روس اور یوکرین کا تنازعہ ؛ کیا عارضی جنگ بندی مسئلے کاحل ہے؟

آصف زیدی  اتوار 14 ستمبر 2014
یوکرین کی فوج اور روس نوازباغیوں کے درمیان معرکہ آرائی نے پورے علاقے کو میدان جنگ بناکر رکھ دیا ہے۔ فوٹو: فائل

یوکرین کی فوج اور روس نوازباغیوں کے درمیان معرکہ آرائی نے پورے علاقے کو میدان جنگ بناکر رکھ دیا ہے۔ فوٹو: فائل

دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے لیے اس وقت درجنوں موضوعات اور معاملات غورطلب ہیں، عراق میں جاری خوں ریزی ہو یا شام میں سرکاری فوج اور باغیوں کی قتل و غارت گری، فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی یلغار ہو یا کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے ظلم و ستم، نائیجیریا میں بوکوحرام کی من مانیاں ہوں یا مغرب میں حکومتوں سے ناراض عوام کے مظاہرے، ہر موضوع کو عالمی میڈیا اپنی اپنی پالیسی اور مرضی کے تحت اپنے قارئین اور ناظرین کے سامنے لاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کہیں رائی کا پہاڑ بنایا جاتا ہے تو کہیں درندگی کو بھی معمولی بات کہہ دیا جاتا ہے۔

بقول شاعر

تم سے کوئی کیا رکھے منصفی کی امیدیں

قتل عام کو تم نے حادثہ بناڈالا

یوکرین بھی ان موضوعات میں شامل ہے جو ان دنوں ہر وقت میڈیا کے لیے بریکنگ نیوز یا بڑی خبر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ روس اور یوکرین کے برسوں سے جاری تنازعات کی سلگتی آگ اب بری طرح بھڑک اٹھی ہے۔ مصالحت اور ثالثی کے نام پر کیے جانے والے اقدامات بھی کارگر ثابت نہیں ہورہے اور سیکڑوں افراد کی ہلاکت اور مسلسل خوںریزی کے باوجود حالات سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔اس وقت امریکا سمیت تمام بڑے اور بااثر ممالک کی کوشش ہے کہ معاملات کو میدان جنگ سے نکال کر مذاکرات کی میز پر لایا جائے، لیکن جنگ بندی کے اعلانات اور صلح کا عزم بھی پرانی دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا نہیں کرپا رہا۔ زیرنظر مضمون میں ہم نے یوکرین کے تنازعے کے کچھ اسباب، تاریخی حقائق اور دیگر معاملات کو مختصر طور پر سامنے لانے کی کوشش کی ہے تاکہ قارئین، خاص طور پر عالمی سیاست سے دل چسپی رکھنے والوں کو یوکرین کے حوالے سے کچھ نہ کچھ معلومات ضرور مل جائیں۔

کریمیا (Crimea) شہر کو یوکرین اور روس کے تنازعے کا مرکزی سبب سمجھا جاتا ہے، جغرافیائی لحاظ سے دیکھیں تو جزیرہ نما کریمیا بحیرۂ اسود (Black Sea) میں واقع ہے، جو ایک طرف سے یوکرین مین شامل ہے تو دوسری جانب اس کا ایک حصہ روس کے انتہائی قریب ہے۔ ماسکو کی کوشش ہے کہ روس اور کریمیا کے درمیان ایک پل بنایا جائے، تاکہ آمدورفت میں سہولت ہو۔ یوکرین کا واحد خودمختار علاقہ کریمیا کو روس نواز علاقہ بھی کہا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس علاقے پر روسی مہربانیاں برسوں سے یوکرینی حکمرانوں کے لیے شدید غم و غصے کا باعث بنی ہوئی ہیں، یوکرین تو الزام لگاتا ہے کہ روس نے ہمارے علاقے (کریمیا) میں مداخلت کی ہے ۔

اس علاقے کو 1945 میں منعقدہ یالٹا کانفرنس (Yalta Conference) کے انعقاد کی وجہ سے بھی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ جب سوویت یونین کے صدر جوزف اسٹالن (Joseph Stalin) ، امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ  (Franklin D Roosevelt) اور برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل  (Winston Churchill) نے عالمی جنگ کے بعد یورپ کی تقسیم روکنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ اس علاقے میں روسی بحری بیڑے کی موجودگی نے بھی روسی حامیوں کو تقویت دی ہے جب کہ مخالفین کو شدید پریشانی میں مبتلا کیا ہے۔

1991 میں سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد سے تاحال ماسکو اور کیف میں موجود حکم رانوں کے درمیان علاقے میں بالادستی اور قبضے کی جنگ چل رہی ہے، کبھی یہ لڑائی زبانی بیان بازی تک محدود رہتی ہے، لیکن گذشتہ چند ماہ کی طرح حالات ہول ناک خوںریزی کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

سفارتی سطح پر بھی جاری سرد جنگ نے ماحول کو مزید کشیدہ اور دونوں ملکوں کے تعلقات کو بی حد پیچیدہ بنادیا ہے، جہاں کوئی بھی جھکنے کو تیار نہیں۔

رواں سال فروری میں حالات نے خوف ناک جنگ کی شکل اختیار کرلی تھی، مسلسل لڑائی اور پرتشدد مظاہروں کے بعد یوکرین میں برسراقتدار روس نواز صدر وکٹریانو کووچ (Viktor Yanukovych) کو صدارتی محل چھوڑنا پڑا تھا۔ اس خبر نے پورے یوکرین میں آگ لگادی، روس اپنے حامیوں کی مدد کے لیے میدان میں آیا تو امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں روس کی مخالفت میں سامنے آگئیں، ادھر روس نواز کریمیا نے بھی حالات کا اندازہ کرتے ہوئے روسی میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ اس اعلان نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا اور ہر طرف آگ لگ گئی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یوکرین میں روس کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے، ہزاروں افراد مارے جاچکے ہیں جب کہ زخمیوں کی تعداد کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ یوکرین کی فوج اور روس نوازباغیوں کے درمیان معرکہ آرائی نے پورے علاقے کو میدان جنگ بناکر رکھ دیا ہے۔ یہاں لگنے والی آگ کی حدت عالمی ایوانوں میں بھی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔

مارچ میں کریمیا میں ایک ریفرنڈم منعقد کیا گیا، جس میں اکثریت نے روس سے الحاق کے حق میں رائے دی، کریمیا کی آبادی کا بڑا حصہ روس کا حامی ہے یہی وجہ ہے کہ ماسکو کو یوکرین میں اپنی بات منوانے یا کسی بھی قسم کی مداخلت کرنے کے لیے زیادہ مشکل نہیں۔ بہت سے عالمی مبصرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یوکرین اور روس میں جاری تنازعے کا بڑا سبب یہ ہے کہ روس اپنے پڑوسی ملک کو کسی بھی طرح اپنے برابر کھڑا نہیں دیکھنا چاہتا اور وہ یوکرین کو دبانے کے لیے اپنے وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال بھی کررہا ہے۔

دوسری جانب ماسکو نے اپنے اوپر لگائے جانے والے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے اور اس کا موقف رہا ہے کہ یوکرین میں خانہ جنگی کی صورت حال وہاں کی اندرونی سیاست میں موجود کشیدگی کی وجہ سے ہے۔ یوکرینی حکم راں عوام کی صحیح طور پر نمائندگی کا حق نہیں رکھتے۔ بقول ماسکو، یوکرینی حکومت کی نااہلی سیاسی اور سفارتی ڈیڈلاک کا بڑا سبب ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ 2010 میں روس نواز وکٹریانو کووچ (Viktor Yanukovych)کے صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں کافی بہتری آئی تھی اور روسی حکومت نے بھی کئی معاملات میں یوکرین کی کھل کر مدد کی، لیکن2014 میں علاقے میں روسی مداخلت، خانہ جنگی اور روس نواز حکومت کے خاتمے نے صورت حال کو بالکل تبدیل کردیا۔

وکٹریانوکووچ کے صدارتی محل سے فرار کے بعد یوکرین نے روس سے طے شدہ بہت سے معاہدے منسوخ کردیے اور مختلف سطح پر موجود روابط کو بھی ختم کردیا۔ یوکرین میں موجود روس کے مخالفین سمجھتے ہیں کہ علاقے کی کشیدہ صورت حال کا سب سے بڑا ذمے دار روس ہے، جس نے علاقے پر قبضے کے لیے قتل و غارت کا بازار سجادیا ہے۔

تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو نظر آتا ہے کہ روس اور یوکرین کے تعلقات میں آنے والے نشیب و فراز نئے نہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب روس میں خانہ جنگی ہوئی تو اپنے مفادات کے لیے روس ا ور یوکرین نے مل کر حالات کا مقابلہ کیا تھا، جب کہ اس سے قبل1922 میں سوویت یونین (یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلکس) کے قیام کے لیے جو معاہدہ کیا گیا تھا اس پر بھی روس اور یوکرین ہی نے دست خط کیے تھے۔1990 میں یوکرین کی علیحدگی اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے دونوں ممالک کے حالات اور تعلقات مسلسل کشیدہ ہیں۔

تجزیہ کاروں کی رائے میں علاقے میں بالادستی کی کوشش تو اس تنازعے کا بڑا سبب ہے ہی لیکن ماسکو اور کیف کے درمیان تنازع کی بڑی وجہ تیل و گیس کے وسائل بھی ہیں۔ روس میں آنے والی بڑی آئل پائپ لائن یوکرین سے گزرتی ہے۔ اب ان معدنی وسائل پر اختیار اور قبضے کے معاملات نے بھی دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ معدنی وسائل کے حوالے سے ادائیگیوں کا تنازعہ بھی دونوں حریفوں کے لیے لڑنے کا سبب ہے، کئی بار روس نے توانائی کے ذخائر کے عوض ادائیگیاں نہ کرنے پر یوکرین کو تیل و گیس کی فراہم روکی بھی ہے۔

2005-06کے عرصے میں بھی گیس کی قیمتوں اور ادائیگیوں کے معاملے پر روس اور یوکرین میں تنازعہ جاری رہا۔ ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ بیان بازی، الزامات نے کشیدگی کو اصل دشمنی میں تبدیل کردیا۔ تیل و گیس کے ذخائر اب تک دونوں ملکوں میں کشیدگی کی بڑی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ معاملہ اتنا سنگین بحران بن گیا تھا کہ کئی طاقتوں کو مداخلت کرنا پڑی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2010 میں دونوں ملکوں میں تیل اور گیس کی فراہمی اور ادائیگیوں کے حوالے سے ایک باقاعدہ معاہدہ طے پاگیا۔

حالات معاہدوں سے صحیح ہونے ہوتے تو بہت پہلے ہوچکے ہوتے، یوکرین اور روس کی ایک دوسرے سے مخالفت اور سیاسی محاذ آرائی نے معاملات کو مذاکرات کے بجائے قتل و غارت کے ذریعے حل کرنے کی ترغیب دی جس کا نتیجہ آج یوکرین کے عام شہری بھگت رہے ہیں کہ سارا علاقہ بارود کی بو سے بھرا ہوا ہے اور فضا شہریوں کے خون سے رنگین ہے۔ دونوں ملک اپنے حامیوں کے لیے وہ سب کچھ کررہے ہیں جو ان کی سمجھ میں آرہا ہے، مقصد صرف اپنی بالادستی ہے۔

روس نواز یوکرینی صدر وکٹر یانوکووچ کی پرتشدد مظاہروں کے ذریعے برطرفی کے بعد ملک میں 25 مئی کو الیکشن کرانے کا اعلان کیا گیا، جسے روسی حمایت یافتہ کریمیا نے مسترد کردیا تھا، کیوںکہ کریمیا کے انتظامیہ پہلے ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے روس سے الحاق اور ماسکو کی ہر بات ماننے کا اعلان کرچکی تھی۔ کریمیا میں ریفرنڈم کو روسی صدر ولادیمر پوتن نے تو خوب سراہا، لیکن یورپی یونین اور امریکا نے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے روس کی جانب سے یوکرین کے معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا۔

گذشتہ سال نومبر میں وکٹریانوکووچ نے یورپی یونین سے تجارتی معاہدہ ختم کرنے کا بھی اعلان کیا، جس کی وجہ سے روس اور یورپ و امریکا کی کشیدگی میں بے انتہا اضافہ ہوگیا۔ یورپی ممالک اس فیصلے پر بھڑک اٹھے اور کچھ ہی عرصے بعد وکٹر یانوکووچ کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو خونیں رنگ میں ڈھل کر یوکرین کے گلی کوچوں کو سرخ کرگیا۔

دسمبر 2013 کی یخ بستہ سردی بھی یوکرین میں سیاسی آگ کی شدت کو کم نہ کرسکی اور کشیدہ صورت حال نے ساری دنیا کی توجہ اس خطے کی جانب مبذول کرادی۔ روس نواز یانوکووچ کے خلاف ہزاروں نہیں بل کہ لاکھوں افراد سٹی ہال میں جمع ہوئے اور ان کی برطرفی کے پرزور مطالبات کیے، یہ پرتشدد احتجاج اور مظاہرے وکٹریانوکووچ کی حکومت کے خاتمے پر منتج ہوئے۔

رواں سال 2014 کے بھی تمام مہینے یوکرین میں بارود اور خون کی بو سے بسے رہے۔ یوکرین اور روس کی لڑائی نے پورے علاقے کو خون میں نہلادیا، سیکیوریٹی فورسز کے اہل کاروں کے ساتھ ساتھ سیکڑوں شہری بھی اس جنگ کا نشانہ بنے۔ اس تنازعے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی ایکشن میں نظر آئی اور اس نے ایک قرارداد کے ذریعے گذشتہ مارچ میں ہونے والے ریفرنڈم کو غیرقانونی قرار دیا، جسے روس نے بے حد سراہا تھا۔

اقوام متحدہ میں اس قرارداد پر رائے شماری کے موقع پر روس نے اسے ویٹو کردیا، جب کہ چین غیرحاضر ہا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، یوکرین کے معاملے کو لے کر واشنگٹن اور ماسکو میں پہلے سے موجود کشیدگی مزید بڑھی، ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگائے گئے، امریکا نے روس کو اقتصادی پابندیوں اور سنگین نتائج بھگتنے کی وارننگ دی تو ولادی میر پوتن نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی پالیسی اپنائے رکھی۔

اس کشیدہ صورت حال میں نفرت اور دشمنی کی آگ اس وقت لگی جب جولائی میں ملائیشیا کا ایک مسافر طیارہ مشرقی یوکرین میں راکٹ مارکر گرادیا گیا۔ اس واقعے میں جہاز میں سوار تمام 298 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کارروائی کو بھی فریقین نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، امریکا اور اس کے اتحادی کہتے رہے کہ جہاز روس نواز باغیوں نے گرایا ہے جب کہ روس کا موقف تھا کہ یہ دہشت گردی یوکرین کی انتظامیہ نے کی۔ الزامات در الزامات کا نتیجہ یہ نکلا کہ تاحال پتا ہی نہیں چل سکا کہ ملائیشین ایئرلائن کے طیارے کی تباہی میں کون ملوث ہے؟

روس نوازوکٹریانوکووچ کے بعد اب پیٹروپوروشینکو(Petro Poroshenko) نے یوکرین میں صدر کا منصب سنبھالا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس طرح موجودہ بحران سے نمٹتے ہیں اور کیسے روسی مخالفت کا مقابلہ کرتے ہیں، پیٹروپورو شینکو میں سیاسی بصیرت ہے یا نہیںَ، اس کا فیصلہ آئندہ دنوں میں ہوجائے گا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ عالمی دبائو کہہ لیں یا مداخلت، یوکرین میں اس وقت جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ ماہرین کو توقع ہے کہ بیلاروس میں طے پانے والے اس معاہدے سے صورت حال بہتر ہوگی، کیوںکہ کشیدگی اور جنگ و جدل نے ہزاروں افراد کی جانیں لے لی ہیں، اگر جنگ بندی پر مکمل عمل کیا گیا تو یوکرین کی اقتصادی صورت حال میں بھی بہت بہتری آئے گی۔ اس فیصلے سے علاقے میں بسنے والے عام شہریوں نے سُکھ کا سانس ضرور لیا ہے، لیکن ان کے ذہنوں میں یہ سوال بھی گردش کررہا ہے کہ یہ جنگ بندی آخر کتنے عرصے تک برقرار رہے گی؟ اور کیا جنگ بندی کا یہ فیصلہ پائے دار ہے بھی یا نہیں؟

ان سوالات کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں لیکن دنیا بھر میں موجود امن کے حامی دعاگو ضرور ہیں کہ سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جائے تو بہتر ہے، تنازعات اور تحفظات کو ثالثوں کے ساتھ بیٹھ کر طے کیا جائے اور اپنی بات منوانے کے لیے گولی، توپ ، بندوق یا بموں کا سہارا نہ لیا جائے۔ طاقت کے استعمال اور اپنے اپنے مقاصد و خواہشات کی تکمیل کے لیے مختلف طریقوں سے علاقے میں مداخلت نے پہلے ہی یوکرین کو شدید متاثر کیا ہے، ہر طرف تباہی و بربادی کے آثار چیخ چیخ کر بتارہے ہیں کہ

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔