غلام

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  پير 15 ستمبر 2014
03332257239@hotmail.com

[email protected]

خان کو محسوس ہوا کہ وہ غلام کی مانند ہے، بستی میں طاقتور گروہ کا راج تھا۔ وہ اسپورٹس مین تھا اور اس کا نام عین سے شروع ہوتا تھا، وہ یہ سب کچھ دیکھ کر پریشان ہوتا، اس کے بھائی بندے کہتے کہ سب کچھ یونہی چل رہا ہے اور یونہی چلے گا۔ تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو، قریبی جاننے والے کہتے تم کھلاڑی ہو اور اپنے کھیل پر توجہ دو۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ عمران خان کی بات ہے تو کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ سو فیصد درست ہیں؟

بستی میں زور آور گروہ کا تمام معاملات پر قبضہ تھا، ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہ ہوسکتا تھا، تمام لوگ ان سے ڈرتے تھے، جو لیڈر تھا وہ جسمانی اور مالی طور پر مضبوط تھا، اس کے آس پاس کے لوگوں نے اپنے آپ کو پاور فل کرلیا تھا، اس کے ساتھی جانتے تھے کہ ان کے دانے پانی اور عیاشی کا باعث ان کا لیڈر ہے۔ کیا آپ اسے پاکستان کی کہانی سمجھ رہے ہیں؟

اسپورٹس مین نے سسٹم کے خلاف آواز اٹھائی، سب سے زیادہ مخالفت اس کے قریبی لوگوں نے کی، لیکن وہ ڈٹا ہوا تھا۔ طاقتور گروہ اس کی باتوں کو کوئی اہمیت نہ دیتا۔ وہ کہتے کہ پہاڑ کے سامنے رائی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، وہ کہتا کہ سسٹم کے خلاف لوگوں کو اٹھنا ہوگا، اپنے نام میں الف اور میم کے حرف لیے شخص کہتا کہ جب تک مظلوم لوگ ظالم کے خلاف نہیں اٹھیںگے اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا۔ کچھ سمجھ میں آرہا ہے کہ کالم میں کیا بات ہورہی ہے؟

کشمکش جاری تھی۔ کوئی بھی کھلاڑی کی سننے کو تیار نہ تھا۔ جن پر ظلم ہورہا تھا وہ اسے خوشی سے سہہ رہے تھے۔ وہ بھتہ دے کر اپنے محفوظ ہونے پر خوش تھے۔ کسی کی جرأت نہ تھی کہ سب سے طاقتور آدمی کے مقابل آسکے۔ ہمارے کالم کا ہیرو ناکام تھا۔ وہ خود اپنی جگہ طاقتور تھا۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی قوتیں اسے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ اب وہ کیا کریںگے جو حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں؟

طاقتور کی اس کمزور پر نظر ہوتی ہے جس میںبغاوت کے جراثیم ہوں۔ باتیں کرنے والے لوگ ہیرو کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال رہے تھے۔ یہ کب تک ہوگا؟ یہ بات سسٹم کے محافظوں کے علم میں تھی۔ وہ جانتے تھے، یہ منہ پھٹ ان کے خلاف بہت کچھ کر رہا ہے۔ وہ باخبر تھے کہ لوگ اس کی بات سن کر ہمارے ڈر سے چپ ہیں۔ وہ اس کاعلاج ڈھونڈ رہے تھے، کیا کرنا چاہیے آج کے بے ضرر لیکن کل کے خطرناک شخص کا؟ وہ ڈرتے کہ کہیں ع الف میم ر کے نام والے کی باتیں کہیں اسے امر نہ کردیں۔ وہ خوف زدہ تھے کہ انھیں کہیں سے مار نہ پڑجائے۔

اسپورٹس مین کو کھیل کے میدان میں ہرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مقابلہ زور دار ہونے کی امید تھی۔ کھلاڑی سمجھ گیا کہ اسے ہرانے کا بندوبست ہوگیا ہے۔ ہروانے والوں میں وہ لوگ تھے جنھیں وہ اپنا سمجھتا تھا۔ دونوں باکسر میدان میں اترے۔ ہیرو زخمی اور لہو لہان تھا۔ طے تھا کہ اسے نہیں جیتنا، کسی اور کے جیتنے پر دائو لگایا گیا تھا، مقابلہ کسی اور سے تھا لیکن خان کے ہارنے کا فائدہ سسٹم کے سب سے طاقتور آدمی کو پہنچنا تھا۔ کیا آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ انتخابی دھاندلی کی بات ہے؟

سچائی کے دعوے دار نے ایک دن میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے سسٹم کے سب سے طاقتور شخص کو چیلنج کیا۔ اسے براہ راست لڑنے کا چیلنج دیا۔ دونوں کا کوئی موازنہ ہی نہ تھا۔ طاقتور نظام کے طاقتور شخص نے چیلنج کرنے والے کی خوب پٹائی کی۔ مار مار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ ہیرو کو چاہنے والی آگے بڑھی تو اس کی سہیلی نے اسے روک دیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ یہ اس کی اپنی لڑائی ہے اور یہ اسے خود ہی لڑنے دو۔ اس بات کو آپ صرف دو عورتوں کا مکالمہ کہیںگے؟

ہیرو سسٹم کے آگے گر کر بے بس پڑا ہوا تھا، طاقتور باکسر کے ساتھی خوش تھے۔ ہیرو کے حامیوں کے چہرے اترے ہوئے تھے کہ ان کے پیارے کے چہرے پر خون ہی خون تھا۔ کھڑا ہوا باکسر گرے ہوئے کو کہتا کہ اٹھ، ابے اٹھ! اس کے کراہ کر اٹھنے پر اسے پھر مارا جاتا۔ ایک گروہ خوش ہو رہا تھا اور ایک گروہ رو رہا تھا۔ ایسا کیا ہر مقابلے میں نہیں ہوتا؟

لہولہان باکسر لڑکھڑاکر اٹھا۔ اسے صاف دکھائی نہیں دے رہا تھا، تین چار مکے کھانے کے بعد اس نے ایک زور دار مکا سسٹم کے سب سے طاقتور شخص کے منہ پر لگا ہی دیا۔ پہلی مرتبہ توانا شخص کے چہرے پر خون دیکھا گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ کمزور باکسر طاقت حاصل کررہا ہے۔ اس نے گھڑی اور چین اتاری اور ساتھیوں سے کہاکہ کوئی قریب نہ آئے، زور دار لڑائی شروع ہوئی۔ کیا آپ اسے سچ مچ کوئی معرکہ سمجھ رہے ہیں؟

ہیرو اب ولن کے چہرے پر مکے برسا رہا تھا۔ ایک منٹ بعد طاقتور شخص دھول چاٹ رہا تھا۔ کمزور لوگوں کے چہروں پر خوشی دیکھی گئی۔ انھوں نے گنتی شروع کردی، ایک دو تین … نو دس۔ لوگوں نے ہیرو کو کاندھے پر اٹھا لیا۔ ولن کے ساتھی بھاگ کھڑے ہوئے، مظلوم لوگ جھوم اٹھے۔ انھوں نے ناچنا گانا شروع کردیا۔ کہیں یہ کسی فلم کی کہانی تو نہیں؟

ولن اٹھ کھڑا ہوا اس نے اپنے ساتھیوں کو بلالیا۔ انھوں نے عام لوگوں کو ڈرانا شروع کردیا، عوام نے لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے غنڈوں کو مار بھگایا۔ لوگ فتح کا جشن منانے لگے۔ زخمی ہیرو دور کھڑا خوش و خرم نظر آرہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ظالم کے مقابلے پر اس کے کھڑے ہونے کے بعد لوگوں میں بھی ہمت پیدا ہوئی۔ زخموں سے چور لیکن شاداب ہیرو کے قریب ہیروئن بھی آگئی، فلم کے ڈھائی گھنٹے کا وقت گزر چکا تھا۔ شائقین نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سینما کی کرسیوں سے اٹھنا شروع کیا۔ آپ بھی نہ جانے کیا سمجھ بیٹھے۔ یہ سب کچھ عامر خان اور رانی مکھرجی کی ’’آتی کیا کھنڈالا‘‘ والی فلم میں تھا۔ یہ ڈرامہ یا لڑائی، سسپنس اور حق و باطل کی کشمکش کے مناظر اس فلم میں تھے جس کا نام ہے ’’غلام‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔