباہ و برباد نہیں ہیں۔ راستہ اگرچہ ہم  نے وہی اختیار کر رکھا ہے جو تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کہانیوں میں سے بعض میں ہمیں اپنے ممکنہ مستقبل کی جھلک نظر آ سکتی ہے۔

’’سانتا کلاز بغداد میں‘‘ مشکلوں سے دوچار ایک خاندان گھریلو سامان اور موروثی قیمتی کتابیں بیچ کر کسی نہ کسی طرح زندگی کو کم تکلیف دہ بناتا ہے۔ ’’فاطمہ کا ہاتھ‘‘ میں گھر کا کام کاج کرنے والی لڑکی کے والد پر رقم چرانے کا الزام لگایا جاتا ہے جو بعد میں غلط ثابت ہوا لیکن الزام لگانے سے جو بدمزگی پیدا ہوتی ہے اس کا کوئی مداوا نہیں۔ ’’زیتون کا جھنڈ ‘‘ جو مجموعے کا غالباً حقیقت سے سب سے قریب افسانہ ہے، اسرائیلی توسیع پسندی اور بے رحمی کی معروضی انداز میں عکاسی کرتا ہے۔

’’راہ مستقیم‘‘ میں ایک نسبتاً آسودہ حال شہری خاندان اور معمولی حیثیت کے دیہی خاندان کے درمیان پائے جانے والے تضاد کو پیش کیا گیا ہے۔ ’’غیرت‘‘ کا موضوع پاکستانی قارئین کو بہت مانوس معلوم ہو گا۔ اس میں ایک لڑکی کے والدین اس کی شادی کسی عمررسیدہ مگر امیر مرد سے کرنا چاہتے ہیں۔ بعد میں انہیں کوئی خبر دیتا ہے کہ ان کی لڑکی یونیورسٹی کے کسی طالب علم سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔ اس بات کا چرچا ہوتے ہی لڑکی والوں کو لگتا ہے کہ ان کی عزت خاک میں مل گئی ہے۔ وہ لڑکی کے بھائی سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی بہن کو گولی مار دے۔ وہ انکار کر دیتا ہے۔

آخر میں لڑکی کی جان تو بچ جاتی ہے لیکن اسے اپنے خاندان سے بظاہر ہمیشہ کے لئے جدا ہونا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تو عموماً ایسی لڑکیوں کی جان ہی نہیں بچتی۔ یہی نہیں بلکہ جس لڑکے کو اس کایارتصور کر لیا جاتا ہے اس کی بھی شامت آنے میں دیر نہیں لگتی ۔ مجموعے میں تین کہانیاں اور بھی ہیں۔ الطاف فاطمہ معروف فکشن نگار ہیں۔ ان کے ناولوں ’’دستک نہ دو‘‘ اور ’’چلتا مسافر‘‘ کو خاصا سراہا جا چکا ہے اور ان کے افسانوی مجموعوں کو تحسین کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔ وہ بہت صاف ستھری نثر لکھتی ہیں۔ یہ خوبی ان کے ترجمے میں بھی نمایاں ہے۔

تاریخ کے زخم

تاریخ بلاشبہ دلچسپ ترین موضوعات میں سے ایک ہے۔ دنیا کے تمام علوم کے اظہار اور ارتقاء میں علم تاریخ کا عمل دخل ناگزیر ہے۔ تاریخ کی حوالہ جاتی اہمیت تو اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن علم تاریخ کا ایک اہم پہلو اس کے ساتھ وابستہ عام دلچسپی اور Nostalgia بھی ہے جو اس علم کو انتہائی پرکشش بناتا ہے۔ زیرنظر کتاب ’’تاریخ کے زخم‘‘ بھی آزادی سے قبل متحدہ ہندوستان اور آزادی کے بعد پاکستان کی تاریخ کے اہم واقعات کی نئی جہتوں سے روشناس کرانے والی تصنیف ہے۔

کتاب کے مصنف سکندر خان بلوچ پاک فوج کی ایجوکیشن کور سے منسلک رہے ہیں اور لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ اپنی فوجی زندگی میں مشرقی پاکستان اور گلگت، بلتستان سمیت ملک کے مختلف حصوں میں خدمات انجام دیں۔ سعودی عرب شاہ عبدالعزیز ملٹری اکیڈمی الریاض میں بھی خدمات انجام دیں۔ ملازمت کا زیادہ عرصہ پی ایم اے کاکول میں تدریسی فرائض انجام دیتے گزارا۔ ملک کے اہم قومی اخبارات میں کالم نگاری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور ملتان میں تعلیمی ادارہ بھی چلا رہے ہیں۔

ان کی زیر نظر کتاب تاریخی اعتبار سے متنوع موضوعات کا مجموعہ ہے جس کے باعث یہ کتاب مزید دلچسپ بن گئی ہے۔ مصنف نے برصغیر کے اہم فوجی افسران کے تاریخی کردار، پاک بھارت افواج کی تقسیم، پی ایم اے کاکول کے قیام، مغل افواج، جنگ ستمبر، فوجی حکمرانی، نہرو خاندان اور مسئلہ کشمیر سمیت بلوچستان اور عرب اسرائیل تنازعہ پر اہم معلومات اور قابل قدر تجزیئے پیش کیے ہیں جو قاری کے لیے بیک وقت دلچسپی اور غور و فکر کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ کتاب الفیصل ناشران غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور نے شائع کی ہے۔ قیمت 456 روپے ہے۔

لفظوں میں تصویریں

مصنف: ممتاز حسین، قیمت: 795 روپے، ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز‘ لاہور

اردو ادب میں سعادت حسن منٹو پہلے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کو اپنے افسانوں میں برہنہ طور پر متعارف کرایا۔ بعدازاں بعض کہانی کاروں نے منٹو کا انداز تحریر اپنایا اور وہ بھی کامیاب رہے۔ زیرتبصرہ افسانوی مجموعے کے خالق بھی اسی رو سے متاثر نظر آتے ہیں۔

ممتاز حسین ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ فلم سازی‘ مجسمہ سازی اور مصوری کرنے کے علاوہ افسانے بھی لکھتے ہیں۔ یہ آپ کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے‘ پہلا ’’گول عینک کے پیچھے‘‘ 2010ء میں منظرعام پر آیا تھا۔ دوسرے مجموعے میں 16 افسانے شامل ہیں۔

ان افسانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ خالق نے جدت اپناتے ہوئے حقیقت پسندی اور کردار اور عجب ماحول تخلیق کئے ہیں۔ انداز بیاں بھی زیادہ علامتی نہیں چنانچہ افسانہ پڑھتے ہوئے قاری اس میں ڈوب جاتا ہے لیکن ان افسانوں سے بھرپور لطف اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ قاری تاریخ عالم‘ دیومالا اور ان استعاروں سے واقف ہو۔

یہ حقیقت ہے کہ ممتاز حسین حقیقت پسندی اور دیومالا کے امتزاج سے اپنا مخصوص انداز تحریر خلق کرنے میں کامیاب رہے۔ ’’لفظوں میں تصویریں‘‘ کے خصوصاً تین افسانے… کوا بھونکتا ہے‘ ایک تھی انار کلی اور گھونگھر اس طلمساتی فن کی عمدہ مثالیں ہیں۔ کتاب کی چھپائی اور پیش کش عمدہ ہے۔ عام ڈگر سے ہٹے افسانے پڑھنے کے شوقین قاری اسے من پسند کتاب پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔