(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ہائے یہ میدان ٹریفک

اویس حفیظ  پير 15 ستمبر 2014
یا اللہ حشر کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے میدان میں بھی ہمارا بھرم قائم رکھیں۔ فوٹو فائل

یا اللہ حشر کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے میدان میں بھی ہمارا بھرم قائم رکھیں۔ فوٹو فائل

ایک تو بڑی بڑی عمارتوں والے یہ شہر اور پھر گھنٹوں ٹریفک جام کہ شہر کے ایک کونے سے دوسرے میں جانے کیلئے انتہائی صبر اور وقت درکار ہوتا ہے۔ ایسے میں سڑک پر اترتے ہی ایک عجب سی وحشت کا عالم طاری ہونے لگتا ہے۔میدان ٹریفک میں ہر کوئی کسی انجانی جلد بازی کا شکار نظر آتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنے روزمرہ کے معمولات میں خود اٹھ کر پانی تک نہیں پیتے وہ بھی سڑک پر پورے چارج ہو کر آتے ہیں۔ سڑک کی حشر سامانیوں میں اضافہ کرتی گاڑیاں ،پریشرہارن بجاتے ٹرک اور اپنا راستہ خود بناتی موٹر سائیکلیں ،سب کسی میراتھن دوڑ کا حصہ لگتے ہیں۔

ٹریفک کے حوالے سے ایک بہت ہی مشہور قول ہے کہ ’’پانی اور موٹر سائیکل سوار اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔‘‘تاریخ دان اس کی سند پر تو متفق ہیں مگر مورخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ اصل میں کس نے کہا تھا۔بہر حال جس کسی نے بھی کہا تھا، کہا خوب تھا اور ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ یقیناًکسی گاڑی والے نے اپنا غصہ نکالا ہو گا۔

آپ خود بھی اس کامشاہدہ کر سکتے ہیں۔ کسی بھی اشارے پر کھڑے ہو جائیں اور دیکھیں کہ کس طرح اشارہ بند ہونے کے بعد موٹر سائیکل سوارقطار کے آخر سے اپنا سفر شروع کرے گا اور لا کرسب سے آگے کھڑی گاڑیوں کے بھی عین آگے اپنی بائیک کھڑی کر دے گا۔آپ تو اسے یہ کہنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے کہ بھائی جان اشارہ تو ایک ساتھ کھلنا ہے، اورپھر اگلے اشارے بھی آپ کو بفضل ٹریفک پولیس بند ہی ملیں گے تو پھر یوں آپ کے آگے کھڑے ہونے کا کیا فائدہ؟

اسی آگے نکلنے کی بھاگ دوڑ میں اگر کسی گاڑی میں کوئی اکیلی لڑکی بیٹھی ہو توعموماًغلطی سے بائیک اُس ’’باجی‘‘ کی گاڑی یا ’بیک ویو مرر‘سے بھی ٹکرا جاتی ہے۔اب بھلا ہم کون ہوتے ہیں کسی کی نیت پر شک کرنے والے۔ہم تو کہہ رہے ہیں کہ عموماً ایسا غلطی سے ہوتا ہے۔یا کچھ موٹر سائیکل سوار تو اس درجہ شریف ہوتے ہیں کہ نواز شریف، شہباز شریف اور عمر شریف بھی ان کے درجہ کو نہ پہنچتے ہوں گے، البتہ ان کی موٹر سائیکلیں بہت شرارتی ہوتی ہیں۔ رش میں بھی ان کی نگاہیں ٹکرانے کے لئے کسی باجی یا آپی کی ہی گاڑی ڈھونڈھ رہی ہوتی ہیں۔

اب وہ تو خدا بھلاکرے ان موٹر سائیکل سواروں کا جو اپنی بائیک کی اس نا غلطی پر فوراً سے پیشتر اپنی’ باجیوں‘ سے معافی مانگ لیتے ہیں مگر شاید ’’باجیاں‘‘ بھی خود کو اس وقت ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہی ہوتی ہیں یا ان کے پاؤں ہی زمین پر نہیں پڑ رہے ہوتے کہ وہ کسی طور ان کی معذرت قبول کرنے میں نہیں آتیں اور پھر اس معذرت قبول نہ کرنے کا نتیجہ بھی انہیں ہی بھگتنا پڑتا ہے جب بائیک ان کے اس رویے سے بددل ہو کر شدید گستاخ ہو جاتی ہے اورہر ہر اشارے پر جا کر ان کی گاڑی سے ٹکرانے لگتی ہے۔ایسے میں موٹر سائیکل سوار کے چہرے پر عیاں ہزیمت بھی دیکھنے والی ہوتی ہے اور وہ بے چارہاپنی بائیک کی گستاخیوں پر انتہائی شرمندہ ہو رہا ہوتا ہے۔

لیکن صرف بائیک والوں کا ہی قصہ کیوں؟یہ میدان ٹریفک ہے ،یہاں کوئی کسی سے کام نہیں!ٹریفک کے بارے میں ایک اصول مسلمہ ہے کہ کمزور کے گلے پڑ جاؤ اور طاقتور کے پاؤں پڑ جاؤ۔ ہر بڑی گاڑی والا اپنا غصہ کمزور اور چھوٹی گاڑی والے پر نکالے گا۔چھوٹی گاڑی والا بائیک والے کو پکڑے گا، بائیک والا تانگے والے کو، تانگے والا سائیکل والے کو اور اس طرح یہ چین یونہی چلتی رہے گی۔ جب جسے کوئی بھی غصہ نکالنے کیلئے کوئی نہیں ملے گا وہ اپنا غصہ اپنے گھر جا کر بیوی بچوں پر نکالے گا۔البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس غصے کی مدت معیاد محض ایک دن ہی ہوتی ہے ۔ اگلے دن پھر سے نئی گیم شروع ہو جاتی ہے۔ ہر کوئی نئی انرجی کے ساتھ میدان میں اترتا ہے۔

اصل مزہ تو بارش میں آتا ہے کہ جب ہر کوئی دوسروں پر کیچڑ اچھالتے ، پانی پھینکتے تیزی سے گزرتا ہے۔ ایسے میں اُن بائیک والوں پر خوب ترس آتا ہے ۔جو بارش سے بچتے سڑک کے کنارے کنارے سے جا رہے ہوتے ہیں اور کوئی اپنی فراٹے بھرتی گاڑی سے پانی کے چھینٹے ان پر ڈال کر تیزی سے گزر جاتا ہے۔یہ بے چارے انتہائی غصے سے گاڑی کو دیکھتے ہیں تو یہ فقرہ ان کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے کہ ’’یہ سب میرے ماں باپ کی دعا ہے‘‘۔ بائیک والے اپنے غصے کے اظہار اور دل کی بھڑاس کیلئے اسی فقرے کو ذرا سی ترمیم کے ساتھ باربار دہراتے رہتے ہیں اور اپنا یوں غصہ نکالتے ہیں کہ وہ ’’دعا ‘ ‘ کی جگہ ’’خطا‘‘ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔

میدان ٹریفک کا سب سے مظلوم کردار بیچارے ٹریفک پولیس والے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں انہیں ’’چھلڑ‘‘ کہا جاتا ہے البتہ بھارت میں انہیں’‘ٹھلہ‘‘ کہتے ہیں۔ بے چارے سارا دن سڑک کنارے کھڑے رہ کر اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں اور آخر میں چند القابات لے کر گھر لوٹ جاتے ہیں۔مگر جب ان کی باری آتی ہے تو یہ بھی چالان کرنے سے نہیں ہٹتے اور اپنی پاور کو پوری طرح ’شو آف‘ کرتے ہیں۔چھوڑنے پر آئیں تو ایکسیڈنٹ کرنے والے کو بھی چھوڑ دیں پکڑنے پر آئیں تو میٹر کے کام نہ کرنے پر بھی پکڑ لیں۔

اگر میدان ٹریفک میں سواری کے خراب ہونے کا ذکر نہ کیا جائے تو بہت بڑی خیانت ہو گی۔ سواری اور صنم بے وفا کا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت ساتھ چھوڑ جائیں۔کچھ سواریاں تو ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ’’چلیں تو چاند تک ورنہ ٹریفک جام تک‘‘ ۔ اور اگر کبھی ٹریفک جام کے دوران گاڑی وغیرہ خراب ہوجائے ، اول تو دعا یہی ہے کہ صرف دشمنوں کی ہی ہو مگر پھر بھی اگر کبھی خراب ہو جائے تو خدا کی پناہ۔ہر آتا جاتا اپنا غصہ آپ پر یوں نکالے گا جیسے ساری ٹریفک آپ ہی کے سبب جام ہے اور اس سواری کے خراب ہونے پر آپ کو بے حد خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہی وہ باتیں ہیں کہ جن کے سبب اب جمعہ اورعیدین کے اجتماعات میں ایک دعا کا مزید اضافہ ہو گیا ہے کہ ’’یا اللہ حشر کے ساتھ ساتھ ٹریفک کے میدان میں بھی ہمارا بھرم قائم رکھیں۔‘‘

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔