زیادہ کی ہوس میں ہاتھ کچھ نہیں آئے گا

نصرت جاوید  جمعـء 19 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

عمران خان صاحب اب تواتر سے اپنے چاہنے والوں کو یاد دلانا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ محض ایک عالمی شہرت یافتہ کرکٹر ہی نہیں رہے‘ ان کو محض ایک سپر اسٹار کھلاڑی سمجھنا تو لوگوں نے مگر اسی وقت چھوڑ دیا تھا جب وہ کرکٹ سے ریٹائر ہو کر پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور غیر ممالک جا کر شوکت خانم اسپتال کے لیے چندہ جمع کرنا شروع ہو گئے تھے۔ کسی بھی شعبے میں بہت مشہور ہوئے افراد کے لیے کسی نیک کام کے لیے چندہ جمع کرنا مشکل کام نہیں ہوتا۔

اصل قصہ اس چندے کے استعمال سے جڑا ہوتا ہے اور عمران خان کے بدترین مخالف بھی یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ کینسر کے علاج کے لیے ان کا اپنی والدہ کی یاد میں بنایا اسپتال ایک محیر العقول کارنامہ ہے۔ میں اور آپ پسند کریں یا نہیں گلاب دیوی اور گنگا رام اسپتال بنانے والوں نے بھی اپنے زمانے میں ایسے ہی انسان دوست ادارے بنائے تھے۔ مگر ان دونوں اسپتال کے بانیوں نے سیاست میں قدم نہیں رکھا تھا۔ عمران خان اب کئی برس سے کل وقتی سیاست کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے مئی 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں تمام تر دہائی کے باوجود حقیقت ہے تو یہ کہ ان انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف پاکستان میں عوامی ووٹ حاصل کرنے والی دوسری سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری تھی۔

اسی کی بدولت عمران خان کی جماعت کو خیبرپختونخوا جیسے اہم اور بین الاقوامی اداروں کی ہر وقت نگاہ میں رہنے والے صوبے میں مخلوط حکومت بنانے کا موقعہ بھی ملا۔ صوبائی حکومت کی کارکردگی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے تحریک انصاف آیندہ انتخابات میں کہیں شاندار کامیابیاں حاصل کر سکتی تھی۔ مگر نجانے کیا ہوا۔ 14 اگست 2014ء کی صبح عمران خان اپنے چاہنے والوں کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہوگئے۔ یہاں آنے کے بعد وہ نام نہاد ریڈ زون میں لگائی رکاٹوں کو عبور کرتے ہوئے پارلیمان کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔ وہاں بیٹھے انھیں ایک مہینے سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر وہ اب واپس لوٹنے کو تیار نہیں۔

بہت سارے غیر جانبدار لوگوں کا اصرار ہے کہ سیاسی حرکیات کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ نواز شریف کا استعفیٰ بس ایک ضد کی صورت مانگ رہے ہیں۔ شائد انھیں لوگوں کا منہ بند کرنے کے لیے عمران خان کو اب یاد دلانا پڑ رہا ہے کہ وہ محض ایک کھلاڑی ہی نہیں رہے۔ ’’جماندرو‘‘ سیاست دان ہیں۔ سیاست کے ہنر کو انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح آکسفورڈ جیسی درسگاہ میں نصاب کی صورت پڑھ کر سیکھا ہوا ہے۔ عمران خان کے اپنے تئیں کزن بنے طاہر القادری تو ویسے ہی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ تقریر کے ہنر سے بھی خوب واقف ہیں اسی لیے تو علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کہلائے جاتے ہیں۔

اب میرے جیسا دو  ٹکے کا صحافی ان دو انتہائی پڑھے لکھے سیاستدانوں کو یہ سمجھانے کی جرأت بھلا کیسے کرے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں جنھیں ہر سال ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں سے Good Financial Health  کے سرٹیفکیٹ چاہیے ہوتے ہیں۔ حکومتیں، خواہ وہ سیاسی ہوں یا فوجی آمروں کے زیر نگین، صرف جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے فارغ نہیں ہوا کرتیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی پسند نا پسند کا انحصار محض آپ کی داخلی معیشت پر نہیں ہوتا۔ ایک ملک ہے امریکا جس کے یورپ میں چند بہت ہی طاقتور ملک دل و جان سے اتحادی ہیں۔ ان سب کے چند مشترکہ مفادات ہیں جن میں سرفہرست ان کی Strategic ترجیحات ہیں۔ پاکستان میں کوئی حکومت ان ترجیحات میں Fit ہوتی نظر نہ آئے تو کسی نہ کسی بہانے فارغ ہو جایا کرتی ہے۔

اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہانی میں 1951ء سے شروع کر سکتا ہوں۔ مگر انٹرنیٹ کے پھیلائے ’’علم‘‘ نے لوگوں کو جلد باز بنا دیا ہے۔ انھیں فوری حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور فوری حوالہ میرے پاس جنرل مشرف کا ہے۔ نائن الیون کے بعد وہ کئی برس تک امریکی صدر کے Tight Buddy رہے تھے۔ ستمبر 2006ء میں لیکن واشنگٹن اس شبے میں مبتلا ہو گیا کہ اچھے اور بُرے طالبان کے نام پر امریکا اور یورپ کا Non NATO حلیف یعنی پاکستان ان کے ساتھ ڈبل گیم کر رہا ہے۔

اس شبے کی وجہ سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے روابط بڑھائے گئے۔ وگرنہ یہ وہی محترمہ تھیں جنھیں 2006ء سے پہلے امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک درمیانی سطح کی افسر کرسٹینا روکا جو واشنگٹن کے لیے جنوبی ایشیاء کے معاملات پر نظر رکھا کرتی تھی انھیں ملاقات کا وقت دینے سے کترایا کرتی تھیں۔ وقت بدل گیا تو صدر بش کی کونڈا لیزا رائس جیسی انتہائی طاقتور معتمد نے ذاتی دلچسپی لے کر مشرف اور محترمہ کے درمیان NRO کا معاہدہ کروایا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد ہی جنرل مشرف کو بالآخر اقتدار سے فارغ کروانا تھا۔

2008ء کے انتخابات کے بعد کیری۔ لوگر بل کے ذریعے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کی جمہوری حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ یہ حکومت مگر بہت ہی آزاد عدلیہ اور نہایت مستعد میڈیا کے ہاتھوں زچ ہو کر رہ گئی۔ پھر اسامہ کو امریکا نے از خود ڈھونڈ کر ایبٹ آباد میں کمانڈو بھیج کر ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد سلالہ ہوا۔ پاکستان نے اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سات سے زائد مہینوں تک افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کے لیے فوجی رسد کے پاکستانی راستے بند کر دیے۔

جواباََ واشنگٹن نے کولیشن سپورٹ فنڈ سے متعلقہ ڈالروں کی فراہمی روک دی۔ پاکستان میں بجلی کا بحران گردشی قرضے ادا نہ ہونے کی وجہ سے شدید سے شدید تر ہوتا چلا گیا۔ پھر ہوا میموگیٹ۔ بعد ازاں گیلانی کی ایک چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں فراغت۔ ان سب مشکلات کے باوجود پیپلز پارٹی 2013ء میں ووٹ مانگنے نکلی تو طالبان کے خوف سے جلسے جلوس بھی منعقد نہ کر پائی۔ بالآخر جو نتیجہ برآمد ہوا وہ کوئی اتنا بھی حیران کن نہیں تھا۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے دھرنوں کے ذریعے نواز حکومت کو ابھی تک اس حال میں نہیں دھکیل پائے جہاں پیپلز پارٹی کی اپوزیشن، آزاد عدلیہ اور مستعد میڈیا نے یکجا ہو کر اسے پہنچا دیا تھا۔ ان سب قوتوں کے زبردست اتحاد کے باوجود گزشتہ حکومت نے اپنی پانچ سالہ معیاد پوری کی تھی۔ نواز شریف تو خوش نصیب ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ابھی تک اس حکومت پر کچھ بھروسہ ہے۔

عدلیہ اس حکومت کے اتنا خلاف نہیں۔ میڈیا کے بیشتر ’’پارسا‘‘ عمران خان اور طاہر القادری کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مگر جمہوریت کے نام نہاد محافظ بنے چند ’’لفافہ صحافی‘‘ ابھی تک انقلابی بن جانے کو تیار نہیں ہو رہے۔ عمران خان اور طاہر القادری نے چینی صدر کا دورئہ پاکستان ملتوی کروا کر نواز حکومت کی ساکھ کو کافی سخت ضرب لگائی ہے۔

اب چند روز مزید لگا کر یہ کوشش بھی ضرور کریں کہ نواز شریف اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی سے خطاب کی خاطر ستمبر کے آخری ہفتے میں نیویارک نہ جا سکیں۔ یہ مقصد بھی حاصل ہوگیا تو نواز حکومت مزید کمزور ہو جائے گی مگر ایک اور دھرنا اسے گھر بھیجنے کے لیے چند ماہ بعد پھر بھی دینا ہو گا۔ فی الحال عمران خان اور ڈاکٹر قادری کو اس حکومت سے جو بھی مل رہا ہے اسی پر قناعت کرنا ہو گی۔ جو مل رہا ہے اسے لے کر گھروں کو لوٹ جائیں اور فتح کے جشن منانے کے بعد ایک اور دھرنے کی تیاری شروع کر دیں۔ اس سے زیادہ کی ہوس کی تو کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔