افغان صدارتی انتخاب کا بحران حل ہونے کی توقع

ایڈیٹوریل  بدھ 17 ستمبر 2014
 امید ہے دونوں کے مابین باقاعدہ طور پر تحریری سمجھوتہ طے پا جائے گا ...  فوٹو؛ رائٹرز/فائل

امید ہے دونوں کے مابین باقاعدہ طور پر تحریری سمجھوتہ طے پا جائے گا ... فوٹو؛ رائٹرز/فائل

افغان حکومت نے صدارتی انتخاب کے تنازعہ کے حل ہونے کے امکان کا دعویٰ کیا ہے اور کہا گیا ہے کہ دونوں صدارتی امیدوار یعنی سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ اور سابق وزیر خزانہ اشرف غنی جو دونوں اپنی اپنی جیت پر اصرار کر رہے تھے اب ان میں مفاہمت کے کچھ امکانات ہویدا ہو گئے ہیں۔

جون 2014میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ابتدائی طور پر کثیر تعداد میں امید واروں نے شرکت کی تاہم مقابلتاً زیادہ ووٹ لینے والوں میں عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی شامل تھے مگر چونکہ ان دونوں میں سے بھی کسی نے 50 فیصد سے زائد ووٹ نہیں لیے تھے اس لیے ’’رن آف‘‘ پولنگ کرانا پڑی جس میں اشرف غنی کے ووٹ زیادہ ہونے کا اعلان ہوا مگر عبداللہ عبداللہ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس پر تمام ووٹوں کا، جن کی تعداد اسی سے نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے، آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ بہت طویل مدت لینے والا کام تھا چنانچہ اس کا بھی تا حال کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اب سبکدوشی کے لیے تیار صدر حامد کرزئی کے ترجمان آئمل فیضی نے کہا ہے کہ اس انتخابی بحران کی برف ٹوٹتی نظر آ رہی ہے کیونکہ پیر کو دونوں متحارب امیدواروں میں ایک سلسلہ جنبانی عمل میں آیا ہے۔

ترجمان فیضی کا کہنا تھا کہ بہت امید ہے دونوں کے مابین باقاعدہ طور پر تحریری سمجھوتہ طے پا جائے گا جس میں کہ دیگر ممتاز افغان شخصیات بھی شامل ہوں گی۔ فیضی نے سمجھوتے کی تفصیلات بیان کرنے سے گریز کیا۔ دوسری طرف امریکی فوج کی طرف سے نہایت بیتابی سے اس جنگ سے نکلنے کا انتظار کیا جا رہا ہے جس کو تیرہ سال قبل ایک ایسے دشمن کے قلع قمع کے لیے گھروں سے ہزاروں میل دور بھیجا گیا جس کی شکل واضح نہیں تھی۔ اول اول دشمن کو اسامہ بن لادن کی شکل میں مجسم کرنے کی کوشش کی گئی مگر کئی سال قبل اس کے امریکی کمانڈوز کے خفیہ اپریشن میں قتل کے بعد اب وہ علامت بھی موجود نہیں جس کی جگہ پر بطور شخصے نئے دشمن تخلیق کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آئی ایس اور داعش کو بھی بعض مبصرین اسی سلسلے کی کڑیاں قرار دیتے ہیں۔

ادھر اشرف غنی کے ترجمان فیض اللہ ذکی نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ سمجھوتے کو جلد منظر عام پر لایا جائے گا تاہم عبداللہ عبداللہ کے ترجمان سے رابطہ نہیں کیا جا سکا البتہ عبداللہ عبداللہ جو تاجکوں اور شمالی اتحاد کی نمایندگی کرتا ہے کی طرف سے اپنی طاقت ظاہر کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے کرائے جا رہے ہیں۔ واضح رہے اشرف غنی کو پختون قبائل کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری طرف امریکا نے دونوں متحارب امیدواروں کو  قومی حکومت کے قیام پر آمادہ ہونے پر زور دیا جارہا ہے بصورت دیگر انھیں ووٹوں کے آڈٹ کا نتیجہ لازماً قبول کرنا ہو گا۔ اگر دونوں صدارتی امید وار کسی سمجھوتے پر پہنچ جاتے ہیں تو اس سے افغانستان میں سیاسی بحران ختم ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔