(دنیا بھر سے) - کیا کشمیر والے سکاٹ لینڈ والوں سے کم تر ہیں؟

خزیمہ سلیمان  ہفتہ 13 ستمبر 2014
ہمیں خوشی ہے کہ اسکاٹ لینڈ کی عوام کو اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار مل گیا ہے مگرکیا اقوام متحدہ کشمیریوں کو بھی اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار دے گا؟ یا پھر یہ اختیارمحض مغرب کے لوگوں کو ہی ہے؟ فوٹو: اے ایف پی

ہمیں خوشی ہے کہ اسکاٹ لینڈ کی عوام کو اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار مل گیا ہے مگرکیا اقوام متحدہ کشمیریوں کو بھی اپنا فیصلہ کرنے کا اختیار دے گا؟ یا پھر یہ اختیارمحض مغرب کے لوگوں کو ہی ہے؟ فوٹو: اے ایف پی

دنیا کی قدیم ترین جمہوریت،برطانیہ آجکل شدید مشکلات کا شکار ہے ،اس کی وجہ وہ ریفرنڈم ہے جو آج سے کچھ دن بعدیعنی اٹھارہ ستمبر کو کرایا جائے گا۔ جہاں اس ریفرنڈم میں اٹھارہ سال کی عمر سے بڑے تمام سکاٹ لینڈ کے رہائشی ووٹ دیں گے وہیں اس مرتبہ سولہ سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کو بھی رائے دہی کا حق دیا گیا ہے۔یہ ریفرنڈم برطانیہ کے مستقبل کا فیصلہ کریگا اوراس ریفرینڈم کے ذریعے یہ طے کیا جائے گا کہ کیا برطانیہ کے جزو، سکاٹ لینڈ کے لوگ برطانیہ کے ساتھ اپنا وفاق قائم رکھنا چاہتے ہیں یا پھر وہ ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے خواہاں ہے۔

جی ہاں، یہ عین ممکن ہے آپ کچھ دنوں میں برطانیہ کو دو لخت ہوتا اور اس کے اہم حصے، سکاٹ لینڈ کو ایک الگ اور خود مختار ریاست بنتے دیکھیں ۔دنیا بھر میں اس علیحدگی کی تحریک پر بحث و مباحثے جاری ہیں ،سیاسی دانشوروں سے لے کر معاشی ماہرین تک،سبھی اس ممکنہ علیحدگی پر اپنی رائے پیش کر رہے ہیں اور لوگوں کو برطانیہ سے آزادی کی صورت میں پیش آنے والی صورتحال سے آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔کئی رجعت پسند اس کی مخالفت میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں اور کہیں جمہوری قدروں اور آزادیِ رائے کے متوالے اسے جمہوریت کا ثمر گردان رہے ہیں۔ مگرٹھہریے! یہ سب لکھنے کا مقصد ہر گز ہر گز آپ کو برطانیہ یا سکاٹ لینڈ کے سیاسی منظر نامے اور اندرونی معاملات پر بحث چھیڑنا نہیں،ہماری بلا سے برطانیہ میں چاہے سکاٹ لینڈ الگ ہو یا ویلز، ہمارا دکھ توکچھ اور ہے۔

میں جب سے یہ خبر فالو کر رہا ہوں،مجھے عجیب سے دکھ اور افسوس کا احساس ہو رہاہے، پوری دنیا،سکاٹ لینڈ کے اس مطالبے پر،کہ وہ برطانیہ سے الگ ہونا چاہتے ہیں بڑے ہی مدبرانا اور جمہوری رویے کا اظہار کر رہی ہے۔ جن کے لیے یہ کڑوا گھونٹ ہے،وہ بھی اسے بڑی مطمئن صورت کے ساتھ حلق میں اُتار رہے ہیں کہ کہیں ان پر غیر جمہوری ہونے کا الزام نہ لگا دیا جائے۔برطانیہ کی حکومت اور اُس کی مَلکہ سمیت دنیا کی تمام طاقتیں سکاٹ لینڈ کے عوام اور اُس کے نو خیز جوانوں کے آگے سر تسلیم خم کیے بیٹھے ہیں اور اُن کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مگر حضور یہی حالات کچھ کشمیر کے بھی ہیں،مگر اُن کا معاملہ پچھلے 66 سالوں سے لٹک رہا ہے۔

ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ کشمیریوں کو اُن کا حق دے دیجیے ،وہ خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں،مگر ہماری اس فریاد پر دنیا میں کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں اور تو اور ابھی جو سکاٹ لینڈ کے معاملے پر پوری دنیا میں جمہوریت اور جمہوری روایات کا پرچار کر رہے ہیں،ڈھول بجا رہے ہیں،ہمارے مطالبے پر سماعت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پڑوسی جو دنیا کی سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت ہونے کا دعوہ کرتے ہیں ،اس معاملے میں اپنی جمہوریت کو کنڈلی میں چھپا کر ہمیں آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی دنیا کے جمہوریت پرستوں کو نظر نہیں آتے اور نہ ہی وہ اس ہٹ دھرمی پر کچھ کہتے ہیں جو بھارت نے روا رکھی ہے۔

اقوامِ متحدہ بھی برطانیہ میں جاری اس ’’جمہوری روایت‘‘ کی بھرپور حمایت کر رہا ہے اور اس کا فیصلہ جو بھی آیا یقینی طور پر وہ اس کا خیر مقدم کریں گے اور اس کلب کے مستقل ممبران ایک دوسرے کو ’’ایک کامیاب جمہوری روایت ‘‘قائم کرنے پر مبارک بھی دیں گے مگر جب پاکستان کشمیر کے معاملے پر اقوا مِ متحدہ کی قرار داد کی روشنی میں اپنا درینہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا تو جموریت کے پجاری ’’ویٹو‘‘کی طاقت استعمال کر کے نا جانے کونسی جمہوری روایت قائم کرتے ہیں۔ شائد کہ ہمارے ہاں جمہوریت کے معنی وہ نہ ہوں جو با قی دنیا سمجھتی ہے،ممکن ہے یہاں جمہوریت کا مطلب، دھونس، بدمعاشی، ہٹ دھرمی،  وعدہ خلافی اور جھوٹ کو کہتے ہوں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔