- معیشت کی بہتری کیلیے سیاسی و انتظامی دباؤبرداشت نہیں کریں گے، وزیراعظم
- تربت حملے پر بھارت کا بے بنیاد پروپیگنڈا بے نقاب
- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو، پہلی بار وزیر خارجہ بھی شامل
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
بجلی کمپنیوں کے واجبات 230 ارب روپے سے تجاوز کرگئے
کراچی: انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے واجبات 230 ارب روپے سے زائد تک پہنچ گئے ہیں اور ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے آئی پی پیز مخمصے کا شکار ہیں کہ بجلی کی فراہمی کو کیسے یقینی بنایا جائے کیونکہ 3 ستمبر 2014 تک کے ان واجبات کے باعث آئی پی پیز کو آپریشن کو جاری رکھنے اور قرضوں کی ادائیگی میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔
اس ضمن میں ایک خط کے ذریعے جو 22 آئی پی پیز کے دستخطوں سے وزیر خزانہ اسحق ڈار کو بھیجا گیا ہے اس میں ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئی پی پیز کو مکمل تباہی سے بچایا جائے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ان کے تمام تر وسائل قرضوں کی مد میں ختم ہوچکے ہیں جس سے ان کے شیئر ہولڈرز کو بھی نقصان ہوا ہے۔ اگر پاور پرچیز ایگریمنٹ کے تحت باقاعدہ ادائیگیاں کی جاتی ہیں تو آئی پی پیز کو ورکنگ کیپیٹل کی ضرورت نہیں ہے۔
خط میں اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ کیپیسٹی ادائیگیوں کو بھی روک لیا گیا ہے جو طویل اور مختصر مدت کے پروجیکٹ کے قرضوں، انشورنس ادائیگیوں اور عملے کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے لیے ضروری ہیں۔ سی سی پی کی مجموعی ادائیگیاں 54.138 ارب روپے ہوگئی ہیں۔ اس میں سے 27.945 ارب روپے 90 دن سے بھی زائد عرصے سے ادا نہیں کیے گئے۔خط میں یہ بات بھی واشگاف کی گئی ہے کہ 50.6 ارب روپے شرح سود کی مد میں ہیں جو پاور پرچیزر کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے جمع ہوئے ہیں۔
ماہرین کی رائے ہے کہ یہ غیر ضروری ادائیگی ذمے نہیں پڑتی، اگر پاور پرچیزر بروقت ادائیگیاں کرتا رہتا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 231.558 ارب روپے کی مجموعی ادائیگیوں میں سے زیادہ تر 131.308ارب روپے حبکو اور کیپکو کی ادائیگی کے ضمن میں ہے۔ خط میں وزیر خزانہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ آئی پی پیز کو درپیش صورتحال کا نوٹس لیں۔
اس خط پر جن 22 آئی پی پیز نے دستخط کیے ہیں ان میں حبکو، کیپکو، اے ای ایس لال پیر، اے ای ایس پاک جین، کے ای ایل، لبرٹی(گیس)، یو سی ایچ، روش، فوجی، حبیب اللہ، اے جی ایل پاور، حبکو ناروال، اٹلس پاور، نشاط پاور، نشاط چونیاں، لبرٹی ٹیک، اورینٹ پاور، سیف پاور، سیفائر پاور، ہالمور پاور، یوسی ایچ II پاور اور اینگرو پاور شامل ہیں۔ خط کے مطابق واجب الادا رقم میں صباء پاور، فائونڈیشن پاور اور نیو بونگ ہائیڈرو پاور کے واجبات شامل نہیں ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔