مژگاں تو کھول، شہر کو سیلاب لے گیا

رئیس فاطمہ  جمعرات 18 ستمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

میر تقی میر نے ایک موقعے پر کہا تھا:

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک

مژگاں تو کھول ! شہر کو سیلاب لے گیا

فدائے سخن میر تقی میر نے غم کی شدت سے بے حال ہوکر آنسو بہانے کو ایک سیلاب سے تشبیہہ دی کہ اے میری چشم گریہ ناک تو آنسو بہاتے بہاتے سوگئی اور تیرے آنسوؤں نے ایک سمندر کو جنم دے دیا۔ تجھے پتا ہی نہیں کہ تیرے آنسوؤں نے جو سیلاب بپا کیا ہے اس میں پورا شہر ڈوب گیا؟ ہائے کیسے حساس اور دردمند لوگ تھے۔ جنھیں آنسوؤں کے علامتی سیلاب میں شہر کے ڈوب جانے کا خطرہ تھا؟

اور آج کچھ طبقے نظریہ ضرورت کے تحت ’’جمہوریت‘‘ کی الٹی ٹوپی اوڑھ کر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں کہ اصل جمہوریت کا راگ بھی الاپنا ہے اور خود کو معہ اپنے ہمراہیوں  کی ٹولی کے نہایت بچگانہ اور عقل و فہم سے عاری بیانات دے کر اکھاڑے میں اپنے پٹھوں کو اتارنا بھی ہے کہ یہی تو جمہوریت ہے۔ صرف ایک نعرہ مستانہ لگاؤ۔  کبھی جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کا، مگر کون سی قربانیاں؟ باضمیر، باہوش اور نہ بکنے والے افسران، تجزیہ کار، صحافی، ادیب اور استاد کو اب تک نہیں پتہ چل سکا کہ باری باری میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلنے والوں نے کون سی قربانی دی؟

ہاں یہ ضرور ہوا کہ لاشوں پہ سیاست کرنے والوں نے چند رٹے رٹائے الفاظ ضرور سیکھ لیے۔ ایفی ڈرین کیس ہو، حج اسکینڈل ہو، اسٹیل مل اور قومی ایئرلائن کی اندرونی کہانیاں ہوں، پیلی ٹیکسیاں ہوں، موٹر وے ہو، میٹرو بس ہو، یوتھ کے نام پر رقم کا استعمال (دادا جی کی فاتحہ۔ حلوائی کی دکان) بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام۔ اور نہ جانے کیا کیا۔ اپنے اپنے باس (بادشاہ زیادہ صحیح لگتا ہے) کو ہر طرح کی کرپشن میں مدد دینے کے عوض بھائی، بھتیجوں، رشتے داروں  کو بڑے بڑے عہدے اور اداروں کا سربراہ بنانے کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔

میر صاحب جو روتے روتے سو گئے تھے۔ اس بات پہ شرمندہ تھے کہ ان کے آنسوؤں نے شہر کو ڈبو دیا! اور یہ ایک آج کے  لوگ جنھیں نہ جھوٹ بولنے پہ شرمندگی ہوتی ہے یہ انسانی المیوں کی داستانیں رقم کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ خود کو خدا سمجھ بیٹھے ہیں۔ جبھی تو ہر سال سیلاب آتا ہے اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں۔مویشی ہی نہیں بچے بھی بہہ جاتے ہیں، جانے والے پلٹ کر آتے ہیں تو نہ گھر ہوتا ہے نہ سامان نہ فصلیں! ہر سیلاب کے بعد حکم ران معصوم بن کر پڑوسی ملکوں اور عام آدمی سے مدد اور چندوں کی اپیل کرتے ہوئے اپنے مقام سے گر جاتے ہیں۔

کیا عجب تماشہ ہے کہ ہر مصیبت کے وقت بھی مدد عوام کریں، ٹیکس بھی عوام دیں، سیلاب زدگان اور زلزلوں میں تباہ و برباد ہونے والوں کی مدد بھی عوام کریں اور یہ مگرمچھ کے آنسو بہانے والے بے رحم لوگ میڈیا کے سامنے صرف چلا چلا کر زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہ کرپائیں۔ ارے ظالمو! تم نے اس ملک کو ختم کردیا، تم سب اس ملک کی دیمک ہو۔ کیا تم لوگ انسانوں کے بجائے کوئی اور مخلوق ہو! سیلاب سے تباہ و برباد ہونے والوں کے لیے کبھی تمہاری جیبوں سے کچھ کیوں نہیں نکلتا۔ باری باری اپنی اپنی اننگز کھیلتے ہو۔ اپنے چوزوں کو دوسروں کا دانہ ہڑپ کرنا سکھاتے ہو۔

اصلی وارثوں کو ڈرا دھمکا کر کونے میں بٹھا دیتے ہو۔ مرغی کے گوشت، پٹرول اور گیس تک کی قیمتیں تمہارے چوزے اور بلونگڑے طے کریں پہلے اپنا منافع طے کریں اور پھر منافع خور تاجروں کو کھلی چھوٹ دے دیں کہ جس قیمت پہ چاہو بیچو! دنیا بھر میں کہیں تاجر اور صنعت کار، لوہار، سنار، بڑھئی اور ہیروئن فروشوں کو حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ لیکن پاکستان وہ  ملک ہے جہاں ملک کا وزیر اعظم یا اسمبلی کا رکن بننے کے لیے کسی اہلیت کی ضرورت نہیں۔

صرف اور صرف ایک خوبی ہونی چاہیے وہ ہے ’’ضمیر فروشی‘‘ اس حمام میں سارے بے ضمیر اکٹھے ہوکر غسل صحت فرماتے ہیں اور بادشاہ وقت کے لیے قصیدے لکھتے ہیں۔وہ جو اسلام کا نام لے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ جمہوریت کے بندر بن کر ڈگڈگی بجانے والے کی لے پر مطلوبہ ناچ دکھاتے ہیں۔ وہی منظر بدلنے کے بعد فوجی بوٹوں کی دھمک سنتے ہی راستے میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں کہ یہ موسمی پرندے ہوا کا رخ پہچانتے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک تو سب کرتے ہیں خاص کر سول سوسائٹی کے سمجھدار اور باشعور لوگ۔ لیکن خدا جانے اظہار کرتے ہوئے اتنا ہچکچاتے کیوں ہیں؟

عسکری قوتوں نے جب بھی اس ملک کی ڈوبتی کشتی کو بھنور سے نکالا ہے تو ان ہی نااہل اور کرپٹ سیاست دانوں نے اسے ڈبویا؟ قوم انتہائی مایوسی کے عالم میں آخر کس کی طرف دیکھے؟ سیلاب سے لوگوں کو نکالے تو فوج کے جوان۔ زلزلہ زدگان کی مدد کرے تو یہی فوج۔ موقع تو خود کرپٹ، بدمعاش اور ضمیر فروش سیاست دان فراہم کرتے ہیں؟ آخر کوئی تو مدد کو آئے گا۔ لیکن کرپٹ اور لٹیرے سیاست دانوں نے اپنے اپنے پالتو طوطوں اور لڑاکا بیلوں کو جمہوریت کی بقا کے لیے جو ٹیلی ویژن چینلز کے اکھاڑے میں اتارا ہے اور ان سے عسکری قوتوں کے خلاف باقاعدہ مہم (مفت میں نہیں) اسی لیے چلائی ہوئی ہے کہ عوام کے ہاتھ اب ان کے گریبانوں تک پہنچنے والے ہیں۔

میں فوجی حکومت کے فیور میں بالکل نہیں ہوں۔ ہر طرف سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں اور لٹیرے برباد ہوجانے والے لوگوں کے جانور اونے پونے خرید کر انھیں دس گنی زیادہ قیمت پہ قربانی کے لیے بیچ رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے زلزلوں میں مرنے والی عورتوں کے بال کاٹ کر وگ بنانے کے لیے بیچ کر لاکھوں کمائے۔ یہ وہی ہیں جنھوں نے عورتوں کی کلائیوں سے سونے کی چوڑیاں اتار کر بیچ دیں۔ چوڑیاں اتر نہ سکیں تو ہاتھ کاٹ لیے۔ یہ وہی ہیں جنھوں نے سیلاب اور زلزلے میں بے آسرا رہ جانے والی لڑکیوں اور عورتوں کو بازار میں جاکر بیچ دیا۔ اور خود اپنی بیٹیوں کی جھلک کسی کو نہ دیکھنے دی۔

کہاں ہیں مولانا فضل الرحمن ، کہاں ہیں دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ جنھیں سیلاب کی تباہ کاریاں نظر تو آرہی ہیں لیکن یہ سب ’’گرگ باراں دیدہ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ الطاف حسین بھی اپنے ٹیلی فونک بیانات تک محدود ہیں۔ جماعت اسلامی بھی ایک بیان پہ قائم نہیں۔ سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ نواز شریف کی حکومت میں ہمیشہ ایم کیوایم پر برا وقت پڑا۔ حقیقی بنی اور حقیقی کے پالن ہاروں نے کہاں روپوشی اختیار کی۔

ایک لاہور کے ہفت روزے نے ساری تفصیل لفظ بہ لفظ لکھ دی تھی۔ وہ کون تھے جنھوں نے لندن میں بلائی جانے والی کانفرنس میں ایم کیو ایم کی شرکت کی شدید مخالفت کی تھی؟ لیکن افسوس کہ ایم کیو ایم کے قائد نے اس بار بہت زیادہ مایوس کیا۔ کاش الطاف حسین وطن واپس لوٹیں تو انھیں ادراک ہو کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے۔ کراچی کو تو وہ اب شاید پہچان ہی نہ سکیں کہ شہر بے مثال کراچی قبضہ مافیا کے چنگل میں ہے۔

اور پورا شہر ایک کچرا کنڈی بن چکا ہے۔ جب کسی جماعت کا لیڈر اپنی قوم سے مخلص ہونے کے باوجود جلاوطنی اختیار کرلے تو وہ قوم مایوس تو ہوتی ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ خود کو بے آسرا بھی سمجھنے لگتی ہے۔ ایسے میں جو بھی خلوص سے اس کی طرف ہاتھ بڑھائے گا۔ اس بے سہارا قوم کے افراد کے کام آئے گا وہ اسی کی طرف دیکھے گی اور جائے گی۔ اپنے لوگوں کے مسائل کو حل نہ کرنا اور انھیں بیچ منجدھار میں تنہا چھوڑنا اکثر بہت بھاری پڑ جاتا ہے۔ ایسے میں کوئی فرشتہ تو آئے گا نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔