لڑکھڑاتی پاکستان کرکٹ کو ایک اور ٹھوکر

سلیم خالق  اتوار 14 ستمبر 2014
سعید اجمل پر پابندی ایک سبق، پی سی بی کو خواب غفلت سے جاگنا ہوگا۔  فوٹو : فائل

سعید اجمل پر پابندی ایک سبق، پی سی بی کو خواب غفلت سے جاگنا ہوگا۔ فوٹو : فائل

چند ماہ پہلے کی بات ہے میں فیصل آباد میں سعید اجمل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا ان سے باتیں کر رہا تھا، ایسے میں مشکوک بولنگ ایکشن کی بات ذہن میں آئی جس کا انھوں نے جواب دیا کہ ’’ایک حادثے کی وجہ سے قدرتی طور پر اب بازو کا خم 15 ڈگری تک محدود نہیں رہ پاتا، آئی سی سی نے بھی اجازت دی ہوئی ہے‘‘ اس وقت ان کے نہ میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ ایک بار پھر یہ مسئلہ اٹھ کھڑا ہو کر ’’دوسرا ماسٹر‘‘ کے کیریئر پر ہی سوالیہ نشان لگا دے گا،مگر زندگی میں ایسے بہت سے واقعات ہوتے ہیں۔

جن کے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں ہوتا، سعید اجمل نے بھی شائد یہ سمجھا ہو کہ جب مرلی دھرن میڈیکل مسئلے کو جواز بنا کر جیسے چاہیں بولنگ کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں، یہی بات ان کو مشکل کا شکار کر گئی، آئی سی سی اب طے کر چکی ہے کہ کسی بولر کو اس جواز پر کلیئر نہیں کیا جائے گا کہ قدرتی طور پر اس کا بازو 15 ڈگری تک محدود نہیں رہ سکتا،حالات اب قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسٹار اسپنر پاکستان کے لیے آخری میچ کھیل چکے، شائد میری بات غلط ہو مگر زمینی حقائق یہی بیان کرتے ہیں۔

یہ رواں برس جون کی بات ہے بنگلور میں آئی سی سی کرکٹ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا، اس میں کوئی پاکستانی شامل نہیں ہے، بعد میں جب پریس ریلیز جاری ہوئی تو پورا ایک پیراگراف مشکوک بولنگ ایکشن کے بارے میں تھا، اس کی کچھ خاص باتیں یہ تھیں کہ ’’انٹرنیشنل کرکٹ میں غیرقانونی ایکشن کو پکڑنے کا طریقہ کار زیادہ کارآمد نہیں ہے، کئی بولرز مشکوک ایکشن کے باوجود بولنگ کر رہے ہیں اور انھیں کوئی نہیں پکڑتا، ایسے میں ضروری ہے کہ میچ آفیشلز کو بائیو مکنیکس کی مدد حاصل ہو تاکہ وہ زیادہ اعتماد سے ایسے بولرز کی نشاندہی کر سکیں‘‘۔

اس سے قبل بھی کونسل کی میٹنگز میں یہ اشارے دیے جا رہے تھے کہ جلد ہی مشکوک ایکشنز کے خلاف آپریشن شروع ہونے والا ہے، اس کے باوجود پی سی بی نہ سعید اجمل نے کوئی نوٹس لیا، سب کے ذہن میں یہی تھا کہ جیسے پہلی بار رپورٹ ہونے پر میڈیکل رپورٹ دکھا کر بچ گئے تھے اب بھی ایسا ہی ہو گا، معاملے کو اتنا آسان سمجھنا ہی ہمیں لے ڈوبا اوراب ٹیم ممکنہ طور پر ورلڈکپ میں اپنے بہترین اسپنر سے محروم ہو گی، گذشتہ چند برسوں میں پاکستان نے زیادہ تر ٹیسٹ سعید اجمل کی وجہ سے ہی جیتے، کوئی اور ملک ہوتا تو ان کے کیریئر پر خطرات کے بادل منڈلاتے دیکھ کر فوراً ایسے اقدامات شروع کر دیتا جس سے بہتری کی کوئی گنجائش سامنے آتی مگر افسوس کہ اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا۔

شائد بورڈ حکام کو بھی ایسا ہی لگتا تھا کہ آف اسپنر کا بچ نکلنا مشکل ہے ایسے میں وہ جتنی کرکٹ کھیل سکتے ہیں کھیلنے دیں، اب 10 لاکھ روپے دے کر ایک ماہ کے لیے ثقلین مشتاق کو انگلینڈ سے پاکستان بلایا گیا ہے، یہ وہی ثقلین ہیں جنھوں نے کوچز کے لیے اشتہار دیکھ کر اپلائی کرنے کی ’’غلطی‘‘ کر دی تھی، حالانکہ اس وقت کے چیئرمین نجم سیٹھی پہلے ہی وقار یونس اور مشتاق احمد کی تقرریوں کا فیصلہ کر چکے تھے۔

بیچارے ثقلین کو تب تو ایک ای میل کر کے یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ’’آپ کی درخواست موصول ہو گی جلد رابطہ کیا جائے گا‘‘ اب مشکل پڑی تو بورڈ حکام نے ان کی ایک ٹویٹ سے متاثر ہو کر پاکستان مدعو کر لیا، ایک ماہ میں وہ کیا کر سکیں گے؟اگر اس عرصے میں انھوں نے سعید اجمل کا بولنگ ایکشن درست کرا دیا تو میرا بورڈ کو مشورہ ہے کہ فوری طور پر غیرقانونی بولنگ ایکشن کو روکنے کا ایک شعبہ بنا کر انھیں انچارج بنا دیں، اس سے شائد ڈومیسٹک کرکٹ کے وہ 35 بولرز بھی ایکشن ٹھیک کر لیں جن کی چیئرمین شہریارخان نے نشاندہی کی ہے، اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو ثقلین کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں جیسے رگڑتے ہی وہ سعید اجمل کا بولنگ ایکشن درست کرا دیں گے، اگر 15 کے بجائے 20 ڈگری بھی ہوتا تو سعید کے بچنے کا امکان موجود ہوتا، خود چیئرمین اعتراف کر چکے کہ برسبین میں بائیومکینک ٹیسٹ کے دوران اسپنر تقریباً تین گنا زائد حد 42 ڈگری تک بھی گئے تھے۔

اب اگر وہ خود 15 ڈگری تک آ بھی گئے تو پہلے جیسے مفید نہیں رہیں گے، بورڈ آفیشلز اس حقیقت سے واقف ہیں مگر صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے ثقلین کو بلایا کہ دیکھیں ہم نے تو سعید اجمل کو کلیئر کرانے کی اپنی مکمل کوشش کی تھی۔ ویسے ہمیں بھی اس میں سازشی عنصر کی تلاش کے بجائے دیگر بولرز کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، دہشت گردی ہو یا سیلاب آئے ہم ہر چیز کو غیرملکی سازش قرار دے کر جان چھڑا لیتے ہیں، بگ تھری کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا اور بعد میں خاموشی سے اس کی گود میں جا کر بیٹھ گئے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ٹیم اب ایسی کون سی غیرمعمولی کارکردگی دکھا رہی ہے کہ اس کے خلاف سازشیں کی جائیں، فرض کریں کہ اگر سعید اجمل ورلڈکپ کھیل بھی جائیں تو کیا پاکستان چیمپئن بن جائے گا؟ یہ معاملہ صرف ہمارے ملک تک محدود نہیں، کئی دیگر ممالک کے بولرز بھی زد میں آئے ہیں۔

آئندہ چند روز میں بھارت کے ایشون اور ویسٹ انڈین سنیل نارائن بھی اگر کریک ڈاؤن کا شکارہوں تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے، آئی سی سی نے تمام امپائرز اور ریفریز کو خصوصاً آف اسپنرز پر نظر رکھنے کا کہا ہے۔ سعید اجمل کے معاملے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ بورڈ از خود انھیں قومی ٹیم سے چند ماہ دور رکھ کر ایکشن کی درستگی پر کام کرتا، شائد اس سے کوئی بہتری آ جاتی، اس تنازع میں کپتان مصباح الحق بھی برابر کے قصوروار ہیں۔

انھوں نے آف اسپنر کا دل کھول کر استعمال کیا، سابق اسٹار عاقب جاوید بھی اس نکتے کی نشاندہی کر چکے کہ زیادہ بولنگ سے سعید اجمل کا ایکشن مزید خراب ہوا، آپ کسی سے 50،60 اوورز کرائیں گے تو وہ ڈگری وگری کا کیا سوچے گا۔ ایسے میں اسٹار اسپنر سے بھی ایک غلطی ہوئی، انگلش کاؤنٹی کرکٹ کھیل کر انھوں نے دولت تو یقیناً کمائی مگر کیریئر خطرے میں ڈال دیا، وہاں ہر میچ میں وہ حریف بیٹسمینوں کا جینا دوبھر کرتے رہے، اس سے گوروں کے کان کھڑے ہوئے اور انھوں نے سعید کے خلاف مہم شروع کر دی، اسی لیے وسیم اکرم نے سابق انگلش کرکٹر و موجودہ کمنٹیٹر مائیکل وان کو قصور وار ٹھہرایا ہے۔

قومی کرکٹ ٹیم سری لنکا میں ٹیسٹ اورون ڈے سیریز دونوں ہار کر واپس آئی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ٹیم مینجمنٹ مل بیٹھ کر شکست کی وجوہات تلاش کرتی مگر چیف کوچ وقار یونس آسٹریلیا واپس چلے گئے، اس سے ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، چند ماہ میں یہ ان کا اپنے ’’وطن‘‘ کا دوسرا دورہ تھا، اگر ڈیوواٹمور ایسا کرتے تو شور مچ چکا ہوتا مگر وقار کے معاملے میں سب نے چپ سادھی ہوئی ہے، کیا وہ ہر ماہ ملنے والے 14 لاکھ روپے کا حق ادا کر رہے ہیں؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہی سامنے آئے گا، ان کی آمد کے بعد فاسٹ بولنگ میں تو بہتری آنی چاہیے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا، وقار یونس بھی کوئی وطن سے محبت میں واپس نہیں آئے۔

دراصل گذشتہ دور کوچنگ میں جب انھوں نے عہدہ چھوڑا تو یہ خیال تھا کہ آسٹریلیا میں کوئی ملازمت مل جائے گی، مگر وہاں معاملہ پاکستان جیسا تھوڑی ہے جہاں جسٹس قیوم رپورٹ کو بھلا کر وقار، مشتاق سمیت سب کو ملازمتیں فراہم کر دی جائیں،آسٹریلوی بورڈ نے وقار یونس کی بولنگ کوچ کے لیے درخواست مشکوک ماضی کی وجہ سے ہی رد کی، پھر انھیں دوبارہ پاکستان کی یاد آئی تو یہاں بھی بازو پھیلائے سب گلے لگانے کے لیے تیار کھڑے تھے، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جو سابق کرکٹرز پاکستان کی وجہ سے ارب پتی بنے اب اس کے لیے ایک دن بھی مفت میں کام کرنے کو تیار نہیں، خیر کسی کو اس کی ضرورت بھی نہیں پی سی بی ایک مالدار ادارہ ہے وہ ان کے مطالبات قبول بھی کر سکتا ہے، مگر ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وسیم اکرم کو پاکستان نے اتنا کچھ دیا انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملکی کرکٹ کے لیے کیا کیا؟ وہ بھارت کی چمک دمک سے متاثر ہو کر وہیں کے ہو گئے۔

یہاں ایک ہفتے کے لیے کیمپ میں بلایا تو ایک موبائل فون کمپنی کی اسپانسر شپ سے کئی لاکھ روپے دینے پڑے،میانداد نے کئی برس نام کا ڈائریکٹر جنرل بن کر کروڑوں روپے کمائے اور جاتے جاتے بھی لاکھوں کی قیمتی گاڑی کوڑیوں کے مول لے گئے،انتخاب عالم، ذاکر خان، ہارون رشید جیسے سابق کرکٹرز بورڈ سے چمٹ کر اپنا بینک بیلنس بڑھانے کے سوا کیا کر رہے ہیں، ایسے میں مجھے صرف ایک ہی ایسا سابق کھلاڑی نظر آتا ہے جو پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتا اور وہ ہیں راشد لطیف، انھیں بورڈ ایک ماہ کے لیے وکٹ کیپرز کا کیمپ لگانے کا کہہ دے دوڑے چلے آئیں گے،پیسے کا ازخود ذکر تک نہیں کریں گے، کراچی میں ان کی فری کوچنگ اکیڈمی سے کئی کرکٹرز ابھر کر سامنے آئے، ایسے صاف گو،ایماندار اور بے لوث لوگ ارباب اختیار کی گڈ بکس میں جگہ نہیں بنا پاتے، اسی لیے راشد بھی بورڈ کے ساتھ منسلک نہ ہو سکے۔

افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگ عبوری نظام کے تحت چل رہے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ ایک انسان کے جسم میں کینسر پھیلنے لگا مگر اس کا علاج کرانے کے بجائے یہ سوچتے ہیں کہ جب تک چل رہا ہے چلنے دو، چلیں مان لیتے ہیں کہ سعید اجمل بولنگ ایکشن کلیئر کروا کر ٹیم میں واپس آ جائیں گے مگر ان کی عمر37 برس ہو چکی، وہ اور کتنے سال کھیلیں گے، ان کا متبادل کون ہو گا کسی کو کچھ علم ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ پابندی لگنے کے بعد جب دیگر آف اسپنرز کی جانب دیکھا گیا تو ان کے ایکشن بھی مشکوک نظر آئے، اب پتا نہیں اس پر ہنسنا چاہیے یا افسوس کا اظہار کریں، ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ مصباح الحق 40 سال کے ہو چکے مگر ان کا کوئی متبادل کپتان نہیں ڈھونڈا، شائد ملکی کرکٹ کا چالیسواں ہونے کے بعد ہی کچھ سوچا جائے گا، سابق عظیم وکٹ کیپر معین خان چیف سلیکٹر ہیں مگر کوئی معیاری وکٹ کیپر بیٹسمین تلاش نہیں کر سکے۔

نوجوان بیٹسمینوں کو مواقع دینے کے بجائے یونس خان کو بغیر کسی پرفارمنس کے ون ڈے میں واپس لانے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سلیکٹرز کی سوچ کیا ہے، ایک زمانے میں ہمارا پیس اٹیک دہشت کی علامت تھا اب خود اپنا کپتان خوفزدہ رہتا ہے کہ یہ بیچارے کیسے وکٹیں لیں گے؟ جس طرح ہمارا ملک کئی بحرانوں کا شکار ہے کرکٹ بھی اس سے مبرا نہیں، بورڈ میں اقتدار کی جنگ، انٹرنیشنل میچز کی میزبانی سے محرومی اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل وغیرہ نے ہمیں بہت پیچھے کر دیا ہے، اب جیسے زمبابوے نے گذشتہ دنوں آسٹریلیا کو ایک میچ میں ہرا کر خوشیاں منائیں ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں، پوری سیریز یا ٹورنامنٹ میں کارکردگی کا معیار برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا، ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو میری باتیں تلخ لگیں مگر دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ کیا واقعی ملک میں ٹیلنٹ کی بھرمار ہے۔

ساری سازشیں ہمارے خلاف ہی ہو رہی ہیں، اسپاٹ فکسنگ کا الزام غلط تھا؟ سعید اجمل کا ایکشن ٹھیک ہے؟ ہاں میں جواب دینا آسان ہے کیونکہ اس سے مسائل کا حل نکالنے سے جان چھوٹ جائے گی لیکن اگر ہم اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہیں توسسٹم میں موجود خامیاں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، چیئرمین شہریار خان کا ہنی مون پیریڈ ختم ہو چکا، اب انھیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے، ہو سکتا ہے کہ فوری طور پر نہیں مگر چند سال میں ہماری ٹیم دوبارہ سے فتوحات کی راہ پر گامزن ہو جائے گی، شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپا کر بیٹھ جانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔