پولیو کا خاتمہ… ٹیسٹ کیس

ایڈیٹوریل  اتوار 14 ستمبر 2014
شعبہ صحت ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات تحت الثریٰ میں ہیں، جس کا اندازہ بجٹ میں مختص شدہ رقم سے لگایا جا سکتا ہے۔  فوٹو: ایکسپریس/فائل

شعبہ صحت ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات تحت الثریٰ میں ہیں، جس کا اندازہ بجٹ میں مختص شدہ رقم سے لگایا جا سکتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی (ایکنک) نے32.7 ارب روپے مالیت  کے پولیو کے خاتمے کے ایمرجنسی پلان سمیت 66.5 ارب روپے کے دو منصوبوں کی منظوری دیدی ہے۔ ایکنک کا اجلاس گزشتہ روز یہاں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں وفاقی وزراء پرویز رشید، احسن اقبال، خواجہ آصف، چیئرمین نجکاری کمیشن محمد زبیر سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ پولیو کی موذی بیماری کی روک تھام کی حکومتی کوششوں کا سلسلہ تو جاری ہے تاہم عالمی سطح پر پاکستان کو پولیو کیسز کے پھر سے ابھرنے والے واقعات نے خاصا بدنام کر دیا ہے جس کے نتائج اہل وطن کو اپنے غیر ملکی سفر سے پہلے ایئر پورٹس پر پولیو فری سرٹیفکیٹ کے لازمی اجرا کی صورت بھگتنے پڑے، اور ایئر پورٹس پر کتنی بھگدڑ مچی ہوئی نظر آئی، کیا ایک ایٹمی ملک کے یہ سب کچھ شایان شان ہے کہ وہ افغانستان اور نائجیریا کے ساتھ پولیو زدہ ملک شمار ہوتا ہے، جب کہ  بھارت نے 19 سال پہلے پولیو کے خاتمہ کی مہم شروع کی تھی اور اس مرض پر قابو پا لیا، اسی بھارت میں سالانہ 50 ہزار معصوم بچے ہر سال پولیو وائرس کا شکار ہوتے تھے۔

اس وقت جنوبی ایشیا کے جو ممالک پولیو فری ہیں ان میں بنگلہ دیش، بھوٹان، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، مالدیپ، میانمار، نیپال، سری لنکا، تھائی لینڈ، اور مشرقی تیمور شامل ہیں۔ دوسری طرف ہمیں ان ممالک میں رکھا گیا ہے جہاں پولیو کی انسدادی منصوبندی نقائص سے مبرا نہیں سمجھی جاتی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے شکوہ کیا ہے کہ دنیا نہ جانے کہاں کہاں پہنچی ہے اور ہم دھرنوں میں پھنسے ہوئے ہیں، یہ شکوہ دنیا سے نہیں خود اہل اقتدار کو اپنی نام نہاد ’’اچھی حکمرانی‘‘ سے کرنا چاہیے جہاں پولیو ورکرز مارے جا رہے ہیں۔ یہ کام ان فعال اور عوام دوست حکومتوں کے ہوتے ہیں جو قانون کی حکمرانی، جوابدہی اور اپنے شہریوں کی صحت اور حقوق کا خیال رکھتی ہیں۔

شعبہ صحت ہماری ریاستی اور حکومتی ترجیحات تحت الثریٰ میں ہیں، جس کا اندازہ بجٹ میں مختص شدہ رقم سے لگایا جا سکتا ہے، اس لیے ایکنک کے مذکورہ اجلاس میں وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کی طرف سے ملک سے پولیو کے خاتمے کا جو منصوبہ پیش کیا گیا، اور جسکا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ایکنک نے منظوری بھی دیدی ہے اس پر عملدرآمد اصل بات ہے۔ قانون سازی ہوتی ضرور ہے مگر قانون پر عمل نہیں ہوتا، گزشتہ چند دنوں میں فاٹا اور بلوچستان میں نئے پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے، جس کا مطلب واضح ہے کہ حکومت اور این جی اوز کو پولیو فری پاکستان کی جدوجہد میں کئی مرحلہ جاتی سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی مصائب ومشکلات کا سامنا ہے، باجوڑ میں اگلے روز پولیو ٹیم پرَ پُرتشدد واقعہ چشم کشا ہے۔

اجلاس میں ایکنک کو وزارت منصوبہ بندی نے فاٹا، گلگت بلتستان، اور آزاد جموں و کشمیر سمیت ملک بھر میں پولیو کے خاتمہ کے لیے ہنگامی پلان بارے پریزنٹیشن دی گئی اور بتایا گیا کہ پولیو کے خاتمہ کے لیے ویکیسین یونیسف کی طرف سے خریدی جائے گی اور صوبائی و ضلعی حکومتوں کے تعاون سے ملک بھر میں سوشل موبلائزیشن اینڈ کمیونیکیشن مہم چلائی جائے گی جب کہ  آپریشنل سرگرمیاں صوبائی و ضلعی حکومتوں کے ذریعے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سرانجام دیگا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا 18ویں ترمیم کے بعد ہیلتھ سروسز اب صوبائی ذمے داریاں ہیں لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت از خود اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے ڈونرز کے ساتھ معاہدوں کے ذریعہ پولیو جیسے اہم شعبے کے لیے فنڈز کا بندوبست کر رہی ہے تا کہ پولیو سے متعلق اہم منصوبوں کو بر وقت مکمل کیا جا سکے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ پولیو کے خاتمہ کے منصوبہ پر مجموعی طور پر 326.838 ملین ڈالر 32.7) ارب روپے( لاگت آئے گی جس میں سے 227 ملین ڈالر کا قرضہ اسلامک ترقیاتی بینک،23.600 ملین ڈالر کا قرضہ عالمی بینک، 8.031 ملین ڈالر کی گرانٹ دی جائے گی  جب کہ  68.207 ملین ڈالر کی گرانٹ بل اینڈ مالنڈہ گیٹس فاونڈیشن فراہم کرے گی۔ چنانچہ امید کی جانی چاہیے کہ پولیو کے خاتمہ کی مہم کو نئے عزم اور نئے سرے سے استوار کرنے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔