’’چن نال پیار کرن دا بلیے ایہو نتیجہ ہوندا اے‘‘

نور محمد سومرو  پير 15 ستمبر 2014
ایک جاں نثار سیاسی کارکن کے ساتھ اس کی پارٹی کا عبرت انگیز سلوک۔ فوٹو: فائل

ایک جاں نثار سیاسی کارکن کے ساتھ اس کی پارٹی کا عبرت انگیز سلوک۔ فوٹو: فائل

رحیم یار خان: ایک قانون دانؒ کی جدوجہد سے حاصل کیے گئے اس ملک کا قانون صرف یہ ہی نہیں کہ اندھا نہیں ہے بل کہ نامِ خدا چار چشمہ ہے۔

پہلی نظر میں پہچان لیتا ہے کہ اس کے سامنے کون کھڑا ہے۔ اگر کوئی اشرافیہ سے ہے تو اس کا سواگت کرتا ہے اور اگر کوئی چُھٹ بھیا ہتھے چڑھ گیا تو بس پھر ’’چڑھ جا بیٹا سولی، رام بھلی کرے گا‘‘۔ ذرا پچاسی سالہ اماں بلقیس اور اس کے نوجوان بیٹے ساجد فاروق کی بپتا ملاحظہ ہو!

بغداد کالونی رحیم یارخان کا ساجد فاروق آرائیں مسلم لیگ (ن) کا سرگرم کارکن ہے اور یہ بات شہربھر جانتا مانتا ہے کہ اس نے سابقہ انتخابات کی طرح گذشتہ الیکشن (مئی 2013 ) میں بھی اپنی پارٹی کے ایم این اے میاں امتیاز احمد اور ایم پی اے چوہدری عمر جعفر گجر کی انتخابی مہم میں نہ صرف بھرپور تاب و توانائی کے ساتھ حصہ لیا بل کہ اپنے گھر پر الیکشن کارنر میٹنگ کا بھی اہتمام کیا، جس میں مذکورہ امیدواروں کے علاوہ مسلم لیگ ن خواتین ونگ کی مرکزی رہ نما اور سینیٹر چوہدری جعفر اقبال کی اہلیہ عشرت اشرف اور متعدد دیگر رہ نما بھی شریک تھے، ساجد فاروق اس میٹنگ کا میزبان ہی نہیں اسٹیج سیکرٹری بھی تھا۔ پھر جب اس کے ’’محبوب رہ نماؤں‘‘ نے الیکشن جیت لیا تو اس خوشی میں ساجد نے ایم این اے میاں امتیاز احمد اور دیگر رہ نماؤں کے اعزاز میں اپنے گھر پر عشائیے کا اہتمام بھی کیا، جس کی تصویریں پرنٹ اور سوشل میڈیا پر شائع ہوئیں اور ریکارڈ کا حصہ ہیں۔

ساجد فاروق کی بدقسمتی کا آغاز 6 اگست 2014 کو اس وقت ہوا جب اس کی بیوی سمیرا گھر کے معمول کی کسی بات پر اس سے جھگڑی اور ڈولی ڈنڈا اٹھا مائکے سدھاری۔ پہلے تو بھائیوں کو ساتھ لے کر پولیس کے پاس گئی اور میاں کی شکایت کی لیکن پولیس نے میاں بیوی کا معاملہ قرار دے کر لوٹا دیا لیکن شومیٔ قسمت کہ اسی روز حکومت پنجاب نے پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو نکیل ڈالنے کا حکم صادر فرما دیا جس پر رحیم یارخان پولیس بھی سرگرم ہوئی۔ عین اسی موقع پر سمیرا بی بی کے ذہن میں شوہر سے انتقام لینے کی ایک ترکیب آئی۔

بلا تاخیر پہنچی پولیس حکام کے پاس اور بتایا کہ اس کا شوہر ساجد فاروق پاکستان عوامی تحریک کا کارکن ہے اور 300 موٹر سائیکل سواروں کا قافلہ لے کر لاہور جا رہا ہے۔ ’’بس اللہ دے اور بندہ لے‘‘ پولیس تو ایسے کارناموں کے لیے پہلے ہی ادھار کھائے بیٹھی ہوتی ہے، طوراً سے پیش تر ساجد فاروق کو گھر سے جا دبوچا اور 7 اگست کو، 3 ایم پی او کے تحت جیل بھی بھیج دیا۔ اب ساجد فاروق پچھلے چالیس روز سے مسلسل چیخ چیخ کر مسلم لیگ ن سے اپنی دیرینہ وابستگی کا یقین دلا رہا ہے لیکن کوئی کیوں سنے؟

اماں بلقیس مسلم لیگ ن کے ایم این اے اور ایم پی اے کے ساتھ الیکشن مہم اور عشائیوں کی تصویریں اور ویڈیوز اٹھائے کبھی کسی سیاسی ڈیرے پر نظر آتی ہے تو کبھی پولیس کے اعلیٰ افسروں کے دفتروں کے طواف کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اماں جی نے اپنے وکیل عامر ندیم ایڈووکیٹ کے ہم راہ ڈی سی او کو تصویریں، ویڈیوز اور سارے دست یاب ثبوت دکھا دیے مگر کوئی مان کر ہی نہیں دے رہا کیوں کہ جو بھی مانے گا، نااہل قرار پائے گا۔

چلیے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو رکھ دیجے ایک طرف کہ ان کا تو وتیرا یہ ہی ہے، ان رہ نمائوں کو دیکھیے، جنہوں نے ’طوطے‘ کی طرح آنکھیں پھیر لیں، جن کی خاطر اس نے اپنی راتوں کی نیندیں حرام کر لی تھیں۔ ساجد فاروق ’’چن  نال پیار کرن دا بلیے! ایہو نتیجہ ہوندا اے‘‘ ( اے نادان! چاند سے پیار کرنے کا یہ ہی نتیجہ ہوتا ہے)، تم لاوارثوں کی طرح جیل میں پڑے سڑ رہے ہو، اُدھر ممتا کی ماری ضعیف عورت کی نحیف دہائی اونچی مسندوں پر بیٹھنے والے سن ہی نہیں پاتے۔

سچ تو یہ ہے کہ ساجد کا پاکستان عوامی تحریک سے کوئی تعلق ہی نہیں اور اگر بالفرض ہے بھی، تو کس آئین اور کس قانون کے تحت یہ کوئی جرم ہے؟ بہ طور ایک پاکستانی اسے حق حاصل ہے کہ وہ جس بھی سیاسی جماعت سے اپنا تعلق، رشتہ استوار کرنا چاہے، کرے۔ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں ایسے پچاسیوں ارکان براجمان ہیں، جو تھالی کے بینگن کی طرح اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر لڑھکتے پھرتے ہیں۔ ساجد کا یہ ہی قصور ہے ناں کہ وہ مڈل کلاسیا ہے؟ یہ ’’؟‘‘ ایک ایسا سفاک ہتھیار ہے جو اس ملک کی اشرافیہ قدم قدم پر چھٹ بھیوں (عام آدمی) کے جگر میں گھونپ کر انہیں یاد دلاتی رہتی ہے ’’اپنی حیثیت بھولنا مت !‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔