نجی تعلیم یا تجارتی جنس؟

ثناء غوری  اتوار 14 ستمبر 2014
sana_ghori@outlook.com

[email protected]

پوری لگن، پوری محنت سے تعلیم حاصل کرکے سندیافتہ ہونے کے بعد اور عملی شعبے میں قدم رکھنے کے باوجود اگر کوئی آپ کی ڈگری ہی کو چیلنج کردے تو آ پ کا رویہ کیا ہوگا؟ ظاہر ہے، آپ  ’’اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں‘‘  کی تصویر بن جائیں گے۔ کچھ ایسا ہی حال موجودہ سالوں میں پاکستان میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کا بھی ہورہا ہے۔

سرکاری اور نجی سطح پر قائم کی جانے والی یونیورسٹیوں میں مخصوص شعبہ جات کے حوالے سے مضامین کو مختلف انداز میں پڑھایا جاتا ہے۔ یعنی یوں کہیے کہ سرکاری یونیورسٹیاں جو مضامین ایک خطیر رقم لے کر پڑھا رہی ہیں انھیں نجی یونیورسٹیاں انگریزی کا تڑکا لگا کر پڑھاتی ہیں۔ اور جب ایک سرکاری یونیورسٹی کا طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنی ڈگری آزمانے نکلتا ہے تو اس کی تعلیم کو وقت کا ضیاع کہہ کر رد کردیا جاتا ہے۔ یہاں میں وضاحت کرتی چلوں کہ سرکاری جامعات اعلیٰ تعلیم مفت میں نہیں دیتیں، بلکہ اس کے لیے طلبا اور طالبات کو اچھی خاصی رقم ادا کرنی پڑتی ہے، جو کم سے کم بھی پچیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ کے قریب ہے۔

کئی خانوں میں بٹے معاشرے میں ہر چیز کے لیے دُہرے اور تہرے معیار ہونا اچھنبے کی بات نہیں۔ ہماری تعلیم بھی ایسی ہی تقسیم کا شاہکار ہے، سرکاری سطح پر تو جیسی تیسی تعلیم ہمارے طالب علموں کو میسر آہی جاتی ہے، لیکن نجی سطح پر تو اسے عملاً ایک تجارتی جنس بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اکثر نجی سطح کے اسکولوں کی بات کی جاتی ہے، کم ہی کسی نے اس سمت نشان دہی کی ہے کہ نجی شعبے میں تیزی سے خود کو مستحکم کرتی جامعات ہمارے لیے کیا گُل کھلا رہی ہیں۔

پرویز مشرف کے دور میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) نے اپنی فعالیت کے زمانے میں ایک طرف جہاں سرکاری جامعات کو بھرپور وسائل فراہم کیے تو دوسری طرف نجی شعبے میں قائم ہونے والی جامعات پر بھی توجہ دی، ایچ ای سی کے مشکل پیمانے پر بہت سی جامعات پورا  نہ  اتر پائیں، جس کی بنا پر ان کی ڈگریاں اپنی وقعت کھونے لگیں۔ پھر نئی حکومتوں کو ایچ ای سی سے اﷲ واسطے کا بیر ہوگیا۔ اب عالم یہ ہے کہ یہ ادارہ ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ جب خود اس ادارے کے وجود پر ہی سوالیہ نشان ہے تو پھر یہ ادارہ نجی جامعات کے معاملات کی کیا نگرانی کرے گا۔

نجی جامعات کی صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا مطمع نظر فقط زیادہ سے زیادہ پیسوں کے عوض ڈگریاں دینا ہے۔ اب اسی کو دیکھ لیں کہ شہر کی ایک نام وَر نجی جامعہ میں ایک مضمون ’’میڈیا سائنس‘‘ کے نام سے پڑھایا جا رہا ہے۔ بظاہر تو یوں ہی معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری جامعات میں جو چیزیں ’’ابلاغ عامہ‘‘ میں پڑھائی جا رہی ہیں، قریب قریب یہ ان ہی مندرجات پر مشتمل ہوگا یا پھر یہ ہوگا کہ اہم ذرایع ابلاغ کے حوالے سے کچھ تخصیصی موضوعات پر مشتمل ہوگا، مگر جاکر دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ذرایع ابلاغ سے منسوب اس اہم مضمون میں اگر لکھنے سے متعلق کچھ چیز ہے تو وہ فقط ’’اسکرپٹ‘‘ ہے! جی ہاں، ذرایع ابلاغ کیا محض اس صنف تک محدود کیے جاسکتے ہیں؟

یقیناً نہیں۔ـ ڈیجیٹل میڈیا کا لفظ سننے میں کانوں کو بھلا محسوس ضرور ہوتا ہے۔ لیکن صرف اس کا چرچہ کر کے ہم اسے مکمل ابلاغ عامہ کے مضمون پر حاوی نہیں کر سکتے۔ یہ فقط ابلاغ عامہ کی ایک شاخ ہے ۔ابلاغیات کی ذرا سی بھی شد بد رکھنے والا اس کا جواب واضح نفی میں دے گا۔ ابلاغ کا عمل دنیا کی وسعت کو سمیٹتے ہوئے کئی خانوں میں تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے۔صحافت بھی ابلاغ عامہ کا ایک شعبہ ہے۔

چلیے ایک لمحے کو ہم یہ مان لیتے ہیں کہ تجارتی ضرورت کے پیش نظر ابلاغیات میں سب سے مہنگی لکھت ’’اسکرپٹ‘‘ نامی صنف ہی کی رہ گئی ہے، چناں چہ یہ جامعات اسی کے بارے میں پڑھا رہی ہیں، مگر کیا اسکرپٹ فقط اس لفاظی کا نام ہے، جو کوئی بھی کردار کیمرے کے سامنے آکر کرے اور چلا جائے۔ بالکل نہیں۔ ذرایع ابلاغ کے تو نام ہی سے واضح ہے کہ یہ مضمون ابلاغ سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ اسکرپٹ ابلاغ ہی کا کام کر رہا ہے، مگر اس میں الفاظ کا چناؤ اور برتاؤ کیا ہوگا۔ کس موقعے پر کس طرح کی بات کرنی ہے۔ معاشرے کے کس طبقے کی توجہ مرکوز کرنا ہے اور کن چیزوں سے گریز کرنا ہے، کس طرح اپنے ابلاغ کو ہمہ گیر اور موثر بنانا ہے۔ ان جامعات میں ان میں سے کسی سوال کا جواب نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح اسکرپٹ کے لیے دسیوں قسم کی چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر یہاں تو لگتا ہے کہ اسکرپٹ بھی ایک مجبوری ہے کہ جو بھی اور جیسا بھی کے فارمولے کے تحت جیسے تیسے نمٹا دو۔

نہیں معلوم ایسے سطحی سے علم کو لے کر جب طالب علم میدان عمل میں آئیں گے تو ان کی اس ڈگری کی وقعت کیا ہوگی۔ اگر قبول کر بھی لی گئی تو ہمارے جیسے تباہ حال اور مسائل زدہ معاشرے میں یہ مزید کتنی قسم کی خرابیوں کا باعث ہوگی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ علم کو شعور اور سوچ میں گیرائی اور گہرائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے ڈگری حاصل کرکے پیسے کمانے کی مشین بننے تک محدود کردیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے سماجی علوم جیسے وسعت اور گہرائی کے حامل علوم کی تعلیم دیتے ہوئے بھی ’’دو جمع دو‘‘ کا طریقہ اپنایا جارہا ہے۔ یہ محض ایک جامعہ کے صرف ایک مضمون اور اس کی ’’علمیت ‘‘ کی معمولی سی جھلک ہے۔ اگر ان جامعات کے نصاب اور ان کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً دیگر بھی بہت سی ایسی مثالیں یا شاید اس سے بھی بدتر مثالیں سامنے آسکتی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نجی جامعات کوبے مہار نہ چھوڑے اور ان کے معیارِتعلیم سے فیسوں کی وصولی تک ہر معاملے کی نگرانی کی جائے۔ کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والی جامعات کی تعداد کو سامنے رکھ کر ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہمارے یہاں تعلیم کے مواقعے میں اضافہ ہوا ہے، علم اور شعور کی منزل پانے کے لیے ہمیں معیاری تعلیم کو اپنی ترجیح بنانا ہوگا، اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ نجی جامعات محض معاشرتی تفاخر اور طبقاتی تقسیم کا ذریعہ ثابت ہوں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔