اندھا اعتماد کرنے والے اکثر گھاٹے میں رہتے ہیں

عبدالستار مرزا  پير 15 ستمبر 2014
اس نے چند لاکھ روپے کی خاطر برسوں نیکی کا لبادہ اوڑھے رکھا۔ فوٹو: فائل

اس نے چند لاکھ روپے کی خاطر برسوں نیکی کا لبادہ اوڑھے رکھا۔ فوٹو: فائل

گجرات: یہ مکرواعتماد کے تضاد کی ایک الم ناک کہانی ہے اور اس میں عبرت کا درس یہ ہے کہ اندھا اعتماد کرنے والے اکثر اوقات گھاٹے میں رہتے ہیں۔

گجرات کے محلہ خالد آباد کی گلی نمبر 7 میں اپنی چھوٹی سے فیملی اور والدین کیساتھ مقیم غلام مرتضیٰ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ بارہ سال قبل انہوں نے گھر سے ملحق دکان کرایہ پر قصور کے علاقہ چونیاں کے رہائشی پچاس سالہ باریش افتخار عرف مجاہد کو دی، جس نے مجاہد کے نام سے محلے میں پی سی او قائم کر لیا۔ لمبی داڑھی، موسیقی سے نفرت، صرف خبرنامہ سننے اور نماز پنجگانہ ادا کرنے کی عادت کے باعث اُس نے غلام مرتضیٰ سمیت باقی محلے داروں پربھی اپنا اعتماد جمایا۔

اس دوران مجاہد نے دکان کے مالک غلام مرتضیٰ سے راہ و رسم بڑھائی۔ وہ غلام مرتضیٰ کے دو سالہ بیٹے حسنین کو کھلایا بھی کرتا جسے وہ ’’نینی‘‘ کے نام سے پکارتا۔ مختصر یہ کہ ننھا حسنین اس سے بہت مانوس ہوگیا اور مجاہد کے پاس جانے کی ضد کرتا۔ اس دوران کئی برس گذر گئے اور حسنین چودہ سال کاہوگیا۔ مجاہد کو غلام مرتضیٰ کی والدہ نے اپنا بیٹا بنا کر گھر کا فرد قرار دے لیا۔ مجاہدکی خواہش پراُس کا گھر بھی 2008 میں بسا دیا گیا۔ اُس کی شادی محلہ امین آباد کی ایک طلاق یافتہ خاتون ناہید سے کروادی۔ شادی میں مجاہد کا شہ بالا نینی (حسنین ) بنا تھا۔

مجاہد اکثر حسنین کو گھمانے موٹر سائیکل پر لیجایا کرتا لیکن 11 اگست 2014 کو حسنین نے مجاہد کے ساتھ سیالکوٹ جانے کی ضد کی۔ ماں نے تو اجازت نہ دی البتہ دادی نے اجازت دے دی اور دن کے 12بجے کے قریب افتخار عرف مجاہد کی ساتھ موٹر سائیکل پر تیار ہو کر چل دیا۔ دوران سفر مجاہد جگہ جگہ سے نینی کے والد غلام مرتضیٰ کو فون کرکے معلوم کرتا رہا کہ وہ گھر پہنچا ہے یا نہیں۔ غلام مرتضیٰ گھر پہنچا تو بیٹے کے بارے میںمعلوم ہوا کہ وہ مجاہد کے ساتھ سیالکوٹ شادی پر گیاہے۔

غلام مرتضیٰ نے شام 7بجے مجاہد کو فون کیا لیکن جب دوسری طرف سے کال اٹینڈ نہ کی گئی تو تشویش کا شکار ہوگیا مگر 8 بجے کے قریب رابطہ ہوگیا۔ مجاہد نے بتایاکہ وہ وزیر آباد کے قریب پہنچ چکے ہیں، جلد ہی گھر پر ہوں گے مگر 10بج گئے اور نہ پہنچے، جس پر باپ نے پریشان ہوکر مجاہد سے پھر رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ وہ دونوں گھر سے چند گز کے فاصلے پر سٹاف گلہ کے قریب موٹر سائیکل کو پنکچر لگوا رہے ہیں لیکن غلام مرتضیٰ کو تسلی نہ ہوئی اور وہ مجاہد کے گھر جاپہنچا۔ وہاں دیکھا تو تالہ پڑا تھا۔ اس نے اسے اور بھی پریشان کردیا۔

وہ  اس کے سسرال جا پہنچا، جہاں مجاہدکی بیوی ناہید اپنے بھائی کو لے کر حسنین کے والد کے ساتھ گھر آئی۔ اب مجاہد کو اُس کی بیوی کے نمبرسے کئی مرتبہ کال کیاگیا مگر کال اٹینڈ ہونے پر بعد میں نمبر بند کر دیا گیا۔ اسی تشویش اور پریشانی میں رات  کے سوا ایک بجے ناہید کو پٹھان لہجے میں ایک کال موصول ہوئی کہ دس سے پندرہ منٹ بعد تم لوگوں کو مجاہد کی نعش مل جائے گی اور نمبر بند کر دیا گیا۔

رات گئے غلام مرتضیٰ کو بھی اسی لہجے میں فون آیا کہ مجاہد کو قتل کر دیا گیا ہے اور بچہ ہمارے پاس ہے جس کی بازیابی کیلئے 20 لاکھ روپے تاوان ادا کرنا ہو گا اور اگر پولیس کو آگاہ کیاگیا تو بچے کو بھی قتل کردیا جائے گا لیکن غلام مرتضیٰ نے فوراً پولیس چوکی شاہین کو آگاہ کیا۔ 12 اگست 2014 کو تھانہ سول لائن میں افتخار عرف مجاہد کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا۔

ڈی پی او گجرات رائے اعجاز نے تھانہ سول لائین کے ایس ایچ او انسپکٹر ملک عامر، کرائم سین یونٹ کے انچارج حسن عسکری، سپیشل یونٹ کے اے ایس آئی دلدار اور چوکی شاہین کے انچارج انور سرلہ پر مشتمل چار رکنی ٹیم تشکیل دی، جس نے پہلے مرحلے میں مجاہد کی بیوی کا موبائل قبضہ میں لے کر اُسے غلام مرتضیٰ کے گھر رہنے کی ہدایت کی۔ مجاہد کا مکان کھلوایاگیا تو اُس کا سامان بندھا ہوا تھا، جس پر اُس کی بیوی نے پولیس کو بتایا کہ شادی پر جاتے ہوئے مجاہد نے اُسے بتایا تھا کہ آج ہم کسی دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں تاکہ کاروبار بہتر انداز میں چل سکے۔

اس پر پولیس کا یقین پختہ ہو گیا کہ ملزم مجاہد ہی ہے۔ اسی دوران مجاہد کے ذاتی نمبر سے ایک اور کال ملی جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ13 اگست کی صبح 9 بجے تک تاوان پہنچایاجائے ورنہ بچے کی جان لے لی جائے گی۔ غلام مرتضیٰ کی منت سماجت پر دوسری طرف سے مجاہد نے اپنے اصلی لہجے میں بولنا شروع کیا اور غلام مرتضیٰ کے بھائی کوتاوان کی رقم نیشنل بینک شاہدرہ میں آن لائن کروانے کا ایس ایم ایس بھی بھیج دیا تاہم غلام مرتضیٰ اور اُس کی بیوی کے بارہا کہنے پربھی پانچ روز تک حسنین کے ساتھ بات نہ کروائی۔

رقم خود لے کر آنے کی کال پر ورثا نے پولیس کی ہدایت کے مطابق ملزم کو یہ کہ کر الجھائے رکھا کہ احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے راستے بند ہیں اور وہ شاہدرہ سے واپس گھرجارہے ہیں۔ اس دوران غلام مرتضیٰ تاوان کی پہلی قسط ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرنے پر اُسے اس شرط پر آمادہ کر لیتا ہے کہ پہلے وہ حسنین سے بات کرائے۔ مجاہد رات ساڑھے 10بجے حسنین سے با ت کروانے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے اور پھر 16 اگست کو ملزم نے اسکول بیگ میں رقم، سفید کپڑے پہن کر لانے کی تاکید کی جاتی ہے۔ حسب ہدایت بیگ چونگی امرسدھو کی ایک مسجد میں میں پہنچایا گیا مگر اس کے بعد مجاہد کا نمبر بند ہوگیا۔

ادھر پولیس کو یقین ہوگیا کہ مغوی زندہ نہیں رہا۔ ڈی پی او گجرات رائے اعجاز نے صورت حال سے آگاہ ہونے کے بعد موبائل ڈیٹا اور تاوان کی رقم مسجد سے لے کر جانے والے چہرے کو ٹریس کر کے چونگی امرسدھو سے انتہائی خاموشی سے حراست میں لے لیا۔ غلام مرتضیٰ سے شناخت کرائی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ مجاہد کا 45 سالہ بھتیجا کنول شہزاد تھا۔ اس نے دوران تفتیش بتایا کہ اُس نے حسنین کو 11 اگست کے بعد سے نہیں دیکھاا لبتہ اس کے چچا مجاہد نے اُسے تاوان کی رقم میں سے 25 ہزار روپے دیے اور بتایا کہ بچہ محفوظ ہے اور یہ کہ وہ کچھ عرصے کے لیے پشاور جارہا ہے۔

ایس ایچ او ملک عامر نے کنول شہزاد کو وعدہ معاف گواہ بنا کر رہائی دلانے کی آس دلا ئی اور اسے مجاہد سے رابطہ کرکے تاوان کی باقی رقم حاصل کرنے کی ترغیب دینے پر آمادہ کرلیا۔ بھتیجے نے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ مجاہد ساہیوال میں اپنے دوست یعقوب کے ہاں پناہ لیے ہوئے ہے، کنول کے فون پر اس نے پتوکی میں ملاقات طے کی۔ وہ 18 اگست کا دن تھا جب مجاہد پتوکی میں رکشے سے اُتر ہی رہا تھا کہ کنول شہزاد کی نشان دہی پر پولیس نے اسے گرفتار کرلیا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ افتخار عرف مجاہد کلین شیو تھا، اس نے روپ بدلنے کو کئی برس سے رکھی اپنی لمبی داڑھی صاف کروالی تھی اور سفید بال بھی مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔

شقی القلب ملزم نے جلد ہی اعتراف کر لیاکہ اُسے انکل کہنے والا ’’نینی‘‘ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ اس نے بتایا کہ وقوعے کے روز اُس نے حسنین کوگھر سے سیالکوٹ لے جاتے ہوئے نیند کی 8 گولیاں پیس کر پکوڑوں، سموسوں اور بوتل میں ڈال کر اسے دیں مگر بے ہوش ہونے کے بجائے اُس نے رونا شروع کر دیا جس پر خوف زدہ ہو کر اس نے نیم بے ہوش بچے کو سمبڑیال نہر میں دھکا دیدیا اور یہ یقین کرنے کے لیے کہ وہ ڈوب چکا ہے کئی کلو میٹر تک نہر کے کنارے کنارے پیدل چلتا رہا۔

بعد ازاں تھانہ اروپ سے 22 اگست کو انہیں معلوم ہوا کہ 16اگست کو مذکور ہ تھانے کو ایک نامعلوم لڑکے کی نند ی پور کے مقام سے نعش ملی ہے جہاں بیٹے کی نعش کی تصویر سامنے آتے ہی غلام مرتضیٰ نے شناخت کرلی اور اُسکی آنکھوں سے نہ تھمنے والے آنسوئوں کا سلسلہ شروع ہو گیا زندہ سلامت بیٹے کی بجائے اُسکی نعش کی تصویر تھامے جب غلام مرتضیٰ گھر میں داخل ہوا تو محلے میں جیسے قیامت ہی برپا ہوگئی۔

حسنین کی نعش کی تصویر دیکھ کر کوئی اُسے پھولوں سے تشبہیہ دیتا تو کوئی اُسے فرشتہ اور کوئی اُسے جگر، دل کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے مسلسل چومتا مگربیٹے کے دیدار کرنے کیلئے ترسی ماں کے راستے میں پہلے تو ظالم مجاہد 8روز تک اٹکا رہا مگر جب اُسکی ہلاکت کا علم ہوا تو نعش کے حصول میں عدالتی نظام اور قوانین9روز تک آڑے آگئے جہاں کئی بے حس چہرے قبر کشائی کرنے اور نعش کی وصولی تک غلام مرتضیٰ سے پیسے بٹورتے رہے اور پھر 17روز بعد 27 اگست کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ماڈل ٹائون قبرستان سے بیٹے کا بے جان جسم لیکر غلام مرتضیٰ گھر اور پھر مقامی قبرستان پہنچ گیا اس رقت آمیز مناظر پر ہر شخص کی آنکھ اشک بار تھی۔

د وران تفتیش مجاہد نے انکشافات کیے کہ وہ ضیاء الحق دور میں کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے جھنڈے تلے اڑھائی سال تک جہاد کر تا رہا پھر ایک ادارے کے لیے مخبری کی خدمات انجام دیتا رہا، جہاں سے غلام مرتضیٰ نے اس کی جان خلاصی کرائی۔ اس دوران نینی (حسنین) نے اسے بتایا تھا کہ وہ پندرہ بیس لاکھ روپے میں گاڑی کے گیراج کے لیے اراضی خریدنے والے ہیں جس پر اس نے لالچ میں آکر سارا پلان بنایا اور بھتیجے کنول شہزاد کو بھی 5 لاکھ روپے کا حصہ دار بنالیا۔

اس بھتیجا کنول شہزاد محکمۂ ٹیلی فون سے ریٹائر ہونے کے بعد چکن شاپ چلا رہا تھا، وہ دو بیٹیوں کا باپ ہے۔ مقتول حسنین کے والد غلام مرتضیٰ پولیس کے کردار سے مطمئن ہے تاہم ایک طرف بیٹے کی زندہ رہائی کے بدلے اغوا کار رقم کا مطالبہ کررہے تھے تو دوسری جانب نعش کی سپردگی کے لیے سرکاری اہل کار اس کی جیبں ٹٹولتے رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔