یہ جینا بھی کوئی جینا ہے

نصرت جاوید  بدھ 17 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

منیرؔ نیازی بھی کمال کے آدمی تھے۔ قنوطیت اور مایوسی کا دورہ پڑتا تو عام سے لفظوں میں بہت بڑی بات کر جاتے جس کی گہرائی اور آفاقیت آپ کو فوراََ سمجھ تو نہ آتی مگر روزمرہّ زندگی کے کئی تلخ لمحوں میں سوائے ان کے ایسے ہی کسی مصرعے کے کوئی اور حوالہ ذہن میں نہیں آتا۔ منیرؔ نیازی کی ’’جا اپنی حسرتوں…‘‘ والی غزل فلمی گیت میں ڈھل کر اور زیادہ عامیانہ سی سنائی دیتی ہے۔ مگر اسی غزل کا ایک مطلع قنوطیت سے بھرے دل کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ ’’مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا؟‘‘

اُردو شاعری کی روایت سے تھوڑا بہت واقف ہوتے ہوئے مجھے بہت عرصے تک یہ سوال کافی عجیب سا محسوس ہوتا رہا۔ اس سوال کی نوعیت اس لیے بھی زیادہ عجیب محسوس ہوتی کہ ہماری شاعری کا معتدبہ حصہ تو ہجر کے موسموں کی اذیت کو بیان کرنے میں صرف ہوا ہے۔ وصال تو ایک حوالے سے عاشق کا حتمی ہدف ہوا کرتا ہے مگر اپنے منیرؔ نیازی نے اسے یہ کہہ کر حقیر بنا ڈالا کہ ’’مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا؟‘‘ ملنا کوئی بڑا واقعہ شاعر کے لیے اس وجہ سے بھی نہیں کہ ’’لاکھوں ملتے دیکھے ہیں‘‘۔ لاکھوں کو بس ملتے ہوئے ہی منیرؔ نیازی نے نہیں دیکھا اس کے ساتھ ہی ساتھ اس نے ’’پھول بھی کھلتے دیکھے ہیں‘‘ جن کا کھل اُٹھنا دراصل مرجھانے کی طرف پہلا قدم بھی تو ہوا کرتا ہے۔

پیر کی صبح سے برسوں کا بھولا ہوا ’’مل بھی گیا تو…‘‘ میرے ذہن میں گونجنا مگر انتہائی غیر شاعرانہ وجوہات کی بناء پر شروع ہوا۔ اس دن کی صبح کا آغاز ٹیلی وژن پر عمران خان کے اس عظیم الشان انقلابی قدم کے بھرپور ذکر سے ہوا جس کے ذریعے انھوں نے تحریک انصاف کے چند کارکنوں کی بند ہتھکڑیاں کھلوا دیں۔ رہا کرائے گئے افراد کو دوبارہ اپنی گرفت میں لینے کے ارادے سے اسلام آباد پولیس کی ایک کثیر تعداد نے خان صاحب کا بنی گالہ والا گھر اپنے گھیرے میں لے لیا۔ ’’اوپر‘‘ سے مگر شاید پھر فون آگیا اور پولیس کی بھاری جمعیت محاورے کے بدھو کی طرح گھر لوٹ آئی۔

میں اس بحث میں اُلجھنے کو ہر گز تیار نہیں کہ عمران خان کا اپنے کارکنوں کو اس انداز میں پولیس کی گرفت سے آزاد کروانا مناسب تھا یا نہیں۔ مرتضیٰ بھٹو ان کے انقلابی انداز کو دیکھتے ہوئے البتہ مجھے ضرور یاد آیا۔ موصوف نے بھی اپنے ایک وفادار کارکن اور لیاری کے جی دار مانے جانے والے جیالے علی احمد سنار کو پولیس کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ اس کوشش میں کراچی کی سڑکوں پر سرگرداں مرتضیٰ بھٹو بالآخر پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ ایک سابق وزیر اعظم کا بیٹا اور اس وقت کی وزیر اعظم کا بھائی جواں موت مارا گیا۔ ’’قانون کی برتری‘‘ ہو جانے پر مطمئن محسوس مڈل کلاس نے مگر پولیس کے اقدام کو جائز قرار دیا۔

ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر سازشی کہانیاں گھڑنے والے افراد نے اگرچہ مرتضیٰ کی موت کو آصف علی زرداری کے سر منڈھ کر کافی حظ اٹھایا۔ عمران خان خوش نصیب ہیں۔ اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ انسانی حقوق کی جے جے ہو گئی اور ’’پولیس گردی‘‘ بے نقاب۔ کرکٹ کے سپر اسٹار اگر ایچی سن کالج سے پڑھ کر نکلے ہوں تو ان کے لیے ’’پولیس گردی‘‘ کو بے نقاب کرنا نسبتاََ آسان بھی ہے۔ یہ سہولت میرے اور آپ جیسے عامیوں کو میسر نہیں۔ اگر یہ ’’عامی‘‘ سندھ یا بلوچستان سے تعلق رکھتے ہوں تو ’’پولیس گردی‘‘ کو بے نقاب کرنا اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اللہ عمران خان کو لمبی عمر عطا فرمائے۔ انھیں تندرست و توانا رکھے۔ انشاء اللہ ان کی جدوجہد کی بدولت بالآخر ایک دن ہماری پولیس قانون کا ا حترام کرنے اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے معاملے میں ’’بندے دی پُتر‘‘ بن جائے گی۔

عمران خان سے کہیں زیادہ خیال مجھے اس واقعہ کے تناظر میں پاکستان کا تیسری بار وزیر اعظم بنے نواز شریف کا بھی آیا۔ وہ اور ان کے چاہنے والے پُر اعتماد ہیں کہ اسلام آباد میں ایک مہینے سے زیادہ دنوں سے آزادی اور انقلاب کے نام پر دھرنا دیے افراد ان کی حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے۔ ان کی ذات اور چاہنے والوں کی خوش فہمیاں اپنی جگہ۔ مگر اب تو کئی بہت ہی سنجیدہ اور دانشور مانے جانے والے صحافی بھی یہ دعوے کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ اکتوبر 2014ء کے آغاز کے ساتھ ہی نواز حکومت کی مشکلات ختم ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اکتوبر کا ذکر کیوں ہو رہا ہے؟ یہ بات اب پاکستان کے عام شہریوں کی بے پناہ اکثریت بھی جان چکے ہیں۔

ذاتی طور پر چونکہ میں دانشور نہیں ہوں اس لیے ’’اکتوبر۔کہانی‘‘ کو ہضم کرنا بہت مشکل پا رہا ہوں۔ مجھے دِقت صرف اس وجہ سے پیش آ رہی ہے کہ سیاست اور ریاستی امور کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میرا ایمان ہے کہ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں۔ کوئی طاقت ور سے طاقت ور فرد بھی بالآخر حکمران اشرافیہ کے درمیان برپا کش مکش میں سے کسی نہ کسی ایک گروہ کا نمایندہ ہوتا ہے۔ حقیقی کش مکش اور چپقلش دراصل سیاست اور ریاستی امور سے متعلق دو طاقتور گروہوں کے درمیان ہوتی ہے۔ بڑی سے بڑی شخصیات بس متحارب گروہوں کا انسانی چہرہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہیں۔

میری شدید خواہش ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے دو سینیٹرز رضا ربانی اور فرحت اللہ بابر نے جو تقاریر کیں ان کا ہمارے میڈیا نے مناسب جائزہ لیا ہوتا۔ چونکہ میرے کسی جید ساتھی نے ایسا کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اس لیے میں بھی اس ضمن میں اپنی زبان بند رکھنا چاہتا ہوں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بندہ شاید سیکھ تو بہت کچھ لیتا ہے مگر ضرورت سے زیادہ محتاط بھی ہو جاتا ہے۔ میں تو ویسے بھی عرصہ ہوا مختلف النوع پنگے لیے بغیر خود کو میسر راحتوں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں۔ کوئی مجھے بزدل کہتا ہے تو کہتا رہے۔ ’’جان بچی سو لاکھوں پائے‘‘ والا محاورہ ہر گز نہیں بھولوں گا۔

عرض میری بس اتنی ہے کہ نواز حکومت اگر اکتوبر کے آغاز سے مشکلات سے باہر نکلتی نظر آنا بھی شروع ہو گئی تو یہ ’’بچت‘‘ کیا منیرؔ نیازی کے اس وصال والی نہیں ہو جائے گی جس نے شاعر کو یہ اعلان کرنے پر اُکسایا تھا کہ مل بھی گیا تو پھر کیا ہو گا۔ لاکھوں ملتے دیکھے ہیں اور پھول بھی کھلتے دیکھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور چلتے چلتے اس ممکنہ’’بچت‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لاہور کی گلیوں میں اکثر دہرایا یہ فقرہ بھی یاد آ گیا کہ ’’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔