سیاحوں کی جنت ’’مالدیپ‘‘ کو لاحق خطرات۔۔۔۔۔ کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟

بشیر واثق  اتوار 14 ستمبر 2014
مالدیپ کے 80 فیصد جزائر کی بلندی سطح سمدنر سے یڑھ میٹر سے بھی کم ہے فوٹو: فائل

مالدیپ کے 80 فیصد جزائر کی بلندی سطح سمدنر سے یڑھ میٹر سے بھی کم ہے فوٹو: فائل

سیاحوں کے لئے جنت کا درجہ رکھنے والا جزائر کا ملک مالدیپ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا، یہ تحقیقاتی رپورٹ ہے یونیورسٹی آف ایکسیٹر، یونیورسٹی آف آک لینڈ، جیمز کک یونیورسٹی، دی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمنٹل سٹدیز ان جاپان، کرٹن یونیورسٹی اور دی یونیورسٹی آف گلاسکو کی۔

دی یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے پروفیسر کرس بیری کا کہنا ہے کہ مالدیپ کے بہت سے جزائر جو گنجان آباد ہیں وہ موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ موسمی تغیر کی وجہ سے سطح سمندر کی بلندی بڑھ رہی ہے، اس لئے ساحلوں کی بہتری پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک وجہ جزائر میں پہاڑوں کا بلند نہ ہونا اور روشنی کے لئے ڈیزل کا بہت زیادہ استعمال ہے۔

مالدیپ کے جزائر سطح سمندر سے صرف 1.5میٹر بلند ہیں جبکہ 80 فیصد جزائر کی بلندی اس سے بھی کم ہے یوں اوسط بلندی تین فٹ تک رہ جاتی ہے، سمندر کی لہروں کو دیکھا جائے تو یہ بلندی کچھ بھی نہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس صدی کے آخر تک سمندر کی سطح 97سینٹی میٹر تک بلند ہونے کا خدشہ ہے جس سے مالدیپ کا وجود مٹ جائے گا اور اس کا ذکر صرف کتابوں میں رہ جائے گا۔

2012ء میں منعقد ہونے والی ماحولیات کی کانفرنس میں مالدیپ کے سابق صدر محمد نشید نے سطح سمندر میں اضافے کے حوالے سے خدشات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا بھر میں توانائی کے استعمال کی وجہ سے فضا میں کاربن کی مقدار یونہی بڑھتی رہی تو ان کا ملک صرف سات سال میں سمندر میں ڈوب جائے گا۔ دنیا بھر میں صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں خوفناک اضافہ ہوا ہے حالانکہ اس حوالے سے آگہی کے لئے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں مگر فضائی آلودگی کا مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔

فضائی آلودگی میں اضافے کی وجہ سے ہوا میں کاربن کی مقدار بڑھتی ہے جس سے فضا میں اوزون کی تہہ بری طرح متاثر ہو رہی ہے، یہ سارا عمل موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے، جس سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو رہا ہے، جو سطح سمندر میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

مالدیپ سارک ممالک کا اہم رکن ہے، بحرہند میں سری لنکا کے مغربی کنارے کی سمت واقع ہے، کل جزائر کی تعداد 1192 ہے جن میں سے 192جزائر آباد ہیں جن کی آبادی تین لاکھ اٹھائیس ہزار پانچ سو چھتیس ہے، بے آباد جزائر بھی اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے کشش رکھتے ہیں اور ان میں سے بہت سے جزائر پر سیاحتی سرگرمیوںکے فروغ کے لئے سہولتیں بھی فراہم کی گئی ہیں ۔ مالدیپ کا رقبہ 90 ہزار مربع کلومیٹر یعنی 35 ہزار مربع میل ہے۔

یوں یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے براعظم ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ اسی طرح کرہ ارض کے سب سے کم بلند مقام کا اعزاز بھی مالدیپ کو حاصل ہے یہاں پر قدرتی طور پر بلند مقام یعنی پہاڑ یا ٹیلہ وہ بھی سات یا دس میٹر سے زیادہ بلند نہیں ہے۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ جدید دور میں اب یہاں پر بلندو بالا پلازے بن چکے ہیں ۔ بحر ہند میں واقع ہونے کی وجہ سے اسے پاکستان کا بحری ہمسایہ کہہ سکتے ہیں کیونکہ سمندر کے راستے یہاں پر آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے، صرف سمندری سفر کی صعوبت ہی راستے میں حائل ہوتی ہے ، یوں اس ملک کی پاکستان کے لئے بہت زیادہ اہمیت ہے۔

مالدیپ کی تاریخ پرنظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں 300 قبل مسیح دراوڑ اور تامل ناڈو نسل کے لوگ آباد ہوئے جن کا پیشہ ماہی گیری تھا ، یہ لوگ بھارت اور سری لنکا کے ساحلوں کے رہنے والے تھے اور مچھلیاں پکڑتے ہوئے یہاں تک آ پہنچے ، پھر ان خوبصورت جزائر میں ہی بس گئے۔ جب بھارت پر اشوک اعظم اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوا تو بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بہت سے خاندان ان جزائر میں آ کر آباد ہوئے، بدھ مت کے پیروکاروں کی کوششوں سے وہاں پر بدھ مت تیزی سے پھیلا ، ان کی تبلیغ سے بارہویں صدی عیسوی میں بدھ مت یہاں کا سب سے بڑا مذہب بن چکا تھا۔ اس کے بعد مسلمان تاجروں نے اپنے پیر جمانے شروع کئے تو یہاں اسلام پھیلنا شروع ہوا۔

معروف مسلم سیاح ابن بطوطہ نے بھی ان جزائر کی سیر کی ، وہ لکھتے ہیں کہ یہاں پر اسلام مراکو سے منتقل ہونے والے مسلم سکالر ابو برکات کی کوششوں سے پھیلا ، تاہم اس حوالے سے کئی مورخ اختلاف رکھتے ہیں ۔ ابن بطوطہ کا مسلم سکالر ابو برکات کا حوالہ دینے کی وجہ وہ تاریخی تختیاں تھیں جن پر یہاں کی قدیم تاریخ کندہ تھی۔ اس وقت مالدیپ کی سوفیصد آبادی مسلمان ہے اور ریاست کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ یہاں کے قانون کے مطابق کسی بھی غیر مسلم کو مالدیپ کا شہری بننے کا حق حاصل نہیں ہے،گویا اس قانون کی وجہ سے مالدیپ کی آبادی ہمیشہ سوفیصد مسلمان ہی رہے گی ۔

مالدیپ ہمیشہ سے آزاد علاقہ رہا ہے، تاہم تین ادوار ایسے ہیں جب یہ کسی دوسری طاقت کے زیر نگیں رہا۔ سب سے پہلے سولہویں صدی میں پرتگیزیوں نے اس پر قبضہ کیا اور وہ 17ویں صدی تک یہاں موجود رہے، اس کے بعد ولندیزیوں نے ادھرکا رخ کیا، انھوں نے بھی کئی ماہ تک یہاں ڈیرے ڈالے رکھے، ان کے جانے کے بعد مالدیپ کے جزائر کافی عرصہ تک پھر سے آزاد رہے یعنی اپنی مقامی بادشاہت کے زیر سایہ تھے۔

دنیا بھر میں نو آبادیاتی نظام کو رائج کرنے والے برطانیہ نے 19ویں صدی میں مالدیپ پر قبضہ کر لیا اور وہ 1887ء سے 1965ء تک یہاں قابض رہا۔ انگریزوں نے ان جزائر کو زیادہ تر تجارتی مقاصد کے لئے استعمال کیا کیونکہ یہ جزائر بحر ہند میں ایک ایسے مقام پر تھے جو دوسروں ملکوں کو جاتے ہوئے راستے میں پڑتے تھے اس لئے انھیں پڑائو کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

1965ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد آئین سازی پر کام شروع ہوا اورتین سال بعد ملک کا سرکاری نام جمہوریہ مالدیپ رکھا گیا اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کردیا گیا۔ ما لدیپ کا دار الحکومت اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر مالے ہے جو ملک کے شمالی جزائر میں سے ایک جزیرے پر واقع ہے، اس کی آبادی ایک لاکھ تین ہزار چھ سو ترانوے نفوس پر مشتمل ہے۔ مالے ملک کا سب سے اہم تاریخی شہر اور فن و ثقافت کا مرکز ہے، اسے بادشاہوں کا جزیرہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسی جزیرے سے بادشاہت کی ابتدا ہوئی اور بعد میں بھی یہی بادشاہوں کا پایہ تخت رہا۔

1968ء میں جمہوریہ بننے کے بعد سب سے طویل دور حکومت مامون عبدالقیوم کا رہا جو تیس سال یعنی 1978ء سے 2008ء تک صدر منتخب ہوتے رہے۔ وہ چھ مرتبہ صدر منتخب ہوئے اس دوران ملک میں ترقی تو ہوئی تاہم سابق صدر مامون پر غیر آئینی اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے منتخب ہونے کے الزامات لگے اور صدارتی الیکشن میں ان کی چھ مرتبہ کامیابی کو بھی انھی ہتھکنڈوں کا مرہون منت قراردیا جاتا ہے۔

مالدیپ کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی خوبصورتی سے نوازا ہے جسے سرمایہ کاروں نے کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے مختلف جزائر میں تفریحی مقام اور فائیو سٹار ہوٹل بنائے ہیںاوران کو قائم کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ قدرتی خوبصورتی قائم رہے بلکہ اس میں اضافہ ہو۔

مالدیپ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زیر سمندر ریستوران قائم کئے گئے ہیں جہاں انواع و اقسام کے کھانوں اور مشروبات سے تواضع کی جاتی ہے، اصل میں یہ ریستوران وہاں قائم کئے جاتے ہیں جو کسی زمانے میں خشکی کا حصہ تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زیر آب آتے چلے گئے یوں یہاں پر سمندر کی گہرائی کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ مالدیپ کے یہ جزائر سیاحوں کے لئے جنت ارضی کا درجہ رکھتے ہیں اسی لئے دنیا بھر سے ہر سال دس لاکھ سیاح یہاں آتے ہیں اور یہی مالدیپ کی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہے اسی لئے حکومت سیاحوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کے لئے کوشاں رہتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ سیاحوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو۔

تاہم اس تاریک پہلو سے بہت کم سیاح واقف ہیں کہ جزائر کی یہ جنت آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہی ہے، اگر کسی سے اس بارے میں بات کی جائے تو اسے یقین نہیں آتا ، حالانکہ بہت سے جزائر ایسے ہیں جن کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے کنارے کافی اندر تک پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ پھر سمندروں میں اٹھنے والے طوفان اس خطرے کو مزید بڑھا دیتے ہیں جیسا کہ 26 دسمبر 2004 ء کو آنے والے سونامی نے مالدیپ میں تباہی مچا دی تھی ، اس سمندری طوفان میں صرف 9 جزائر بچ پائے تھے، باقی تمام جزائر کو طوفانی لہروں کا سامنا کرنا پڑا جو 14فٹ تک بلند تھیں، اس طوفان میں 102مالدیپی شہری اور چھ غیر ملکی جاں بحق ہوئے، اٹھاون جزائر ایسے تھے جن کو شدید پہنچا اور چھ بالکل تباہ ہو گئے۔ یوں اندازاً چارسو ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔

ماحولیات کی اب تک کی جتنی بھی رپورٹس ہیں ان میں سے سوائے ایک رپورٹ کے سب میں یہی کہا گیا ہے کہ مالدیپ کے وجود کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید خطرات لاحق ہیں ۔ اس ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ستر اور اسی کی دہائی میں مالدیپ کے گرد سمندر میں اضافے کی بجائے بیس سے تیس سنٹی میٹر تک کمی ہوئی۔ سطح سمندر کا جائزہ لینے والے ایک ماہر سویڈش سائنسدان فلس ایکسل مارنر کا کہنا ہے کہ سطح سمندر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کوئی خوفناک قسم کا اضافہ نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا ضرور ہے، مگر اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 1940ء اور 1950ء کی دہائی میں سطح سمندر میں دس سے گیارہ سینٹی میٹر اضافہ ہوا پھر اس کے بعد یہ سلسلہ رک گیا، اب تک جو اضافہ ہوا ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے، ان کا کہنا ہے کہ سمندر کی سطح میں اضافے کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کی بجائے زمین کی گردش بھی ہے۔ انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ کی 2007ء کی رپورٹ کے مطابق 2100ء تک سمندر کی سطح میں 59سنٹی میٹر یعنی 23 انچ تک اضافہ ہو جائے جس سے مالدیپ کے آباد 200 جزائر میں سے اکثر ڈوب جائیں گے، ایسا بھی تب ہوگا جب موسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی نہ آئی، اگر فضا میں حدت یونہی بڑھتی رہی تو ایسا وقت سے قبل بھی ہو سکتا ہے جس کا خدشہ سابق مالدیپی صدر محمد نشید ایک کانفرنس میں کر چکے ہیں۔

مالدیپ کی حکومت حفظ ماتقدم کے طور پر مالدیپ کو 2019ء تک کاربن فری بنانے کے لئے ایک پراجیکٹ پر کام کر رہی ہے تا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل میں کمی میں اپنا کردار ادا کر سکے اور یہی توقع وہ عالمی سطح پر کام کرنے والے ماحولیات کے اداروں سے رکھتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ساحلوں کی بلندی اور انھیں پختہ کرنے کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ اسی طرح مالدیپی حکومت اپنے شہریوں کو بھارت ، سری لنکا اور آسٹریلیا میں زمینیں خریدنے کی ترغیب دے رہی ہے تاکہ وہاں پر اپنے شہریوں کو آباد کیا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔