- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
اقبال کی کانٹ پر تنقید
ہر فلسفی کا اپنا ایک فلسفیانہ نظام ہوتا ہے، جس میں حسیات، مقولات (Categories) اور تعقلات (Concepts) مخصوص فلسفیانہ نظام کے داخلی تقاضوں کے تحت تشکیل دیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مختلف فلسفوں میں مقولات، تعقلات اور خیالات مختلف مفاہیم رکھتے ہیں اور ان مقولات اور تعقلات کا استعمال جس طریقے سے کیا جاتا ہے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔
جدید فلسفے میں عمانوئیل کانٹ کا شمار ایک ایسے ہی اہم اور بڑے فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ جنھوں نے مغربی دنیا میں تفکر کے دھاروں اور دنیا کے بارے میں نقطہ نظر کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اٹھارویں صدی میں جب برطانوی تجربیت اور جرمن عقلیت اپنے حتمی نتائج کی بنا پر بند گلی میں پہنچ چکی تھیں، تو کانٹ نے ان دو مختلف روایات کی تنقید پیش کی اور اپنے فلسفے کو ’’تنقیدی فلسفے‘‘ کا نام دیا۔ تنقیدی فلسفہ دراصل ہے کیا، اس کی تشریح و تنقید میں اگلی چند سطور پر کروں گا۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے اپنے سات خطبوں پر مشتمل کتاب ’’فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل‘‘ میں عمانوئیل کانٹ کاذکرکئی اہم مقامات پر کیا ہے۔
کئی جگہ کانٹ کی توثیق کی ہے، کئی مقامات پر ان سے اختلاف کیا ہے اور کئی مقامات پر بغیر کسی بھی دلیل کے ان کومحض ایک یا دو فقروں میں رد کردیا ہے۔ پہلے ہی خطبے میں کانٹ کی اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ ’’مطلق حقیقت تک رسائی عقلِ محض کے بس کی بات نہیں ہے۔ ساتویں خطبے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات ہم سب کو معلوم ہے کہ سب سے پہلے کانٹ نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا مابعد الطبیعات ممکن ہے؟ اس نے اس کا جواب نفی میں دیا تھا۔‘‘ گہرائی سے دیکھنے سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کے ان دونوں اقتباسات کا تعلق کانٹ سے متعلق حقیقت سے کم اور کانٹ سے متعلق اقبال کی خواہش سے زیادہ ہے۔
اقبال نے علمیات، مابعدالطبیعات اور اخلاقیات میں عقل کے تفریقی اور ممیز کردار کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی۔ کانٹ کہتا ہے کہ ’’نظری عقلِ محض کی تنقید اس سعی پر مشتمل ہے کہ مابعد الطبیعات میں جو طریقہ کار اب تک رائج تھا اسے تبدیل کردیا جائے۔‘‘ یعنی مابعد الطبیعات کو’’ عقل نظری‘‘ کی بجائے ’’عقل عملی‘‘ یا اخلاقیات میں محسوس کرایا جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے عقل عملی کا اثباتی کردار شروع ہوتا ہے اور اس کی تصدیق عقل نظری کرتی ہے۔ اس طرح عقل نظری کے اثباتی کردار ہی سے کانٹ کے الفاظ میں ’’عملی-ازعانی- مابعد الطبیعات کی تشکیل ہوتی ہے مجھے اگلی چند سطور میں اقبال کی اسی غلطی کا تجزیہ پیش کرنا ہے۔
اقبال کی ’’نئی تشکیل‘‘ میں کانٹ کی ’’تنقید عملِ محض‘‘ کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔ نہ ہی اقبال نے کہیں کانٹ کی کتاب ’’تنقید عقل محض‘‘ سے کوئی ایک بھی اقتباس دے کر اس پر اپنا تجزیہ پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال عقل کے عملی اور نظری استعمال کو نہ سمجھ سکے۔ اور علمیات اور اخلاقیات میں عقل کے مختلف اور امتیازی کردار کو شناخت نہ کرسکے ۔عقل کے نظری استعمال کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ تجربیت اور عقلیت کی ان روایات کا علم ہوجن کی تنقید کانٹ نے پیش کی تھی۔ تجربیت کی روح یہ ہے کہ اس میں عقلیت کے فعال کردارکو تسلیم نہ کرتے ہوئے علم کو محض حواس سے موصول مواد تک محدود کردیا جاتا ہے۔ جب کہ عقلیت کی روایت میں حسیات کے فعال کردار کو معدوم تصور کرتے ہوئے عقل کو براہِ راست ’’شے فی الذات‘‘ کو جان لینے کا فریضہ سونپ دیا جاتا ہے۔
کانٹ نے انسانی صلاحیتوں (Faculties) یعنی حسیات، فہم اورتعقل میں تفریق و تضاد کو دکھایا۔ حسیات ’شے فی الذات‘‘ تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہوتی ہیں ، نہ ہی وہ شے فی الذات میں مضمر مطلق وجود کو جان سکتی ہیں۔ جو مواد حسیات ، فہم کو پہنچاتی ہیں اس کا تعلق شے فی الذات میں شامل مطلق جوہر سے نہیں بلکہ محض مظاہر سے ہوتا ہے۔ اس طرح کانٹ نے مظہر اور جوہر کے درمیان حد فاصل کھینچی، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ فہم محض بھی شے فی الذات میں موجود مطلق وجود تک پہنچنے کی بجائے محض حسیاتی معروض تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ فہم کے اندر مقولات بدیہی طور پر موجود ہوتے ہیں اور وہ صرف حسیات سے حاصل شدہ معروض کا جوڑ تلاش کرتے ہیں اور خیال کے ذریعے تعقلات کا اطلاق حسیاتی معروض پر کردیا جاتا ہے۔ اس طرح عقل کا کوئی نظری استعمال باقی بچتا ہی نہیں ہے۔
کانٹ کی جرمنی میں وولف اور لائبنز کی عقلیت اور برطانیہ میں جان لاک اور لارڈ ہوبز پر کی گئی تنقید درست ہونے کے باوجود نامکمل تھی، جسے بعد ازاں شیلنگ، فختے اور ہیگل نے دور کردیا۔ ایک نکتہ یہاں پر ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ علمیات اور مابعد الطبیعات میں عقل کے محدود کردار کو صرف اس لیے اجاگر کیا جاسکا کہ عقل، مظہر اور جوہر اور بعد ازاں حسیات اور فہم کے درمیان تضادات کی تحلیل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ لہذا عقل کا کردار تضاد کے تصور کے تحت محدود ہوتا ہے۔ جب یہ نتیجہ اخذ کرلیا جاتا ہے کہ عقل کا کردار اسی وقت فاعلانہ ہوسکتا ہے کہ جب اسے تضادات میں الجھنے سے بچایا جائے تو کانٹ نے صرف فہم محض کے مقولات پر توجہ دی۔ فہم محض کے تصورات جب حسیات سے منقطع ہوجاتے ہیں تو ان کا تصور کیا جاسکتا ہے۔
یہاں پر کانٹ پر یہ تنقید کی جاسکتی ہے کہ علم کے حصول کے لیے اس نے حسیات سے موصول معروض کو ضروری گردانا ہے۔ وہی معروض عقل اور فہم کے درمیان تضاد کو دکھاتا ہے۔ اب اگر حسیات سے موصول معروض کو لازمی سمجھا جائے تو عقل کا تضادات میں پھنسنا ضروری ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کانٹ نے عملی تنقید میں تعقل سے فہم محض کے مقولات کا علم حاصل کرنے کا کام نہیں لیا بلکہ ان کو صرف تصور کرنے کا کام لیا ہے۔ اس طرح فہم محض ایک تصور کے طور پر موجود رہتی ہے جس کا علم حاصل نہیں کیا جاسکتا، لیکن ایک ایسے تصور کے طور پر اس کا موجود رہنا لازمی ہے جو تناقضات سے ماورا ہو۔
اقبال کو کانٹ کے فلسفے کے صرف ان قضایا کا علم تھا جن کی وجہ سے کانٹ کی مابعد الطبیعات کی ’نظری‘ جہت محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ لکھتے ہیں کہ ’’کانٹ کا نظریہ شے حقیقی اور مظہر کے باعث اس کی مابعد الطبیعات کے امکان کا سوال محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔‘‘ یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ شے حقیقی اور مظہر کے باعث نہیں بلکہ ان کے درمیان حتمی’’ تفریق‘‘ کی وجہ سے مابعد الطبیعات کے لیے نظری عقل محدود ہوتی ہے۔ اقبال نے کہیں بھی کانٹین مقولات یعنی شے فی الذات اور مظہر کے درمیان تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ وہ ابنِ عربی کی یہ دلیل پیش کردیتے ہیں کہ ’’ممکن ہے کہ جس شے کو ہم خارجی دنیا کہتے ہیں محض ایک ذہنی تشکیل ہو اور انسانی تجربے کی اور بھی ایسی سطحیں موجود ہوں جن کا تعلق زمان و مکاں کی کسی اور سطح سے ہو۔‘‘ ابن عربی کے پیش کردہ خیالات کی حیثیت مفروضے سے زیادہ نہیں ہے۔
کانٹین خیال کی تعقلی و منطقی تشکیل سے ان کا تقابل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کانٹین دلائل کو رد ہی کیا جاسکتا ہے۔ کانٹ کے نومینا جو کہ فہم محض کے مقولات پر مشتمل تھا اور عقل نے جسے بطورِ تصور تسلیم کرلیا تھا، محض اس لیے کہ اخلاقی اصولوں کی پاسداری کے ’’ارادے‘‘ کا بااختیار ہونا ضروری ہے، اقبال مابعد الطبیعات کے تعلق سے عقل عملی کے تفاعل کا تفہیم میں ناکام رہے ہیں۔
خارجی تجربے کے برعکس فہمِ محض باطنی تجربے کی ایسی ہی صورت تھی جس کی تشکیل تعقلی رہنمائی میں ہوتی ہے اور جو خارجی تجربے سے موصول معروضات سے منقطع ہو جاتی ہے، اس لیے وہ مطلق جو ماورائے حواس ہونے کی وجہ سے ’’غیر معین‘‘ رہتا ہے،نظری عقل ایک لازمی ’تصور‘ کے طور پر اس کے ’مطلق ‘ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔ یہی الٰہیات کی روح تھی جس کے تحت انسان کو بطورِ ایک اخلاقی وجود کے بااختیار کرنا تھا۔ خدا، روح اور اختیار جیسے تصورات کا تعلق اخلاقیات سے قائم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ علمیاتی مابعد الطبیعات کے کردار کو محدود کردیا جائے۔ لہٰذا مذہب کی روح اخلاقیات میں ہے نہ کہ علم میں!
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔