نثار کھوڑو سے یکجہتی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 17 ستمبر 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

سندھ کے سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں 13ہزار افراد کو بطور اسکول اساتذہ بھرتی کیا گیا، اس وقت سندھ کے محکمہ تعلیم کے پاس اساتذہ کی منظور شدہ اسامیاں 1425تھی ان اساتذہ کو عالمی بینک کی امداد سے شروع کیے گئے پروجیکٹ کے تحت بھرتی کیا گیا مگر عالمی بینک کی شرائط کے مطابق این ٹی ایس کے امتحان کے پاس کرنے کی شرط کو نظر انداز کردیا گیا ۔

کہا جاتا ہے کہ افراد کسی بھی قسم کا امتحان دیے بغیراستاد کے عہدے پر فائز ہوئے ، اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی رہنماؤں ، اراکین اسمبلی اور دوسرے بااثر افراد کی سفارش پر ان افراد کو استاد کا اعزاز دیا گیا، ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے ملازمت کے تقررنامے کے لیے بھاری رقم ادا کی ۔ بعض افراد یہ رقم ایک لاکھ سے 5لاکھ تک بتاتے ہیں ، ان افراد میں سے بیشتر کا تعلق نچلے متوسط طبقے سے ہے ۔

ان میں سے کچھ بے روزگارتھے کچھ کاشتکاری اور دوسرے کاروبار سے منسلک  تھے ان لوگوں نے ادھار لے کر مکان، زمین کا کوئی قطعہ بیچ کر تقرر نامے حاصل کیے، ایک سینئرصحافی کا کہنا ہے کہ ان اساتذہ میں بنگالی نژاد اساتذہ بھی شامل ہیں۔ کراچی میں بعض سرکاری اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر اورسینئر پوزیشن پر فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جن کا تعلیم سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ان میں سے کچھ لوگوں کے اسکول ایجوکیشن کے اعلیٰ افسران سے معاملات طے ہوگئے تھے یہ لوگ اسکول میں فرائض انجام دینے کے بجائے ہر مہینے حاضری رجسٹر پر دستخط کرنے آتے تھے ۔

کراچی کے ایک علاقے کے سرکاری اسکول کی انچارج نے بتایا کہ ان کے اسکول میں تقررپانے والے عمر رسیدہ شخص نے ان سے خصوصی طور پر درخواست کی تھی کہ وہ تعلیم میں ہمیشہ کمزور رہے ہیں،اس بناء پر نظام الاوقات بناتے وقت انھیں کسی مضمون کی تدریس کا فریضہ نہ سونپا جائے، یہ ہی وجہ ہے کہ اسکولوں میں فرائض انجام دینے والے اساتذہ کو ان افراد سے کوئی ہمدردی نہیں ہے ، دراصل پیر مظہر الحق کا دور سندھ میں تعلیمی اعتبار سے ابتری کا دور تھا ، ان کے دور کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ نائب قاصد سے لے کر ڈائریکٹر کی اسامیاں نیلام ہوئیں ، یہ ہی وجہ تھی کہ محکمہ تعلیم ایک خاص قسم کے بحران کا شکار رہا۔

کراچی اور بڑے شہروں کے اسکول اورکالج سیکشن کے ڈائریکٹر تبدیل ہوتے رہے ، یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ کو نظر انداز کرکے جونیئر اساتذہ کو یا دوسرے شہرے سے تبادلہ کرکے اساتذہ کااہم عہدوں پر تقرر کیا گیا ، پیر مظہر الحق کے خلاف سب سے پہلی مزاحمت وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی قابل صاحبزادی ناہید شاہ نے کی تھی ۔ ناہید شاہ سیکریٹری تعلیم کے عہدے پر فرائض انجام دے رہی تھی ،ان کی اصول پسندی اور ایمانداری پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد تھا۔ناہید شاہ محکمہ تعلیم میں کرپشن کے خلاف تھیں ا ورکسی بھی قسم کی غیر قانونی دستاویز کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں جس کی بناء پر بدعنوانی ممکن ہوسکے۔

سندھ کے اسکولوں اور کالجوں کی اساتذہ کی انجمنوں نے ناہید شاہ کی بھرپور حمایت کی تھی مگر پیر مظہر الحق کی جادوگیری کی بناء پر انھیں یہ عہدہ چھوڑنا پڑا پھر سندھ کے محکمہ تعلیم میں کئی سیکریٹری آئے مگر کوئی بھی جم کر کام نہیں کرسکا ، محکمہ تعلیم مکمل طور پر بدعنوانیوں کی آماج گاہ بن گیا ، حتیٰ کہ بدعنوانیاں اتنی بڑھیں کہ حج پر جانے والے اساتذہ کے این او سی بھی رشوت کے عوض ملنے لگے ، جب محکمہ تعلیم میں بدعنوانیوں کا چرچا ہوا تو سندھ کا اینٹی کرپشن کا محکمہ اور نیب بھی اس محکمے کی طرف متوجہ ہوا، اور سب سے بڑا اسکینڈل اساتذہ کے تقرر نامے فروخت کرنے کا سامنے آیا۔ یوں محکمہ تعلیم کے کئی افسروں کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔ یہ صوبے کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں محکمہ تعلیم کی صورتحال اتنی بگڑی کہ اس وقت کے صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کو مداخلت کرنی پڑی، اسطرح آصف علی زرداری کے ایک قریبی عزیز فضل پیچو کو سیکریٹر ی تعلیم مقرر ہوئے۔فضل پیچوکی شہرت ایک ایماندار اور قانون کے مطابق نظام حکومت چلانے کی ہے۔

یوں پہلی دفعہ ان اساتذہ کے تقرر میں بے ضابطگیوں کا معاملہ سامنے آیا، محکمہ تعلیم کے افسروں نے عالمی بینک کے طے کردہ معیار کے مطابق اساتذہ کے تقرر سے منسلک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان اساتذہ کی تنخواہوں کا معاملہ کھٹائی میں پڑا ، پیپلزپارٹی نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے پیر مظہر الحق کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا یہ پارٹی قیادت کا نظام حکومت کو شفافیت سے وابستہ کرنے کا اصولی فیصلہ تھا ، ان اساتذہ کے تنخواہوں کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ اس دوران سندھ میں پیپلزپارٹی انتخاب میں کامیاب ہوکر دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی ، اس بار نثار کھوڑو کو محکمہ تعلیم کے وزیر تعلیم کا عہدہ تفویض کیا گیا، نثارکھوڑو نے محکمہ تعلیم کو رشوت کے عذاب سے بچانے کے لیے کچھ اقدامات کیے ، ان اقدامات میں ان اساتذہ کی ملازمتوں کو عالمی بینک سے طے کردہ این ٹی ایس ٹیسٹ سے مشروط کرنا تھا جب ان افراد کو عدالت عالیہ سے داد رسی سے مایوسی ہوئی تو ان لوگوں نے بلاول ہاؤس کے سامنے دھرنا کا فیصلہ کیا ۔

بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد سے کروڑوں روپے وصول کرنے والے پیپلزپارٹی کے بااثر لوگوں نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام آباد کے دھرنوں کی طرح بلاول ہاؤس کے سامنے دھرنے کا منصوبہ بنایا ۔ یوں ان اساتذہ کا پولیس سے تصادم ہوا ، پولیس نے روایتی ہتھکنڈے استعمال کیے ، واٹر کینن کے استعمال سے عورتوں اور مردوں کی جسموں پر ضربیں لگیں خاص طور پر تیز رفتار پانی کی دھارسے خواتین بے حال ہو گئیں پولیس نے دھرنا دینے والے کچھ افراد کو گرفتار کیا اور سر عام تشدد کا نشانہ بنایا ۔ یہ مناظرکیمروں اور سٹیلائٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے ، عام لوگوں میں تشدد کا شکار ہونے اور دوسال سے تنخواہیں نہ ملنے والے اساتذہ کے لیے ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی کہ ساری زندگی اصولوں کی خاطر پولیس تشدد اورقیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنیو الے پیپلز پارٹی کے بانی رہنما معراج محمد خان نے بھی اساتذہ پر تشدد کی مذمت کی اور ان کے مطالبات منوانے کا مطالبہ کردیا۔

معراج محمد خان 1974میں مزار قائد پر اسکول اساتذہ کی ریلی پر ہونے والے پولیس تشدد کو برداشت کرتے ہوئے اساتذہ کے ساتھ ڈٹ گئے تھے ۔ پولیس والوں نے ان پر لاٹھیاں برسائیں تھیں، ان کا سر پھٹ گیا تھا ، معراج محمد خان گرفتار کرلیے گئے تھے ، حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کرکے سالوں جیلوں پر مقید کیا گیا ، معراج محمد خان کی بینائی اس پولیس تشدد سے متاثر ہوئی تھی مگر اس وقت کی صورتحال اور آج کی صورتحال میں زمین آسمان کا فرق ہے ، اس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق بھرتی ہونے والے اساتذہ برسوں سے فرائض انجام دینے کے باوجود ترقیاں نہ ملنے پر اعتراض کررہے تھے ۔

آج سوال معیار تعلیم اور غیر حاضر اساتذہ کے ادارہ کے خاتمے کا ہے ، اگر نااہل اساتذہ کو محض احتجاج کی بناء پر بھرتی کیا جائے گا تو نہ صرف سندھ کے اسکولوں کا گرتا ہوا معیار مزید گر جائے گا اور ہر گروہ اپنے ناجائز مطالبات منظور کرانے کے لیے ایسے حربے استعمال کرے گا، اصولی طو پر ایک عدالتی کمیشن قائم ہونا چاہیے جو ان افرادسے ان لوگوں کے نام طلب کرے جنہوں نے لاکھوں روپے لے کر ان لوگوں کے تقرر نامے حاصل کیے تھے ان افراد کے خلاف مقدمات چلایا جائے ان سے رقم ان افراد کو واپس کی جائے جو افراد این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کریں ان کو تنخواہیں دی جائیں ، نثار کھوڑو کا یہ اقدام تعلیم کے مفاد میں ہے اس کی ہر باشعور افراد کو حمایت کرنی چاہیے تاکہ نثار کھوڑو محکمہ تعلیم کو شفاف بنانے کے لیے مزید اقدامات کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔