آزادی

وجاہت علی عباسی  پير 15 ستمبر 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

آزادی ہی ہم سب کا مقصد، آج سے نہیں ہمارے وجود سے، پاکستان کے وجود کی بنیاد صرف اور صرف ’’آزادی‘‘ تھی۔ ہم آج بھی چاہے دھرنے ڈالیں یا ملک پر کسی بھی طرح تنقید کریں ہمارا مقصد آزادی ہی ہے، اب وہ برے سسٹم، کرپٹ حکومت اور بڑھتی ناانصافیوں ہی سے کیوں نہ ہو، رشتوں کے علاوہ انسان کی زندگی میں سب سے ضروری ہے عزت اور آزادی۔ وہی آزادی جو ہمارے ملک میں اکثر ہزاروں معصوم بے گناہ لوگوں سے بلاوجہ چھین لی جاتی ہے۔

ذوالفقار نامی ایک شخص پچھلے 14 سال سے لاہور کوٹ لکھپت جیل میں اپنی سزائے موت پر عملدرآمد کا انتظار کر رہا ہے۔ اس حساب سے اگر اسے سزائے موت کے بجائے عمر قید ہوئی ہوتی تو وہ اپنی سزا بھگت چکا ہوتا۔ اس کی اپیل سپریم کورٹ تک میں مسترد ہوچکی ہے، اس کے باوجود اس کی پھانسی کی تاریخ ہمارے برے جیل سسٹم کی وجہ سے نہیں مقرر کی جاتی۔ذوالفقارنے پچھلے 14 سال جیل میں رہتے ہوئے کئی کتابیں پڑھیں اور 38 سرٹیفکیٹس حاصل کیے۔

ہر کوئی ذوالفقار کی طرح مضبوط قوت ارادی نہیں رکھتا۔ اس جیسے سیکڑوں قیدی ہیں جن کی برسہا برس کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور انھیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے، پاکستان کی جیلوں میں سزائے موت پانے والے مجرموں کو الگ سیل میں رکھا جاتا ہے اور ذہن پر مستقل اس بات کا خوف کہ کسی وقت بھی مجھے پھانسی ہوجائے گی کی وجہ سے تقریباً نوے فیصد قیدی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں، انھیں یہ تک ہوش نہیں رہتا کہ ان کے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔

ہمارے یہاں جیلوں میں آن ڈیوٹی قتل کوئی سائیکالوجسٹ نہیں ہوتا نہ ہی بجٹ کم ہونے کی وجہ سے باہر سے بلانے کا رواج ہے، اسی لیے جو جس حال میں ہوتا ہے بدتر ہی ہوتا جاتا ہے۔

پنجاب آئی جی Prison کے مطابق اس وقت پنجاب میں تقریباً چھ ہزار قیدی سزائے موت کا انتظار کر رہے ہیں جس میں سے ساٹھ لوگوں کی ہائی کورٹ میں شنوائی التوا میں ہے، تیس کی سپریم کورٹ میں اور چار سو سے پانچ سو کی درخواستیں صدر پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں۔

کئی ملکوں میں سزائے موت ختم کرکے عمر قید میں بدل دی گئی ہے یعنی جب تک آپ زندہ ہیں جیل میں رہیں گے، جیسے ترکی، لیکن پاکستان میں تو مجرم پہلے عمر قید کے برابر وقت جیل میں گزارتا ہے اور پھر اسے سزائے موت دی جاتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 8500 لوگ سزائے موت پانے کے منتظر ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے، جس ملک میں ویسے ہی سسٹم خراب ہیں وہاں اتنے لوگوں کا سزائے موت پانے کا انتظار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے یہاں سسٹم کا حال بری طرح بگڑا ہوا ہے۔

پاکستان کی جیلوں میں ایک اور بڑا مسئلہ جگہ کا ہے۔ اس وقت پاکستان کی ہر جیل میں گنجائش سے پانچ گنا لوگ زیادہ ہوتے ہیں، جیلوں میں سونے کا یہ حال ہے کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں چالیس سے پچاس قیدی سوتے ہیں اگر کوئی ایک کروٹ بدلنے کے لیے ہلے تو اسے سیدھا ہونے کے لیے دوبارہ جگہ نہیں ملتی، لیٹنا تو دور کی بات ہے اکثر جیلوں میں تو لوگ اکڑوں بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر ساری رات گزارتے ہیں، یہ چیز پریزن رول نمبر 745 کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق ہر قیدی کو لاک اپ میں اٹھارہ اسکوائر فٹ یا سیل میں اکتیس اسکوائر فٹ جگہ ملنی چاہیے۔

دو سال پہلے کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 97 جیلیں ہیں اور ان میں 75568 قیدی موجود ہیں، 1894 کے ایک ایکٹ کے مطابق ہر طرح کے قیدی کو ساتھ نہیں رکھا جاتا، کلاس اے، بی، سی ہوتی ہیں جن میں پہلی بار جرم کرنے والے سے لے کر سوشل اور تعلیمی پس منظر دیکھتے ہوئے کیٹیگری میں رکھا جاتا ہے لیکن اس پر بھی پاکستان میں عمل نہیں ہوتا۔

جیل کم ہونے کی وجہ سے اکثر اٹھارہ سال سے کم عمر مجرموں کو بھی الگ نہیں رکھا جاسکتا اور صرف ایک بیرک الگ دے دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ بچے جیل میں موجود خطرناک مجرموں کا نشانہ بنتے ہیں۔

جیلوں میں گنجائش سے زیادہ مجرم ہونے کی وجہ سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جیل کے پاس اتنے سارے لوگوں کو کورٹ میں شنوائی کے لیے لے جانے کے لیے گاڑیاں ہی نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے جب کسی مجرم کی کورٹ میں باری آ بھی جاتی ہے تو وہ ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے کورٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتا پھر اس کی شنوائی کی تاریخ کئی مہینوں تک آگے بڑھ جاتی ہے اس کے علاوہ اکثر قیدیوں کو ایک ہی گاڑی میں بھر کر لے جایا جاتا ہے جب کہ ان میں سے کچھ کی شنوائی کسی اور کورٹ میں ہوتی ہے مگر ذرایع اور عملے کی کمی کی وجہ سے جیل کے اہل کاروں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا۔

جن لوگوں کے پاس پیسہ یا پوزیشن ہوتی ہے وہ پاکستان کی جیلوں میں بھی محفوظ ہیں، انھیں جو بھی چاہیے وہ دستیاب ہے، ویسے تو سزا ہوتی نہیں ہے لیکن اگر کسی بڑے آدمی کو غلطی سے سزا ہو بھی جائے تو وہ خود کو بیمار بتا کر کسی پرائیویٹ اسپتال میں داخل ہوجاتا ہے جہاں سے وہ بہت آرام سے باہر آنا جانا کرلیتا ہے۔

کراچی جیل میں کالا پل سے جڑے گینگسٹرز کو لایا گیا تو انھوں نے آتے ہی جیلر کو نئی گاڑی گفٹ کردی جس کے بعد ان قیدیوں کو روز رات کو باہر نکلنے کی اجازت مل گئی، اسی طرح کئی قیدی اپنے ’’پاور‘‘ کی وجہ سے اسی طرح جیل سے باہر نکلتے ہیں اور اسی طرح وارداتیں کرتے ہیں جن کے لیے انھیں جھیل بھیجا گیا تھا سزا کے طور پر۔

پورے جیل کو پتا ہوتا ہے کہ اگلے دن شہر میں کہاں کہاں وارداتیں ہونے والی ہیں، ایک بار ایک قیدی نے باہر جاکر ڈاکہ ڈالا اور کچھ دن بعد اسی واردات میں ملوث ہونے کے لیے کسی اور شخص کو جیل میں لاکر ڈال دیا گیا جب کہ جیلر سمیت ہر ایک کو پتا تھا کہ وہ بے گناہ ہے۔

آزادی بہت قیمتی چیز ہے۔ وہ جس کی ہر انسان تمنا کرتا ہے اور اکثر یہ پاکستان میں ہم سے بلاوجہ چھین لی جاتی ہے، کوئی بے گناہ ہو یا مجرم پاکستان کی جیلوں کا نظام بھی دوسرے سسٹم کی طرح ہے جہاں طاقت ور راج کرتا ہے اور کمزور پستا رہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔