کھیل جو عوام کھیلتے ہیں

اکرام سہگل  جمعرات 18 ستمبر 2014

عمران خان نے پاکستان کے ڈرائنگ روموں میں بیٹھے کچھ لوگوں کے چراغ اپنی ان شعلہ بار تقریروں سے گل کر دیے ہیں جن میں پاکستانی عوام کے لیے موثر جمہوریت لانے کا عندیہ دیا جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے انداز میں عمران خان نے عوام میں ایک گہری لہر پیدا کر دی ہے۔

ڈرائنگ روموں میں چھینے جانے والے اپنے ہر ہر ووٹ کے بدلے میں اس نے ان لوگوں کے ہزاروں ووٹ لے لیے ہیں جن کے پاس بیٹھنے کے لیے ڈرائنگ روم نہیں۔ اس پیغام کا نوجوانوں پر خاصا گہرا اثر ہوا ہے جس سے لگتا ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ عمران خان کا حامی ہو گیا ہے۔ استحصالی نظام حکمرانی سے آزاد کرانے کی بات ایسی ہے جو غربت کے مارے عوام کے لیے ایک عظیم خواب کی تعبیر کے مترادف ہے۔اصولاً  جاگیرداری اور جمہوریت باہم ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ کیا تاریخ ان لمحات کو ریکارڈ کرے گی جب جمہوریت کو جاگیرداری کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا پر جب لوگ شیخ رشید کو عمران خان کے کان میں سرگوشیاں کرتے دیکھتے ہیں تو عمران کے ہمدرد اس سے متنفر ہونے لگتے ہیں۔ وہ جو انٹیلی جنس ایجنسیوں میں ہیں اگر وہ شیخ رشید کو مبینہ طور پر عمران خان کا مخلص ساتھی سمجھ رہے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ اس الزام کے باوجود کہ میٹرو بس منصوبوں کے لیے بے تحاشا فنڈز دیگر منصوبوں سے منتقل کرائے گئے، پنجاب میں شہباز شریف کی طرف سے حکومت کی اہلیت کو ثابت کرنے کی کوششوں کو نہیں جھٹلایا جاسکتا۔

تاہم  قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے دعوے کھوکھلے ثابت ہو گئے جب ہائی کورٹ کے یک رکنی ٹربیونل کے جج نے 17 جون کو ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے سانحے کے دو ٹوک  فیصلے میں پنجاب حکومت کو مورد الزام ٹھہرا دیا۔ ایک خبر کے مطابق براہ راست گفتگو کا ریکارڈ (ڈی سی آر) ایک ایسی بندوق ہے جس کی نالی سے دھواں نکل رہا ہو جو گولی چلنے کا نا قابل تردید ثبوت ہوتا ہے۔ آخر گولیاں مارنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ اور کیا شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے ماڈل ٹائون کے وحشت ناک سانحہ کی صحیح تصویر سامنے آ سکتی ہے؟

جمہوریت کی ڈوبتی کشتی کو کنارے تک لانے کی خاطر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی لائیو ٹی وی ٹرانسمیشن  نے پورس کے ہاتھیوں کا کام کیا جو اپنی فوج پر ہی چڑھ دوڑے تھے۔ اس سے اپنے زعم میں عوام کی خدمت کے دعویدار قانون سازوں کا مفاد پرستانہ رویہ کھل کر سامنے آگیا۔ اسمبلیوں کا اصل چہرہ اس سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے جس کا کوئی تصور کر سکتا ہے۔ ہمارے پارلیمنٹیرین جاگیردارانہ ’’اسٹیٹس کو‘‘ ہر حال میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی ترجیحی طور پر ’’لوکل گورنمنٹ‘‘ کے بغیر۔

آرمی کو جن بیہودہ خبروں میں ’’اسکرپٹ رائٹر‘‘ ہونے کا طعنہ دیا گیا تھا جو جزوی طور پر خود وردی والوں کا ہی قصور تھا۔ قابلیت سے قطع نظر بدقسمتی سے آئی ایس پی آر کی طرف سے گھسی پٹی روش کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے تا کہ ایک طرف وہ فوج کی اہمیت گھٹانے والوں کے منہ بند کر سکیں اور دوسری طرف اپنے دوستوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہیں یا انھیں بالکل ہی نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ انھیں رد عمل کے بجائے پیش بندی سے کام لینا چاہیے۔

یہ بہت باعث رنج بات ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کو بار بار یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ فوج کسی بھی فریق کی حمایت یا مخالفت سے ماورا  ہے۔ خواہ مخواہ تسلی آمیز بیان دینے کی پالیسی ترک کر دی جانی چاہیے تھی۔ کیا اس بات کا پتہ چلانے کے لیے شرلاک ہومز جیسے کسی افسانوی سراغرساں کی ضرورت تھی کہ فوج میں دراڑ کی شرمناک کہانی ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے کیوں نشر کی تھی؟ اور یہ کہانی جس کے منہ سے نکلی اس کو کابینہ کے ایک خاص وزیر کی قربت حاصل ہے۔

پانچ جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ یا پروموشن کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن کور کمانڈروں کا موقف سن کر چیف آف آرمی اسٹاف نے جو ہم آہنگی پیدا کی وہ یقیناً قابل ذکر ہے جس سے کہ انھوں نے لازمی طور پر وزیر اعظم کو کھلے عام یا ذاتی طور پر آگاہ کر دیا ہو گا۔ ان کی طرف سے اچھی نصیحت یہ ہو گی کہ وزیر اعظم ان چیزوں کے بارے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کوئی حتمی بیان نہ دیا کریں جو حقائق سے متصادم  ہوں اور نہ ہی ٹی وی پر لائیو چلنے والے پروگرام میں وفاقی وزیر داخلہ کے منہ میں ’جیو جیو‘ جیسی کوئی بات ڈالیں۔

سابقہ برسوں میں جرنیل احکامات جاری کرتے تھے اور سولجر ان پر عمل کرتے تھے۔ اس مرتبہ لوگ عمران خان اور طاہر القادری کے پیغامات سے متفقہ طور پر ہم آہنگ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جرنیلوں کے جو بھی خیالات ہوں لیکن انھیں اپنے زیر کمان افراد کے احساسات کا واضح خیال ہونا چاہیے۔ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کرنا یا کسی پیغام کی حمایت کرنے میں بڑا فرق ہے۔ جس طرح کہ گانے والے سے زیادہ گانے کے بول کی اہمیت ہوتی ہے۔ ایک بالغ نظر فوجی حلقوں کو خوب سمجھ ہوتی ہے کہ کسی سابقہ ’اسکرپٹ‘ کے مطابق فوجی مداخلت کرنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

اس بات پر انھیں یقیناً سراہا جانا چاہیے کہ ملک کو لٹتا ہوا دیکھ کر خاموش کھڑے ہیں جب کہ ان کے سپاہی فاٹا اور سوات میں جانیں قربان کر رہے ہیں۔ ان کو طرح طرح کی باتیں صبر و تحمل کے ساتھ سننے کا کریڈٹ بھی دیا جانا چاہیے، حالانکہ بڑی دیدہ دلیری سے ان پر جھوٹے الزامات عاید کیے گئے۔ جرنیلوں کو اپنے رینکس کا دبائو برداشت کرنے کا کریڈٹ بھی دینا چاہیے کہ وہ اشتعال انگیزی کی انتہا کا سامنا کرتے ہیں حالانکہ حقائق کو مسخ کر کے تو پارلیمنٹ کے باہر منعقد ہونے والے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جاتا ہے۔

ممکن ہے عمران نے اپنی تقاریر میں مروجہ حدود سے تجاوز کیا ہو لیکن اس کی حکمت عملی خاصی حد تک کامیاب رہی ہے اس نے انتخابی نظام کی درستی کو اپنا اولین ہدف قرار دیا ہے تاہم اس حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کے لیے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو شق در شق جنگ کے اصولوں کو مد نظر رکھنا ہو گا۔ ہدف کی نشاندہی اور نشانے کی شستگی۔

2013ء کے الیکشن کے لیے عدالتی کمیشن کا مطالبہ ان کے اصل ہدف سے انحراف کے مترادف ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے وہ بھی ان جاگیرداروں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے ہیں جن کی اکثریت پارلیمنٹ میں بیٹھی ہے۔ کیا کبھی کسی کمیشن کی رپورٹ نے پاکستان میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے؟ بلکہ ان رپورٹوں کو تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ قانونی راستہ تو کسی منزل کی نشاندہی نہیں کرتا اور جس راستے کی تلقین کی گئی ہے وہ ایک بنی بنائی مزاحمت ہے کہ صاف اور شفاف الیکشن کے لیے عوام الناس کی خواہشات پر عمل کیا جائے۔

ایک دفعہ پارلیمنٹ اس کا حل ڈھونڈ لے تو حکمرانوں کے لیے اخلاقی طور پر یہ لازم ہو جائے گا کہ وہ انتخابی اصلاحات کے نظام کے مطابق تازہ مینڈیٹ لے کر آئیں تب یہ قانونی ضرورت بھی بن جائے گی۔ اپنے اصل مقصد کو قائم نہ رکھنے سے معاملات پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ سارے نظام کو ملیامیٹ کرنے کے بجائے اگر دھرنے والے صرف انتخابی اصلاحات پر فوکس رکھیں اور KISS (Keep it simple,Stupid) کی پالیسی کو اپنائیں تو یہ بات پاکستانی عوام کے لیے بہتر ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔