پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل؟

مقتدا منصور  جمعرات 27 ستمبر 2012
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اس وقت جس اندازمیںعوامی فرسٹریشن بڑھ رہی ہے اورجس متشددطریقے سے اس کے مظاہر سامنے آرہے ہیں۔

وہ پاکستان میں ابھرنے والے نئے چیلنجوں کی نشاندہی کررہے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت مخالف قوتیںہمیشہ سے مضبوط رہی ہیں،۔

لیکن جس طرح یہ قوتیں آج تیزی کے ساتھ مجتمع ہورہی ہیں،وہ بھی ریاست اورجمہوری حکمرانی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بنتاجارہا ہے۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی دو نقطہ ہائے نظر سامنے آگئے تھے۔

پہلانقطہ نظریہ تھا کہ پاکستان کو جدیددنیا کے تقاضوں کے مطابق پارلیمانی جمہوریہ ہونا چاہیے۔ اس نقطہ نظر کی وکالت خود بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی کررہے تھے۔

جب کہ دوسرا نقطہ نظر یہ تھا کہ یہ ملک چونکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیاہے،اس لیے ایک مکمل اسلامی نظام رائج کیا جائے، جو اگر خلافت پر مبنی نہ ہوتو کم ازکم اس سے متشابہ ضرورہو۔لیکن ملک میںحکمرانی کی کسی واضح سمت کاتعین اس لیے نہیںہوسکا۔

کیونکہ ملک میںصاحب اقتدار مسلم لیگ اس مسئلے پر اندرونی تضادات کاشکارہونے کی وجہ سے کنفیوژن کا شکار تھی۔جب کہ ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی بیوروکریسی مذہب کوصرف عالمی اور خطے کی سیاست میںآلہ کار کے طورپر استعمال کرنے کی خواہش مند تھی۔

دوسرا المیہ یہ ہواکہ پاکستان اپنے قیام کے ابتدائی برسوں ہی میں امریکی لابی میں چلاگیا، جوپہلے ہی پاکستان کو کمیونزم کے خلاف استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرچکاتھا۔اس طرح دائیںبازوکی ان قوتوں کو پنپنے کا موقع ملا،جوپاکستان کوایک جدید جمہوریہ کے بجائے تھیوکریٹک ریاست بناناچاہتی تھیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بعض غلطیاںریاست کی ہیئت اوراسکے مستقبل کا پورا منظر نامہ تبدیل کردیتی ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعدجب بھٹومرحوم کو یہ موقع ملا کہ وہ باقی ماندہ پاکستان کو ایک نئی شکل دیں،تو اس وقت ان سے دو فاش غلطیاں سرزدہوئیں۔

اول، انھوں نے باقی ماندہ ملک میں موجود قوموںکے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دینے کے بجائے 1946 کے فارمولے کو برقرار رکھااور اسی کی بنیاد پر آئین تشکیل دیا۔اگر وہ آئین سازی سے قبل ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیدیتے توریاست کے منطقی جواز کاموجودہ بحران پیدا نہ ہوپاتا۔

دوسرے اپنے اقتدار کومستحکم کرنے کے لیے انھوںنے سیاسی عمل پر بھروسہ کرنے کے بجائے اسٹبلشمنٹ کا سہارا لیا۔جس کے نتیجے میںاس وقت کی دو اہم سیاسی قوتوںنیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے نظریاتی قربت کے باوجود دوری ہوگئی۔

اسٹبلشمنٹ نے ان کی حکومت کو بلوچ عوام سمیت ترقی پسند اور قوم پرست قوتوں کے خلاف استعمال کیا اور انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو ان کے خلاف منظم کیا۔ نتیجتاً بھٹو صاحب سیاسی طورپر تنہا اور اسٹیبلشمنٹ کی اقتدار اعلیٰ پر گرفت ایک بار پھر مضبوط ہو گئی۔

بھٹو صاحب مرحوم سے تیسری غلطی یہ ہوئی کہ 1975ء میں جب دائود نے ظاہرشاہ کومعزول کرکے افغانستان پرقبضہ کیا ،تو انھوں نے اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر افغانستان کی رجعت پسندسیاسی شخصیات کو نہ صرف پاکستان میںپناہ دی بلکہ انھیں منظم ہونے میں بھی مدددی۔

بھٹو مرحوم کے ان اقدامات کی وجہ سے صرف افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ترقی پسنداور جمہوری سیاسی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچااور جمہوریت مخالفت قوتوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملا۔

یہاںیہ بات بھی قابل گور ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے1977ء میں بھٹو مرحوم کا تختہ الٹنے کے بعد کوئی نیا کام نہیں کیا، بلکہ ان تمام پالیسیوں کو آگے بڑھایا جو بھٹو مرحوم چھوڑ کرگئے تھے۔

اس دوران یعنی 1979ء میں اس خطے میں تین اہم واقعات رونما ہوئے، جن کے پاکستان اور اس خطے کی مجموعی سیاست پربراہ راست اثرات مرتب ہوئے۔

پہلا واقعہ ایران میں انقلاب تھا، جس میں ترقی پسند تودہ پارٹی نے نمایاں کردار ادا کیا تھا،لیکن معروضی حالات کی وجہ سے مذہبی قوتیں اقتدار میں آئیں۔دوسراواقعہ ستمبر کے مہینے میں سعودی خاندان کی مخالف سیاسی عناصرکا کعبہ پر قبضہ تھااور تیسرا واقعہ دسمبر کے مہینے میں روسی فوجوںکا افغانستان میں داخل ہونا تھا۔

پہلے واقعے نے مسلم دنیا کی مذہبی قوتوں کو اقتدار میںآنے کی ترغیب دی۔ دوسرے واقعے نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان خلیج کو وسیع کیا۔ تیسرے واقعے نے امریکا کو اس خطے میں براہ راست مداخلت کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ پوری مسلم دنیا کی شدت پسند قوتوں کوپاکستان کی سرحدپر مجتمع ہونے میں مدددی۔

اس دوران جنرل ضیاء الحق نے روس کے خلاف امریکی امداد سے اپنے اقتدار کو طول دینے کے علاوہ دیگر تین فوائدبھی حاصل کیے۔

اول، انھوں نے فوج میں ایسے عناصر کی حوصلہ افزائی کی جو تھیوکریسی پر یقین رکھتے تھے اور جغرافیائی کے ساتھ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا نیا نعرہ متعارف کرایا۔جو دراصل سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کا راستہ کھولنے کاایک بہانہ تھا ۔

دوئم،چند مخصوص مسالک سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو سیاسی اور عسکری طورپر مضبوط بنایااور ان کی سیاسی قوت کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا۔جس کے نتیجے میںفرقہ وارانہ آویزش نے متشدد شکل اختیار کی۔

سوئم،شملہ معاہدے کو سبوتاژکرکے افغانستان سے فارغ ہونے والے جنگجوجتھوں کو کشمیرمیں برسرپیکارکیا،جس سے خطے میں ایک نئے تنائو نے جنم لیا۔جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کے نتیجے میںجہاں افغانستان میں اندرونی خلفشار بڑھا، وہیں پاکستان میںسیاسی اور سماجی Fabricبری طرح متاثر ہوا۔

پاکستان میں گو کہ قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں ہی مقبول عام رہیں، لیکن ریاستی پالیسیوں میں مذہبی جماعتوں کی مداخلت پہلے کے مقابلے میں کئی گنازیادہ ہوگئی۔

جنرل ضیاء الحق کے فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعدگوکہ فوج براہ راست اقتدار میں نہیں آئی۔ لیکن اس نے پس پردہ رہتے ہوئے پالیسی سازی میں مداخلت جاری رکھی۔

اس دوران ایک دلچسپ صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ پیپلز پارٹی نے گیارہ برس تک ضیاء آمریت کا جبر برداشت کرنے کے باوجود اپنے دور اقتدار میں ماضی کو روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔جب کہ خود اسٹبلشمنٹ کی قائم کردہ مسلم لیگ(ن) نے اپنے دونوں ادوار میں اسٹبلشمنٹ کی پس پشت ہدایات کو قبول کرنے سے انکار کیا۔

لیکن افغانستان میں شدت پسند عناصر کی سرپرستی کے معاملہ میں دونوں جماعتوں کے رویے میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔دونوں نے حسب توفیق ان عناصر کو ہر طرح سے پنپنے کا موقع فراہم کیا۔ جس کے اثرات اسی زمانے میںپاکستان میںظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔جودہشت گردی کے خلاف جنگ کی شکل میں زیادہ منظم انداز میں ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔

جنرل پرویز مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور میںاس مسئلے کومزید الجھا دیا۔ انھوں نے امریکا اور افغانستان میں برسرپیکار عناصر کوانتہائی بھونڈے انداز میں Double Crossکرکے پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا کردیں۔ایک طرف امریکا کا اعتماد جاتا رہا دوسری طرف قبائلی علاقے شدت پسند عناصر کی محفوظ پناہ گاہ بن گئے۔یوں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی غیر محفوظ ہوتا چلاگیا۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف جمہوریت مخالف قوتیں پورے ملک میں مجتمع اور منظم ہورہی ہیں۔ جنھیںاسٹبلشمنٹ کے ایک مخصوص حلقے کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔

جب کہ دوسری طرف قومی سیاسی جماعتیں بری حکمرانی اور کرپشن کی وجہ سے عوام میں تیزی کے ساتھ غیر مقبول ہورہی ہیں۔ یہ جماعتیں سیاسی عزم کے فقدان اور فکری ابہام کی وجہ سے بھی ان قوتوں کو چیلنج کرنے اور ان کا راستہ روکنے میں ناکام ہیں۔

اس صورتحال کا تیسراپہلو یہ ہے کہ ذرایع ابلاغ میں موجود دائیں بازو کے بعض عناصرمختلف طریقوں سے ایک آزاد جمہوری معاشرے کی راہ میں روڑے اٹکا کر شدت پسند عناصر کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔

21ستمبر کو ہونے والے پرتشددواقعات سے یہ اندازہ لگانامشکل نہیں کہ پاکستان میںشدت پسند قوتیںکسی بھی وقت کوئی بڑی کارروائی کرکے پورے ریاستی ڈھانچے کو ہلاسکتی ہیں۔

ان واقعات سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ کالعدم تنظیموں کی قیادتوں نے دانستہ پس پشت رہ کرپوری صورت حال کو مانیٹر کیا اور اپنی کامیابیوںاور ناکامیوں کا جائزہ لیا،تاگہ اگلے مرحلے پر ان کمزوریوںسے بچنے کی کوشش کی جاسکے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ پاکستان میںاس وقت جمہوریت شدید خطرات میں گھرچکی ہے ۔

کیونکہ انتہاپسند قوتیں کسی بڑے معرکے کی تیاریوں میں مصروف ہیںاور کسی بھی وقت شب خون مار سکتی ہیں۔ لہٰذاموجودہ حالات جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کے لیے کسی اچھے مستقبل کی نشاندہی نہیں کررہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔