سیلاب کے بعد کیا ہوگا؟

عبدالقادر حسن  بدھ 17 ستمبر 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ہر روز کالم لکھنے کی کوشش ضروری نہیں کہ ہمیشہ کامیاب ہی ہو۔ کئی بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے لیکن آج تو وطن عزیز سیلاب کی زد میں ہے اور یہ ایسی ایسی خبریں نکال رہا ہے کہ زندگی درد سے بھر جاتی ہے۔ حافظ آباد کے علاقے میں ایک بزرگ فوت ہو گئے۔ پورا خاندان سیلاب میں گھرا ہوا تھا۔ مرحوم کے بیٹوں نے جنازہ تو خود ہی پڑھ لیا مگر اب اس مرحوم کا کیا کریں۔ دور دور تک خشکی کا نام و نشان نہیں دفن کہاں کریں جو قبرستان تھے ان میں سے بھی میتیں باہر نکل کر تیر رہی ہیں۔

چار دنوں تک تو انھوں نے باپ کو احترام کے ساتھ سنبھال کر رکھا لیکن پھر اس خطرے سے پہلے کہ میت متعفن ہو جائے انھوں نے اسے سیلاب کے پانی میں بہا دیا۔ غالب نے تو مایوسی کے عالم میں غرق دریا ہونے کی بات کہی تھی ع نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا لیکن سنگدل زمانے نے شاعر کی بات کو سچ کر دکھایا اور میت کو غرق دریا کر دیا۔ قدرت کو یہی منظور تھا کہ باپ اپنے بیٹوں کے ہاتھوں غرق دریا ہو جائے۔ یہ سیلاب کیا ہے نصیحت اور عبرت کا ایک سیلاب ہے۔

ہمارے حکمرانوں کے لیے ایک آزمائش ہے کہ وہ اپنی حکمرانی کا حق ادا کرتے ہیں یا نہیں اور حکمرانی کا حق ادا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہوتا بس اللہ کی توفیق ہے  وہ جس کو عطا کر دے۔ حکمرانی کے آداب  اور فرائض کے ذکر سے ہماری تاریخ بھری ہوئی ہے۔ قحط پڑتے رہے اور حکمران فرض شناسی ادا کرتے ہوئے خود قحط زدہ دکھائی دیتے رہے۔ لوگوں نے کہا اتنا تو کھا لیجیے کہ آپ کے جسم میں حکمرانی کا فرض ادا کرنے کی سکت باقی رہے، مان گئے لیکن دیکھا کہ سامنے ایک بھوکا بمشکل قدم اٹھا رہا ہے اسے دیکھ کر ساتھیوں سے کہا کہ میں جن لوگوں کا ذمے دار بنایا گیا ہوں وہ اگر ایسی حالت میں ہوں تو میں کیسے کھاؤں۔

ہمارے ہاں سیلاب جو آزمائشیں لے کر آیا ہے اور جن میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ان کا اصل اندازہ تو سیلاب اترنے کے بعد ہوگا جب ہر سمت بربادی اور تباہی دکھائی دے گی لوگ پوچھیں گے کہ میرا گاؤں جو اس نواح میں کہیں ہوتا تھا اب کہاں ہے۔ سیلاب کی زد میں آنے والے کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں ان دیہات کے سابق مکین اب صرف اندازے لگا رہے ہیں کہ ہمارا گاؤں اس طرف کہیں ہوا کرتا تھا۔ اب تو گھروں کی نشانی درخت بھی غائب ہیں۔

ان آبادیوں اور کھیتوں کے تحفظ کے لیے جو چھوٹے موٹے بند بنائے گئے تھے وہ سب بہہ چکے ہیں بلکہ بڑے بڑے گرانڈیل بند جو دریاؤں کو روکنے کے لیے تھے وہ بھی اکثر ہم نے خود ہی اڑا دیے ہیںکہ ان کی زد میں آنے والی آبادیوں اور شہروں کو بچایا جا سکے۔ ایک سیلاب تو قدرت نے بھیجا جس نے سب کچھ تہس نہس کر دیا اور ایک سیلاب ہم نے اس قدرتی سیلاب سے بچنے کے لیے خود پھیلا دیا تاکہ اس کی تباہ کاری سے بچا جا سکے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ اس سیلاب نے اپنے راستوں کی پہلے کی آباد دنیا ختم کر دی اب اس کی جگہ نئی دنیا بنانی ہے جو بستے بستے بسے گی۔ ایک دیوار بنانی ہو تو جیسے پہاڑ کو سر کرنا ہوتا ہے کجا کہ ایک نئی دنیا بسانی پڑ جائے پوری ایک دنیا۔ یہ کام حکومت کے مخلصانہ اور ہمدردانہ رویے سے ہی ممکن ہے اور نہ صرف رویے سے بلکہ عقل سے بھی۔ میں ابھی آپ کو حکومت کا ایک انداز بتاؤں گا کہ اگر حکمرانوں کے یہی لچھن اور تماشے رہے تو پھر یہ سیلاب تو جائے بھاڑ میں حکومت کا ایک نیا سیلاب بچے کھچے انسانوں کو بہا لے جائے گا۔

سیلاب کی تباہیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اربوں کھربوں روپے چاہئیں۔ ان میں سے کم از کم تیس چالیس فی صد کرپشن کی نذر ہو گا باقی زمین پر لگے گا۔ اس وقت میں یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہماری سرکاری مشینری کے لاتعداد کل پرزے جشن منا رہے ہیں کہ سیلاب کی نعمت ان کے لیے دولت کے نئے دروازے کھول رہی ہے اور ان کی خوشحال زندگی کا نیا دور شروع ہونے والا ہے۔

حکومت دنیا بھر سے مزید قرض لے گی اور قوم کو بلوں کے ذریعے مزید نچوڑے گی یہ سب قومی خزانے میں ڈالا جائے گا جہاں سے یہ بحالی کے منصوبوں کے لیے نکالا جائے گا کچھ بحالی تو سیلاب زدہ عام پاکستانیوں کی ہوگی اور کچھ بحال کرنے والے سرکاری ملازمین کی۔ قومی خزانے میں جو کچھ جائے گا وہ قرض ہو گا بیرونی یا مقامی لیکن اگر اس میں ایک پائی بھی نہیں ہو گی تو وہ اس اشرافیہ کی نہیں ہو گی جس نے نسل در نسل 66 برسوں میں ملک کو لوٹا اور کھایا ہے۔ یہ کچھ نہیں لوٹائیں گے۔

ایک خبر چھپی ہے کہ اراکین اسمبلی اپنی تنخواہ سیلاب فنڈ میں جمع کرائیں گے یعنی انھیں حکومت سے جو ملنا ہے اس کا کچھ حصہ لیکن انھوں نے ملک کا جوکھایا ہے اس میں سے ایک پائی اور ایک قطرہ بھی قوم کو مشکل کی اس گھڑی میں واپس نہیں ملے گا۔ آپ یقین کیجیے کہ ہمارے حکمران یا ان کا طبقہ ہماری اس قومی مصیبت کی گھڑی میں ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کر رہا صرف تقریریں کر رہا ہے اور اپنے پروٹوکول پر لاکھوں کا سرکاری خرچ کرا رہا ہے۔

ہمارے حکمران لاہور میں اربوں روپوں سے ایک اور فضائی اور ہوائی راستہ تعمیر کرنے والے ہیں اس کا اشتہار چھاپا گیا ہے یہ فضائی سڑک لاہور کی ایک مشہور آبادی سے شروع ہو گی اور لاہور کی کئی آبادیوں کے اوپر سے گزرتی ہوئی موٹروے سے جا ملے گی یعنی نئے لاہور کے مرکز سے اگر کوئی موٹر کار والا اس نئی سڑک پر چڑھے گا تو وہ کسی رکاوٹ کے بغیر لاہور کا فضائی جائزہ لیتے ہوئے موٹروے تک پہنچے گا اس منصوبے پر اربوں نہیں زیادہ ہی خرچ ہوں گے۔

اگر لاہور میں دھرنا دینے والوں کو تقریروں سے فرصت ہو تو وہ اس متوقع تباہ کن منصوبے کو زبردستی روک دیں۔ ورنہ سڑکوں کے ٹھرکی یہ حکمران بس کچھ کر گزریں گے جب کہ سیلاب زدگان کی بحالی چیخ چیخ کر اس ساری رقم کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔