(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - شاید عرش ہل چکا ہے

محمد عثمان فاروق  اتوار 14 ستمبر 2014
اسوقت ملک میں نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ قدرتی آفات سے بچنے کا کوئی بندوبست ہے۔ اس سارے منظر نامے کے باوجود حکمران یہ چاہتے ہیں کہ عوام ’’ آہ ‘‘ بھی نہ کرے اورآپ کو اتنا تو پتا ہی ہوگا کہ مظلوم کی ’’آہ ‘‘ عرش کو بھی ہلا دیتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ شاید عرش ہل چکا ہے۔ فوٹو: فائل

اسوقت ملک میں نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ قدرتی آفات سے بچنے کا کوئی بندوبست ہے۔ اس سارے منظر نامے کے باوجود حکمران یہ چاہتے ہیں کہ عوام ’’ آہ ‘‘ بھی نہ کرے اورآپ کو اتنا تو پتا ہی ہوگا کہ مظلوم کی ’’آہ ‘‘ عرش کو بھی ہلا دیتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ شاید عرش ہل چکا ہے۔ فوٹو: فائل

میرے سامنے ایک تصویر ہے 

ایک لاچار گردن تک پانی میں ڈوبا شخص اپنے شکستہ گھر کے کمرے میں کھڑا ہے۔

اسکے سر پہ چند دھول میں اٹے ’’قیمتی برتن ‘‘۔

اور اسکے چہرے پہ موجود لاتعداد جھریاں اس بار کی غماز ہیں کہ پریشانیوں نے اسے وقت سے پہلے بوڑھا کردیا ہے۔

اسوقت یہی حالت اس قوم کی ہوچکی ہے۔ پانی گردن تک آچکا ہے اور ملکی معیشت وقت سے پہلے بوڑھی ہوچکی ہے۔ حکمران صرف ایک ایجنڈا لے کر آتے ہیں کہ الیکشن میں جو انوسٹمنٹ کی تھی اسے ڈبل ٹرپل کرکے کیسے نکالنا ہے۔

ہمیں اب یہ سوچنا چاہیےکہ آخر پاکستان کا ذریعہ آمدن کیا ہے ؟

زراعت تو تباہ ہوچکی کیونکہ پانی کی کمی کی وجہ سے کسان صحیح طرح فصل نہیں اگا پاتا ، ٹیوب ویل کا سہارا لینا پڑتا ہے جس سے فصل پہ لاگت اتنی زیادہ آجاتی ہے کہ مارکیٹ میں موجود غیرملکی جنس اس سے کہیں زیادہ سستی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کسان غربت کے اس لیول تک پہنچ چکے ہیں کہ انسانیت کانپ جاتی ہے۔

اور پھر ایک اور سوال کہ ہماری انڈسٹری کدھر گئی ؟ جی ہاں زیادہ تر فیکڑیاں تو بند ہوچکی ہیں یا پھر انڈیا اور بنگلہ دیش منتقل ہوگئیں۔

کیونکہ بجلی نہیں تھی۔

فیصل آباد جو کبھی انڈسٹری کی وجہ سے پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا تھا اب وہاں ’’ اُلو‘‘ بولتے ہیں۔

جب ایک فیکٹری بند ہوتی ہے تو پتا ہے کیا ہوتا  ہے؟

لاتعداد مزدوروں کے گھروں میں اک کہرام بپا ہوتا ہے۔

جب سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں فیکٹری ورکر بیروزگار ہوجاتے ہیں؟

پھر تو کچھ ذہنی مریض بن جاتے ہیں تو کچھ چور ڈکیٹ دہشتگرد بن جاتے ہیں باقی بچے کچھے زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔

اور ایسے حالات میں کچھ لوگوں کا مسئلہ یہ  ہے کہ یہ دھرنے ختم ہو جائیں

حکمرانوں کے کرتوت عیاں ہوتے ہیں تو اُن کے دل پہ گراں گزرتا ہے  مگر ایسا  کیوں ہوتا ہے کہ سچ تو سامنے آنا چاہیے پھر وہ اچھا ہو یا بُرا ۔۔ ہاں ٹھیک ہے ملک میں کرپشن ہے ناانصافی ہے مگر نہیں یہ دھرنے نہیں ہونے چاہیئے۔

دھرنے کیوں نہیں ہونے چاہیئے ؟

مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عوام اپنا حق مانگے تو اس میں کونسی سازش ہے ؟

حکمران عوام کی ہڈیاں تک پگھلا کر پی جائیں بیرونی ممالک سے قرضے لے کر آنے والی نسلیں تک مقروض کردیں تب کوئی سازش نہیں ہوتی اور اگر یہ کہا جائے کہ ملک لوٹنے والوں کا احتساب کیا جائے تب سازش ہوجاتی ہے ؟

کوئی مجھے سمجھائے گا کہ اٹھارہ کروڑ عوام کی زندگیاں عذاب بنا دی جائیں تب کسی کو کوئی سازش یا سکرپٹ یاد نہیں آتا ہاں اگر پارلیمنٹ میں بیٹھے فقط تین چار سو لوگوں سے حساب کتاب مانگ لیا جائے تب سازش بھی یاد آجاتی تب سکرپٹ بھی نظر آجاتا۔ آخر یہ کیسا انصاف ہے ؟

بات مختصر اتنی ہے کہ

اسوقت ملک میں نہ بجلی ہے نہ پانی ہے نہ قدرتی آفات سے بچنے کا کوئی بندوبست ہے۔

نہ انصاف ہے نہ روزگار ہے او ر تقریبا سارے سرکاری محکمے حالت نزع میں ہیں

پی آئی اے سے ریلوے تک سب برباد ہو چکے ہیں۔

ملک کی آئندہ نسلیں گروی رکھ کر بے تحاشا بیرونی قرضے لے لیے گئے ہیں جن کا کوئی پتا نہیں کہ وہ سارا قرضہ آخر گیا کدھر البتہ اس قرضے کی قسطیں دینے کے لیے ہر ماہ مہنگائی کردی جاتی ہے۔

اور اس سارے منظر نامے کے باوجود حکمران یہ چاہتے ہیں کہ عوام ’’ آہ ‘‘ بھی نہ کرے

اورآپ کو اتنا تو پتا ہی ہوگا کہ

مظلوم کی ’’آہ ‘‘ عرش کو بھی ہلا دیتی ہے

اور مجھے لگتا ہے کہ شاید عرش ہل چکا ہے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔