سیاسی قیادت بحران حل کرے

 بدھ 17 ستمبر 2014
سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے دھرنے کیوں دیے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے دھرنے کیوں دیے ہیں؟۔ فوٹو: فائل

ملک میں جب سے حالیہ سیاسی بحران شروع ہوا ہے‘ بعض حلقوں کی جانب سے اشاروں کنایوں میں یہ باورکرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جسے اس کے پس پردہ پاک فوج کا بھی کوئی کردار ہے۔ یہ حلقے بڑے تواتر سے ایسی افوائیں پھیلا رہے ہیں اور قیاس آرائیاں کر رہے ہیں‘ ایسی شرپسندی کا مطلب کیا ہے‘ اسے بتانے کی ضرورت نہیں ہے‘ تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے اسلام آباد میں جو دھرنے دے رکھے ہیں‘ ان کی وجوہات سے حکومت بھی آگاہ ہے اور ملک کے فہمیدہ حلقے بھی بخوبی جانتے ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات کیا ہیں‘ اس حوالے سے وہ روزانہ دھرنوں سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت کر رہے ہیں‘ حکومتی ٹیموں نے ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لوگوں سے مذاکرات بھی کیے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی مذاکرات کرتے آ رہے ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو حکومت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بخوبی علم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے دھرنے کیوں دیے ہیں؟ اب ان معاملات کو طے کرنا حکومت کا کام ہے یا دھرنا دینے والی سیاسی جماعتوں کا اور یا پھر ان شخصیات کا جو ان کے درمیان رابطہ کار ہیں۔ ایسے حالات میں یہ بات کرنا کہ دھرنوں کا اسکرپٹ کہیں اور لکھا گیا یا تھرڈ امپائر کا ذکر کر کے انگلی فوج کی جانب اٹھانا درست طرز عمل ہے نہ اسے وطن دوستی قرار دیا جا سکتا ہے۔

پاک فوج اس حوالے سے ایک سے زائد بار اپنی پوزیشن واضح کرچکی ہے‘ اگلے روز پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل عاصم نواز باجوہ نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ فوج سیاست میں ملوث ہے اور نہ ہی ملک میں جاری  سیاسی بحران میں کسی ایک فریق کی حمایت کر رہی ہے ،پاکستانی فوج کے سیاسی معاملات میں مبینہ مداخلت کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ فوج کا شروع سے ایک ہی موقف رہا ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقے ہی سے حل کیا جانا چاہیے۔ فوج کسی ایک فریق کا ساتھ دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ پوری قوم کی فوج ہے۔ ہم نے پہلے کسی ایک فریق کی حمایت کی نہ آیندہ کریں گے۔

اس انٹرویو میں انھوں نے آپریشن ضرب عضب کے بارے میں کہا کہ اس سے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کو بہت بڑا دھچکہ لگا، ملافضل اللہ اور اس کی کابینہ کے دیگر ارکان افغانستان کے صوبہ کنڑ میں بیٹھے ہیں، آپریشن کی تکمیل کی ڈیڈلائن نہیں دی جاسکتی، انھوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ شدت پسند دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں بلکہ وہ بکھر جانے کے بعد ادھر ادھر حملے کر رہے ہیں۔ کبھی کوئٹہ میں حملہ کر دیا، کبھی کراچی میں، لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ پہلے جیسا کہ ان کا ایک ٹھکانہ تھا جہاں سے وہ منصوبہ بنا کر، بم لے کر، بارود سے بھری گاڑی تیار کر کے ملک کے مختلف حصوں میں حملے کر رہے تھے تو ان کی وہ صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔

پاک فوج کے ترجمان کی وضاحت کے بعد موجودہ سیاسی بحران کے حوالے سے فوج کے کردار کے بارے میں افواہ سازی کا خاتمہ ہو جانا چاہیے‘ ملک کی سیاسی قیادت کو اپنے معاملات خود حل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے اور اس بحران کو جلد از جلد حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ سیاسی قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ وطن عزیز کن خطرات اور مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پاک فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے‘ پاک فوج کے ترجمان نے وضاحت بھی کر دی ہے کہ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ملا فضل اللہ افغانستان میں ہے‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی وزیرستان سے دہشت گردوں کا صفایا تو کر دیا گیا ہے لیکن اس کا خطرہ ٹلا نہیں ہے۔

جب تک افغانستان میں ان کی پناہ گاہیں موجود ہیں‘ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ موجود رہے گا‘ ان حالات میں ملک کسی سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ حکومت کو اپنی تمام تر توجہ سیاسی بحران کو حل کرنے پر دینی چاہیے۔ ملک میں آئین موجودہے‘ پارلیمنٹ موجود ہے اور جمہوریت موجود ہے‘ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ نظام میں کسی بحران کا حل موجود نہیں ہے۔

اگر بحران کے حل کے لیے کہیں کسی آئینی مشکل کا معاملہ آتا ہے تو عوامی نمایندے اسے بھی طے کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ضد اور انا کو چھوڑنا پڑے گا۔ حالیہ سیاسی بحران کو شروع ہوئے ایک ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے‘ اس بحران کے اثرات معیشت سے لے کر انتظامیہ تک مرتب ہو رہے ہیں‘ غیر ملکی قوتیں اس بحران کو دیکھ رہی ہیں‘ چین کے صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہو چکا ہے‘ ایسی صورت حال کے باوجود سیاسی قیادت ابھی تک بند گلی میں کھڑی ہے‘ یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہنی چاہیے۔

بلاشبہ پاکستان کی سیاسی قیادت بالغ نظر ہے‘وہ حالات کو بخوبی سمجھ رہی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ ابھی تک اس بحران کو حل نہیں کر سکی‘ اسی وقت صورت حال یہ ہے کہ تمام تر مذاکرات کے باوجود معاملہ وہیں ہے جہاں سے شروع ہوا تھا‘ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اپنے رویے میں لچک پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاک فوج نے تو واضح کر دیا ہے کہ یہ سیاسی بحران ہے اور اسے سیاسی انداز میں ہی حل ہونا چاہیے‘ اب گیند سیاستدانوں کے کورٹ میں ہے۔

انھیں ہی اپنا معاملہ حل کرنا چاہیے اور کوئی تیسرا فریق اس معاملے میں نہیں آئے گا‘ وقت تیزی سے گزر رہا ہے‘ ان حالات میں الزام تراشیوں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ حکومت اور دھرنا دینے والی جماعتیں بلا تاخیر بامعنی اور بامقصد مذاکرات کریں تاکہ یہ بحران خوش اسلوبی سے طے ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔