(میڈیا واچ ڈاگ) – ایج آف ریویلیوشن

فرمان نواز  جمعرات 18 ستمبر 2014
قوم اگر ایک بار پھر احتجاجوں کی تحریک کے ذریعے بات منوانے کی راہ پر چل نکلی تو یہ عمل صرف سیاست تک محدود نہیں رہے گا۔ فوٹو نکل بیک  فیس بک پیج

قوم اگر ایک بار پھر احتجاجوں کی تحریک کے ذریعے بات منوانے کی راہ پر چل نکلی تو یہ عمل صرف سیاست تک محدود نہیں رہے گا۔ فوٹو نکل بیک فیس بک پیج

’’ایج آف ریویلیوشن ‘‘ گانا دیکھ کر احساس ہوا کہ مغرب نظریات کے پرچار میں کتنا فریبی ہے۔ اس گانے میں نوجوان نسل خصوصاََ ٹین ایجر زکو انقلاب لانے کیلئے اُکسایا جا رہا ہے۔ حلانکہ یہ وہی مغرب ہے جو ہمیں جمہوریت کا پاٹ پڑھاتا ہے اور جمہوریت اور انسانی حقوق کی بنیاد پر ہی ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔ کیا جمہوری سیاست پر یقین رکھنے والے بھی انقلابات کے ذریعے تبدیلی لاتے ہیں؟

یہ گانا ایک کنیڈین بینڈ نکل بیک نے گایا ہے اور گانے کا ڈائریکٹر وائن اِشام ایک امریکی ہے۔ گانے میں مختلف ممالک میں ہونے والے احتجاجوں کو دکھایا گیا ہے۔ اس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنے کی بھی جھلک دیکھائی گئی ہے لیکن حیران کن طور پر سعودی عرب میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف احتجاج کو نہیں دکھایا گیا لیکن باقی تمام دُنیا کے عوامی غصے کی جھلک اس گانے میں دیکھی جاسکتی ہے۔اور ہاں اس گانے میں امریکی عوام کی ترجمانی بھی واضح نظر نہیں آتی جبکہ یوکرین کے بحران کو خصوصی طور پر دکھایا گیا ہے۔

وڈیو میں تبدیلی اور انقلاب کا یہ گانا اسکول کے بچوں کو سُنایا جاتا ہے۔ جو بعد میں اپنی کلاس میں توڑپھوڑ شروع کر دیتے ہیں اور ظاہر ہے اس گانے کے ذریعے ہر بچے کو بھی یہی ترغیب دی جارہی ہے۔جن بچوں کی محنت مشقت کو مغرب جُرم سمجھتا ہے آج مغربی میڈیا اُن ہی بچوں کو توڑ پھوڑ پر اُکسا رہا ہے اور عملی سیاست بلکہ تخریبی سیاست میں حصہ لینے پر مجبور کر رہا ہے۔ مغرب کے انداز بھی نرالے ہیں۔ کبھی جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے مختلف ممالک کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی جمہوری حکومتوں کے خلاف عوام کو اُکسایا جاتا ہے۔
گانے کے کچھ بول بھی ملاحظہ کریں۔

?In God we trust or the CIA

لیکن مغرب تو کب کا سیاست، معیشت اور معاشرت سے مذہب کو نکال چکا ہے ، پھر خدا کے گھر کا راستہ کیوں دکھا رہا ہے۔

ہم تک کب اُن کی محفل میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔

گانے کے کچھ مزید بول اس طرح کے ہیں۔

No, we can’t turn back, we can’t turn away
‘Cause it’s time we all relied on the last solution

?What do we want
We want the change
?And how’re we gonna get there
Revolution

کیا بات ہے ،مغرب تو آخری حل سیاست اور تدبیر میں تلاش کرتا ہے جبکہ ہمیں آخری حل انقلاب کا سمجھایا جا رہا ہے۔دراصل آخری حل انقلابات نہیں انتخابات ہوتے ہیں۔تمام مغربی ممالک انتخابات کے ذریعے ہی اپنی تقدیر بدل رہے ہیں۔ آج جب ہم انتخابات کے ذریعے تبدیلی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو مغربی میڈیا ہمیں تبدیلی کیلئے توڑ پھوڑ کا راستہ دکھا رہا ہے اور سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ یہ سبق نوجوانوں اور بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے۔ قوم اگر ایک بار پھر احتجاجوں کی تحریک کے ذریعے بات منوانے کی راہ پر چل نکلی تو یہ عمل صرف سیاست تک محدود نہیں رہے گا، بچے یہی عمل پھر اپنی من مانیوں کے تحفظ کے لئے بھی اپنائیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔