کیا خطرہ ٹل گیا؟

نصرت جاوید  بدھ 17 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

12 اکتوبر 1999ء سے چلتے ہوئے اب ہم ستمبر 2014 کے آخری ہفتے میں پہنچ گئے ہیں۔ اتنے برس گزر جانے کے باوجود نواز شریف صاحب نے قوم کو کبھی تفصیل سے یہ بتانے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا تھا۔ کارگل کی جنگ کے بارے میں ان کا غلط یا صحیح اپنا ذاتی موقف کیا ہے۔ اس سوال کے بارے میں بھی وہ بالعموم خاموش رہتے ہیں۔ حالیہ انتخابات جیتنے کے بعد ایک بار انھوں نے البتہ یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ آزاد کمیشن کے ذریعے کارگل سے متعلقہ حقائق قوم کے سامنے لائیں گے۔

تیسری بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ یہ وعدہ بھول بھال گئے۔ کارگل پر ایک کمیشن بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔ ان کے دفتر میں جاوید اقبال کمیشن کی ایک رپورٹ ابھی تک مقفل پڑی ہے۔ اس کمیشن کا قیام پارلیمان کے اس مشترکہ اجلاس میں ’’متفقہ‘‘ طور پر منظور ہوئی ایک قرارداد کی بدولت عمل میں آیا تھا جو 2 مئی 2011ء کی صبح ایبٹ آباد کے ایک مکان پر امریکی حملہ کے بعد اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر شوروغوغا مچانے کی خاطر منعقد ہوا تھا۔

اس قرارداد کے متن میں جس کی تیاری میں اس وقت کے اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار علی خان نے نمایاں کردار ادا کیا تھا یہ مطالبہ بھی رکھا گیا تھا کہ اسامہ کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات کرنے والے کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی جائے۔ نوازشریف اور ان کی مسلم لیگ کسی بھی صورت 2 مئی 2011ء کی ذمے دار نہ تھی۔ سوال یہ ہے کہ گیلانی حکومت کے دوران ہوئے ایک واقعہ کے بارے میں تیار کردہ تحقیقاتی رپورٹ جو راجہ پرویز اشرف کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران مکمل ہوئی تھی نواز حکومت عوام کے سامنے لانے سے کیوں کترارہی ہے۔

سوالات کو فی الحال ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ نواز شریف کے ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے دعویٰ صرف یہ کرنا ہے کہ وہ شاید اس بدنصیب قوم کو کبھی یہ بتانے کا تکلف گوارہ نہیں کریں گے کہ ’’اچانک‘‘ کیا ہوا جس نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یک جاہوکر لاہور سے اسلام آباد پہنچ کر دھرنا دینے پر مجبور کردیا۔ پنجابی کا ایک محاورہ اصرار کرتا ہے کہ جب تک بچہ روئے نہیں تو اس کی ماں بھی اسے دودھ دینے کو تیار نہیں ہوتی۔ مقصد اس محاورے کا لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے تو اپنی مشکلات کا ان کے سامنے کھل کر اظہار بھی کرو۔

نواز شریف کوئی عام انسان نہیں ایک قدآور سیاست دان ہیں۔ سیاست دان کی اصل طاقت اس کے پیروکار ہوتے ہیں۔ جب پیروکار ہی اندھیرے میں ہوں تو میرے جیسے غیر جانب دار رہنے کی کوشش میں مبتلا صحافی کس منہ سے یہ طے کرسکتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ ان دنوں کیا بیت رہی ہے۔ ان کے دل کی کہانی سے قطعی بے خبر ہونے کی بناء پر سیاسی معاملات پر لکھنے اور بولنے والوں کو توجہ صرف ان چیزوں پر مرکوز رکھنا پڑتی ہے جو نظر آرہی ہوتی ہیں۔ صرف دیکھنے تک محدود رہیں تو اسلام آباد میں دیے دھرنوں کے شرکاء کی تعداد ایک خاص حد تک، جسے ہزاروں میں کہہ لیں یا لاکھوں میں، محدود ہوکر رہ گئی ہے۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ان دھرنوں سے خطاب بھی اب بارہا کہی باتوں کو دہرانے کی وجہ سے اپنی کشش کھورہے ہیں۔ اسلام آباد کے تین سیکٹرز کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں ہمیں ان دھرنوں کی اُکسائی ہل چل بھی نظر نہیں آرہی۔ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو ایسے مناظر مگر مطمئن کردیتے ہیں۔ ان کی کثیر تعداد تو ’’خطرہ ٹل گیا‘‘ والی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ نواز حکومت کے لیے شاید خطرہ واقعی ٹل گیا ہو۔ مگر موجودہ حکومت کی بظاہر ’’بچت‘‘ پاکستان کی ریاست اور معاشرے کے بارے میں جو عمومی تصویر ہمیں اور باقی دُنیا کو دکھا رہی ہے وہ ہرگز جاذب نظر نہیں۔

25 اگست 2014 کے دن بھارتی وزارتِ خارجہ کے سیکریٹری نے اسلام آباد آکر دونوں ملکوں کے درمیان کئی ماہ سے رکے ہوئے مذاکرات کا احیاء کرنا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نے ایک بدتر ازگناہ عذر کے ذریعے یہ احیاء کرنے سے انکار کردیا۔ سری لنکا جنوبی ایشیاء کے تناظر میں پاکستان کے ساتھ اپنے دائمی تعلقات کی بناء پر کافی حوصلہ مند محسوس کیا کرتا تھا۔ اس کے صدر بھی حالیہ دنوں کے دھرنے کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہ کر پائے۔ مالدیپ کے سربراہ نے بھی معذرت کرلی۔

اس سب سے بڑا ستم مگر یہ ہوا کہ چین کے صدر جن کے ملک کے ساتھ پاکستان کئی برسوں سے سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بالاتر دوستی کا دعوے دار ہے سیکیورٹی کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے اسلام آباد تشریف نہ لاسکے۔ سری لنکا اور مالدیپ کے بعد چینی صدر اب بھارت میں موجود ہیں۔ اپنے قیامِ بھارت کے دوران وہ اس ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ریل کے نظام کو تیز اور جدید تر بنانے کے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کریں گے۔ ان کے مجوزہ دورہ پاکستان کے دوران بھی ایسے ہی کئی معاہدوں پر دستخط ہونا تھے۔

عمران خان صاحب کا مگر اصرار ہے کہ اچھا ہوا چینی صدر پاکستان تشریف نہیں لائے۔ وہ آجاتے تو ہماری قوم پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ اور بڑھ جاتا اور شریف خاندان کے چند کاروباری دوست کروڑوں روپے کمیشن وغیرہ کے نام پر ہینگ اور پھٹکری لگائے بغیر کما لیتے۔ شیخ رشید صاحب کا دعویٰ ہے کہ چین سے آیا ’’مال‘‘ اکثر 2 نمبر ہوتا ہے۔ بہتر ہوا ان سے ریلوے وغیرہ کے اور معاہدے نہ ہوئے۔ اب شیخ صاحب جیسے با خبر آدمی کو کون سمجھائے کہ چین سے صرف ریلوے وغیرہ کے لیے ’’مال‘‘ نہیں آتا۔ کچھ چیزیں کہیں اور بھی استعمال ہوتی ہیں اور اگر وہ چیزیں بھی ’’دونمبر‘‘ ہیں تو خدا حشر میں ہو مددگار میرا۔

بہرحال جاپان اور چین سے کئی میگاپراجیکٹ کے معاہدوں پر دستخط لینے کے بعد بھارت کے وزیر اعظم نیویارک روانہ ہوجائیں گے۔ وہاں موصوف کا امریکی صدر اوباما بھی ایک تفصیلی ملاقات کے لیے بے تابی سے انتظار کررہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کو بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے جانا تھا۔ میری پکی اطلاع ہے کہ ان کے وزراء اور معتمدین کی اکثریت وزیر اعظم سے مسلسل التجائیں کررہی ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی خاطر تقریباً ایک ہفتے کے لیے بیرون ملک نہ جائیں۔ اپنی جگہ صدر ممنون حسین یا سرتاج عزیز صاحب کو بھیج دیں۔

مجھے خبر نہیں کہ وزیر اعظم کا اپنا فیصلہ کیا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے اگر وہ خود بھی نیویارک پہنچ گئے تو دُنیا کے کونسے ملک کا سربراہ ایسے وزیراعظم کو سنجیدگی سے لے گا جس کی ’’ماتحت‘‘ پولیس اسلام آباد میں چند کارکنوں کو ہنگامہ آرائی کے الزام میں ہتھکڑی لگاکر گرفتار کرتی ہے تو وہاں کے ’’قائدِ انقلاب‘‘ یہ ہتھکڑیاں کھلوا دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔