اور اب بل زدگان

عبدالقادر حسن  اتوار 14 ستمبر 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں حیرت زدہ ہو کر لکھا تھا کہ میرے گاؤں میں بھی بجلی کے بِل چھ سات ہزار روپے تک بھیجے گئے ہیں۔ وہ گھر جن میں بمشکل ایک آدھ پنکھا اور دو تین بلب ہوتے ہیں وہاں کتنا بِل آسکتا ہے، جب پنکھا اور بلب شدید ضرورت کے وقت میں استعمال ہوتے ہیں۔ عمران خان نے عوام کی اس سرکاری مصیبت کا اندازہ کر کے بل ادا نہ کرنے کا اعلان کیا جس کے آسان زبان میں معنی یہ تھے کہ آپ بجلی سے محروم ہو جائیں اور اس دور میں بجلی سے محرومی گویا زندگی سے محرومی ہے۔

عمران خان کی حکومت کی حکم عدولی کا یہ فلسفہ نہ چل سکا۔ عمران نے خود بھی بجلی بِل ادا کر دیا اور ان کے ساتھی لیڈر بھی عمران کے پھندے سے باآسانی نکل گئے اور شیخ رشید احمد نے بل بھی ادا کر دیا اور ساتھ ہی آئندہ سے بل ادا نہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور ووں بھی۔ بجلی کے بِل اتنے زیادہ تھے کہ لوگوں کی سچ مچ چیخیں نکل گئیں۔ ہزاروں روپوں کے بل اس دھمکی کے ساتھ کہ ادا نہ کیا تو بجلی کاٹ دی جائے گی لوگوں نے قرض لے کر اور گھر کا کوئی سامان بیچ کر بل ادا کر دیا۔

اس امید پر کہ آئندہ حکومت کو رحم آئے گا چنانچہ زبانی کلامی یہ رحم آ بھی گیا ہے اور وزیر اعظم نے اعتراف کیا ہے کہ مجھے بھی بجلی کے بل زیادہ بھجوانے کی رپورٹ ملی ہے۔ اگر وزیر اعظم نے بجلی کا بل کبھی دیا ہوتا یعنی اپنی جیب سے تو وہ یہ نہ کہتے کہ مجھے بھی بجلی کے بل زیادہ بھجوانے کی رپورٹ ملی ہے۔ اخبار بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم جب سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آزاد کشمیر اور سرگودھا گئے تو لوگوں نے گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ اگر وزیر اعظم ایسا رویہ اختیار نہ کرتے کہ ’’مجھے بھی بجلی کے زیادہ بلوں کی رپورٹ ملی ہے‘‘ تو ان کے لیے زندہ باد کے نعرے بلند ہوتے لیکن سال بھر گزر جانے کے باوجود انھیں عوام کا کچھ پتہ نہیں اور جب پتہ چلتا بھی ہے تو افسر کی کسی رپورٹ سے۔ پتہ نہیں وہ کس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ خطرہ ہے کہ کل کلاں وہ یہ نہ کہہ دیں کہ مجھے سیلاب کی رپورٹ بھی ملی ہے۔

بجلی کا یہ مسئلہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سامنے آیا جس میں کروڑ پتی وزراء بھی بلوں کی شکایت کرنے لگے ہیں۔ ایک وزیر نے کہا کہ دو کمروں کے فلیٹ کا بل اگر بیس ہزار ہے تو کوئی کیا کہے۔ یہ وزیر شاہد خاقان عباسی تھے۔ ایک اور مشہور و معروف وزیر چوہدری نثار صاحب نے کہا کہ صرف لیگی کارکنوں کے بل نکلوا کر دیکھ لیے جائیں۔ بلوں پر وفاقی وزیروں کی فریاد کا ایک آزمودہ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ بجلی کے ناقابل ادائیگی بلوں کو وصول کرنے والے اب خوش ہو جائیں کہ ان کی پریشانیاں اب ایک کمیٹی غور کرنے کے بعد ختم کر دے گی اور سیلاب زدگان کی طرح بِل زدگان کی امداد بھی کی جائے گی۔

ہمارے ہاں زدگان کی کوئی کمی نہیں‘ رشوت زدگان سے یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے اب بل زدگان کا اضافہ ہوا ہے۔ ابھی ایک اور زدگان سامنے آنے والے ہیں اور یہ ہوں گے دھرنا زدگان لیکن اس کے لیے ابھی انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ ’دھرنانچی‘ ابھی جوش میں ہیں۔ دھرنے کی جگہوں پر اب چائے پانی کی بنیادی ضرورت کی طرح بیوٹی پارلر بھی کھل گئے ہیں کیونکہ ہم بعض دھرنوں میں دیکھ رہے ہیں کہ خواتین جس طرح تازہ دم ہوتی ہیں وہ کسی قریبی بیوٹی پارلر کی مہربانی سے ہوتی ہیں بہر کیف اگر چائے پانی کسی کارکن کی ضرورت ہے تو بیوٹی پارلر بھی ایک بہت اہم ضرورت ہے اور کاروباری لوگوں کو تو خدا موقع دے۔

سیلاب کی وجہ سے بازاروں میں کاروبار کا مندا ہے تو قدرت نے ایک اور بازار کھول دیا ہے۔ ان دنوں اس سے گرم تر بازار اور کوئی نہیں ہے لیکن داد دینی پڑے گی عمران خان کو جس نے پورے ایک ماہ سے دھرنا شروع کر رکھا ہے اور وہ خود بھی اس میں شریک اور نہ جانے کتنے دوسرے پاکستانی بھی دھرنوں کی رونق دوبالا کر رہے ہیں۔ عمران خان کی ہمتوں کا تو علم تھا لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ سیاسی دنیا میں بھی ایسا کچھ کر سکتا ہے۔ سیاست کو عمران نے ایک نیا انداز دیا ہے۔ ایک جداگانہ انداز جو ہماری سیاست میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ہم نے صرف جلوس دیکھے جو محدود وقت کے لیے ایک طے شدہ راستے پر چلے اور ایک پہلے سے مقررہ جگہ پر ختم ہو گئے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لوگ گھروں کو چلے گئے اور جلوس کی تھکان اتارتے رہے لیکن عمران نے تو پورا ایک مہینہ اس سیاسی مشق میں گزار دیا اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

عمران نے ایک شاندار اسپتال بنایا، کئی تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی اور شکار کھیلے لیکن اس مشقت کی کسی کو توقع نہ تھی۔ بہرحال اب اس کے مخالف بھی ہار گئے ہیں اور ’’تو تیر آزما میں جگر آزماؤں‘‘ والی حالت میں آ گئے ہیں۔ اگر وزیر اعظم کو ان کی کابینہ کے بعض پر جوش یا خوفزدہ وزراء نے طاقت کے استعمال کا مشورہ دیا جو کسی حکومت کے لیے بظاہر آسان ہوتا ہے لیکن متفقہ فیصلہ یہ تھا کہ بات چیت سے مسئلہ حل کیا جائے۔

ویسے طاقت کا استعمال اب مشکل ہو گیا ہے۔ پولیس انکاری ہے اور فوج کہتی ہے کہ اپنا مسئلہ خود حل کریں۔ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر حالات دگرگوں نہ ہو گئے تو فوج اپنے اصل کام میں بھی مصروف رہے گی اور اب وہ ایک مقدس جنگ میں مصروف ہے۔ یہ ایک صحیح جہاد ہے اور فوج کے جوان اسی کے لیے زندہ ہیں۔ غازی یا شہید۔ فوج اپنے اس شاندار موقع کو چھوڑ کر خود غرض اور لالچی سیاستدانوں کی سیاست میں کیسے دخل دے سکتی ہے بلکہ اگر کوئی فوج کی توجہ اس جہاد سے ہٹانا چاہتا ہے تو وہ غداری کرتا ہے۔ اپنے ملک کے ساتھ اور اپنے ایمان کے ساتھ لیکن فی الحال ہم بل زدگان سے ہمدردی کریں گے کیونکہ ہم خود بھی یکے از بل زدگان ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔