ہمارے اصل مجرم

عبدالقادر حسن  بدھ 17 ستمبر 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بابائے پاکستان کی با برکت سرپرستی کے بعد ہم نے صرف 66 برس گزارے اور کیا گزارے یوں کہیں کہ رو پیٹ کر گزارے اور اسی حالت میں اپنا آدھا ملک بھی گنوا بیٹھے جس پر ہمارے قدیمی دشمن بھارت کی وزیر اعظم نے نعرہ لگایا کہ ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا۔ یہ نعرہ کچھ ایسا غلط نہیں تھا لیکن ہم اپنے دشمن کے اس اعلان کو بھول کر اب پھر اس کے ساتھ دوستی بڑھا رہے ہیں۔ مجھے اپنی اس مختصر سی پاکستانی عمر کو دیکھ کر یاد آیا کہ ہم نے تو یورپ کے ملک اسپین پر آٹھ سو برس تک حکومت کی تھی۔

ہم اپنے پورے پاکستان پر صرف 1970تک حکومت قائم رکھ سکے کہ سقوط ڈھاکہ ہو گیا۔ دمشق میں جب بنی اُمیہ نے مخالفوں کو ختم کرنے کی مہم شروع کی تو اپنے مخالف خاندان کے ایک فرد عبدالرحمن کو اسپین کی طرف بھگا دیا یہ عبدالرحمن اول اپنے ساتھ ایک نشانی کھجور کا ایک پودا بھی لیتا گیا جو اس نے اسپین کی اجنبی سرزمین پر لگا دیا پھر اس نے قرب و جوار میں نظر دوڑائی سب کچھ اجنبی تھا اس پر اس نے کھجور کے اس درخت کو دیکھ کر ایک گیت کہا کہ ’’اس اجنبی سرزمین پر تم بھی اکیلے ہو اور میں بھی اکیلا ہوں‘‘ لیکن بعد میں اس اجنبی ملک کے بادشاہ بننے والے کا یہ دکھ بھرا گیت کتنا دلگداز اور اثر انگیز تھا۔ ہم تو اپنے اس ملک کے لیے ایک مصرع بھی نہ کہہ سکے جب کہ مسلمانوں کا یہ ملک بھی ہندوؤں کی سرزمین ہندوستان پر کبھی اکیلا تھا لیکن آج ہمارے صدیوں تک کے محکوم ملک کا حکمران یہ جرات رکھتا ہے کہ اس کے ملک میں صرف ہندو ہی رہ سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں یہ ہندوؤں کا آبائی اور موروثی ملک ہے۔

کہاں آٹھ سو سال اور کہاں یہ چند برس لیکن ہمارا حکمران طبقہ اشرافیہ اس مختصر عرصہ میں بھی اس ملک سے تنگ آ چکا ہے اور کسی اور سے نہیں اپنے مصدقہ پیدائشی دشمنوں سے دوستی کرنا چاہتا ہے اس دشمن نے تو چند دن پہلے ہی ہمیں مزید تباہ کرنے کے لیے اپنے ہاں کا پانی چھوڑ دیا اور اسے کوئی غلطی سمجھ کر اس کا اعتراف بھی کر لیا۔ ہم پاکستانیوں کے دل تو اسی دن ہی ٹوٹ گئے تھے جب الیکشن میں بھاری فتح کے بعد کہا گیا کہ قوم نے بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے یہ ووٹ دیے ہیں جب کہ بھارت کے ساتھ دوستی کے لیے الحمد للہ اس ملک میں ایک ووٹ بھی نہیں ہے لیکن یہ دوستی لگانے کی جدوجہد مسلسل جاری ہے بھارت کے پاس ہمارے ساتھ دشمنی کے لاتعداد طریقے ہیں۔

اس کی ایک واضح مثال کالا باغ ڈیم ہے جو اربوں روپوں کی رشوت کے عوض روکا ہوا ہے اور پاکستان کو نقصان بلکہ اسے اذیت بلکہ بہت بڑا نقصان پہنچانے کے لیے یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔ جنگیں ان پرامن حربوں سے کہیں مہنگی پڑتی ہیں اور جنگوں کے مالی نقصان کے علاوہ دوسرے سیاسی اور سماجی نقصانات بھی بہت ہوتے ہیں۔ دشمنی کا سب سے آسان اور مفید طریقہ دشمن کو معاشی اور سماجی نقصان پہنچانا ہے جو بھارت ہمیں جی بھر کر پہنچاتا رہتا ہے۔ ہمارے اشرافیہ میں ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو بھارت سے مرعوب ہی نہیں اس کے کلچر کے بھی گرویدہ ہیں۔ بِندی اور ساڑھی کی کشش ہر وقت زندہ رہتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ٹی وی پر بھارتی اثرات پھیل رہے ہیں بلکہ میں نے ایک باقاعدہ ٹاک شو بھی دیکھا ہے جس میں ایک بھارتی ایکٹر ایک دوسرے بھارتی ایکٹر شاہ رخ خان سے گفتگو کر رہا ہے کسی پاکستانی ٹی وی پر یہ پہلا شو تھا۔ پہلی جسارت۔

ہم پاکستانیوں کا اصل مسئلہ بھارت تو ہے ہی لیکن اس کے بعد بھارت پسند ہمارا اشرافیہ ہے جس کا کوئی قومی دین و ایمان نہیں ہے۔ کسی مشہور بھارتی اداکارہ کے ساتھ کسی شام کی چائے پر دو چار لاکھ روپے خرچ کر سکتا ہے اور یہ طبقہ ملک کے اندر ملک کے پیروں تلے سے زمین کھسکانے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ ملک میں جتنی کرپشن ہے اس میں اس طبقہ کا ہاتھ بھی ہے بلکہ اصل کرپشن تو اس اشرافیہ نے کی ہے۔ آج کی خبر تھی کہ ’نیب‘ نے ایک ایسے سیاسی اشرافیہ کا پتہ چلایا ہے جس کے پاس چار ارب روپے سے زیادہ رقم ہے اسی طرح چند دوسرے اشرافیہ بھی اربوں پتی ہیں اور کون نہیں جانتا کہ یہ اربوں روپے پاکستان سے لوٹے گئے ہیں۔

ان لوگوں نے کاروبار کر کے بیرون ملک سے یہ رقم حاصل نہیں کی۔ جب خبر چھپتی ہے کہ فلاں سیاستدان کے فلاں ملک میں اربوں ڈالر یا پونڈوں کی مالیت کے مکان ہیں یا کوئی دوسری جائیداد ہے تو حلفاً کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت ہے جو بیرون ملک بھیجی گئی اور اس سے وہاں جائیداد خریدی گئی۔ جب ایسی خبر ملتی ہے کہ حکومت اس لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس پر ہنسی آتی ہے۔

ایسی چوری کو برآمد کرنے والے اور لوگ ہوتے ہیں اور جن ملکوں کے بینکوں کے پاس یہ دولت ہوتی ہے ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کون اس دولت کو واپس لینے کی ہمت رکھتا ہے۔ کیا چور بھی کبھی چوری کا مال برآمد کر سکے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمارا جو سرمایہ اربوں کھربوں میں کسی باہر کے ملک میں پڑا ہے اس کا جعلی مالک کوئی پاکستانی سود تو وصول کر سکتا ہے مگر اصل نہیں۔ ایسے ملک میں بے معنی دھرنے نہ ہوں اور ان دھرنوں میں قوم کے ساتھ دن رات مذاق نہ کیا جاتا ہو تو اور کیا ہو۔ ایک دن کہا نوٹوں پر یہ نعرہ لکھیں دوسرے دن کہا پتہ چلا ہے کہ یہ غلط ہے اس لیے نعرہ نوٹوں پر نہیں کسی دیوار یا کسی دوسری دستاویز پر لکھ دیں۔ یہ دھرنوں کی قیادت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔