لینڈ مافیا اور چائنا کٹنگ کا کمال

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 15 ستمبر 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گزشتہ کالم راقم نے کراچی شہر کی ماضی کی صورتحال اور کلچر کے متعلق لکھا تھا اس سلسلے میں ہمارے ایک قاری نے کہا ہے کہ کراچی شہر میں پارک اور کھیل کے میدان کی کمی پر بھی ضرور لکھیں تاکہ ہمارے منتخب نمایندوں کی توجہ اس طرف مبذول ہو اور وہ اس اہم مسئلے کا کچھ حل نکال سکیں۔

بلاشبہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس سے قبل بھی راقم نے ان مسائل پر روشنی ڈالی تھی تاہم یہ اس شہر کے باسیوں کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے اس کا حل نکالنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ گزشتہ دہائی میں اس مسئلے میں شدت سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی شہر میں خالی زمین اور میدان بہت زیادہ تعداد میں تھے جہاں تقریباً ہر علاقے کے رہنے والے بچے اور نوجوان اپنے گھر کے قریب ہی کھیل کود میں مصروف رہتے تھے، پارکس میں بیٹھ کر اپنے امتحانات کی تیاری کرتے تھے۔

نارتھ کراچی کے علاقے کے آخر میں یوپی سوسائٹی کے قریب ایک وسیع و عریض پارک و میدان تھا جس میں ایک خوبصورت تالاب بھی تھا۔ ایک جانب مرد و خواتین صبح سویرے یہاں واک کرنے آتے، شام کو بچے سیر کرنے آتے، دوسرے حصے میں کرکٹ کا وسیع میدان اور اس کے برابر ہی فٹ بال کا گراؤنڈ تھا۔ عید کے موقع پر یہاں میلے کا سماں ہوتا تھا، تمام قسم کے جھولے والے، اونٹ اور گھوڑے والے یہاں موجود ہوتے تھے۔

اس عیدالفطر کو میں نے بچوں کو ساتھ لیا اور انھیں کہا کہ آؤ تمہیں اونٹ اور گھوڑے کی سواری کراتا ہوں۔ میں بچوں کو لے کر اس یوپی کے پارک گیا جو سیکٹر 11-J میں سندھ گورنمنٹ اسپتال کے سامنے واقع تھا۔ میں بچوں کو لے کر اس پارک کے چاروں طرف گھومتا رہا کہ کہیں گیٹ نظر آئے تو اندر داخل ہوں، مگر مجھے گیٹ نظر نہیں آیا، چاروں طرف مکانات تعمیر ہوچکے تھے، سڑک کے کنارے سے معلوم ہوتا تھا کہ اندر شاید کوئی سرکاری عمارت بھی بنادی گئی ہے۔ خیر ہمیں گیٹ نظر نہ آیا البتہ قریب ہی دو اونٹ والے نظر آئے جو پارک کے قریب آبادی کی گلیوں میں چکر لگاکر بچوں کو جھولا دے رہے تھے۔

مجھے اس پارک کا یہ حال دیکھ کر نہایت افسوس ہوا کہ اب جب کہ اس علاقے کی آبادی پہلے سے دگنی ہوچکی ہے بجائے اس کے کہ یہاں مزید پارکس و کھیل کے میدان بنائے جاتے، پہلے سے موجود ایک بڑا پارک و میدان بھی ختم کردیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ پارک کے کنارے مکانات بناکر کس نے فروخت کیے؟ کیا یہ ’’چائنا کٹنگ‘‘ کا شاخسانہ تھا یا کہ لینڈ مافیا کا کردار یا حکومتی اداروں اور ہمارے منتخب نمایندوں کی اپنے فرائض سے غفلت؟

راقم نے یہاں صرف ایک مثال پیش کی ہے ورنہ اب اس شہر میں اب سے کوئی 20 سال قبل والا منظر نظر نہیں آتا کہ جب ہر تھوڑے دور کے فاصلے پر خالی پلاٹ، میدان اور بڑے چھوٹے پارکس مل جاتے تھے۔ اب زیادہ تر پارکس جو حکومتی اداروں کی جانب سے بنائے گئے ہیں وہ ایک جانب پر فضا ماحول سے عاری ہیں کیونکہ ان کی اونچی اونچی دیواریں ہیں اور ساتھ میں کچھ تعمیرات بھی ہیں، پھر ان میں آپ صرف واک کرسکتے ہیں یا کچھ میں کھیلنے کے لیے جگہ بھی مخصوص ہے مگر یہ سب اس طرح کہ آپ چھوٹے بچوں کو تفریح کے لیے یہاں نہیں لاسکتے۔

اب محلے کے بچے اپنے محلے کے پارک میں بھی سائیکل چلاسکتے ہیں نہ پتنگ اڑا سکتے ہیں کیونکہ یہ زیادہ وسیع نہیں ہیں یا پھر ان کو عموماً دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جس میں ایک حصہ کمرشل جھولوں کا ہے، اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو بچوں کو لے کر جائیں ورنہ بچوں کو پارک لے جانا آپ کے لیے ذہنی دباؤ کا باعث ہوگا کہ جب بچے آپ سے کمرشل جھولوں کی فرمائش کریں گے۔ اکثر پارکس میں موجود چوکیدار بچوں کو سائیکل چلانے یا پتنگ اڑانے سے منع کرتے ہیں جگہ کی کمی کی وجہ سے۔ ہمارے ایک دوست نے اپنے بچوں کے رزلٹ آنے پر انھیں سائیکلیں خرید کر دیں مگر اب ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ بچے آخر سائیکل کہاں چلائیں؟

یہی حال کچھ اسکولوں کا ہے۔ اب کہنے کو تو ہر گھر گلی کوچے میں آپ کو اسکول مل جائیں گے اور ان کے نام بھی انتہائی جدید اور خوبصورت ہوں گے، جیسے انگریزی طرز پر رکھے گئے نام وغیرہ مگر ایسے اسکول تلاش کرنے سے بھی بمشکل ملیں گے کہ جہاں ایک بڑا روایتی انداز کا خالی میدان ہو جہاں اسکول کے تمام بچے بیک وقت کرکٹ اور فٹ بال وغیرہ کھیل سکیں۔

ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں کھلے میدان میں سرکس اور موت کے کنوئیں جیسے میلے لگتے تھے اور ایک بڑی اچھی تفریح ’’سائیکل چلانے کا مظاہرہ‘‘ ہوتا تھا جس میں کوئی صاحب دن رات مسلسل کئی دن تک سائیکل چلانے کا ریکارڈ بناتے تھے اور ان تمام تفریحات کے لیے کراچی شہر میں زمین کی کوئی قلت نہ ہوتی تھی۔ قربانی کے لیے بھی کھلے میدان مل جاتے تھے جہاں سب اپنے جانور لاکر ذبح کرتے، یوں گلی کوچے قربانی کے جانور کے خون سے گندے ہونے کے بجائے صاف ستھرے رہتے تھے۔

آج ’’لینڈ مافیا‘‘ اور ’’چائنا کٹنگ‘‘ جیسی نہ جانے کیا کیا اصطلاحات عام ہوچکی ہیں کہ جن کے باعث اس شہر کا رنگ و روپ ہی بدل گیا، خوبصورتی ختم ہوگئی اور خاص کر بچوں اور نوجوانوں کی مثبت صحت مندانہ سرگرمیاں ہی ختم ہوکر رہ گئیں اور وہ کسی ڈبو پر بیٹھ کر کسی گینگ کا حصہ بننے لگے ہیں یا پھر موبائل اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر وقت ضایع کر رہے ہیں جس سے ان کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔

راقم کی اپنے حکومتی اور منتخب نمایندوں سے گزارش ہے کہ خدارا! اس اہم مسئلے پر توجہ دیں اور اس شہر کو عمارتوں کا اور پراگندہ ماحول کا درجہ دینے سے روکیں، پرفضا اور خوبصورت ماحول دیں جو کبھی اس شہر کی شناخت تھی، خراب ماحول اور آلودہ ماحول دے کر اس شہر میں کلینکس اور اسپتالوں کو آباد نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔