پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر، ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی

لیاقت راجپر  جمعـء 19 ستمبر 2014

لاڑکانہ کے مرد و خواتین سیاسی طور پر متحرک رہے ہیں، خواتین میں محترمہ بے نظیربھٹو، نصرت بھٹو، کامریڈ شانتہ بخاری اور ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی شامل ہیں۔ عباسی خاندان لاڑکانہ شہر میں صدیوں سے آباد ہے جن کی سیاسی، سماجی، تاریخی خدمات ہیں۔ ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی کا انتقال 3 اگست 2014ء کو ہوا ہے۔ ان کی سیاسی، سماجی اور طب کے شعبے میں خدمات کا ذکر کرتے ہیں۔

بیگم اشرف عباسی کا تعلق پڑھے لکھے ترقی پسند خاندان سے رہا، جو ابتدا ہی سے ادب، سیاست اور سماجی کاموں میں حصہ لیتا رہا ہے۔ بیگم صاحبہ کے بھائی کامریڈ علی محمد عباسی ہاری تحریک کے اہم اور بڑے متحرک لیڈر رہے ہیں اور وہ زمیندار ہونے کے باوجود ہاریوں اور مزدوروں کے حقوق کے لیے لڑتے رہے۔ وہ سب سے پہلے خود ہاریوں کو حقوق دیتے رہے اور پھر باقی دولت مندوں سے ان کے حقوق کے لیے لڑتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے کیا جہاں پر انھیں اسٹوڈنٹس یونین میں کلینکل (Clinical) سیکریٹری چنا گیا۔ ان کے والد حکیم سعید خان ایک لبرل آدمی تھے  انھوں نے اپنی بیٹی کو پڑھنے کی اجازت دی ایسے وقت میں دی جب لڑکیوں کو پڑھانا مسلمانوں میں کافی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ جب بیگم اشرف عباسی صاحبہ کی شادی خان محمد عباسی سے 1943ء میں ہوئی تو ان کے شوہر نے بھی انھیں مزید پڑھنے کی اجازت دی تھی۔ اب ان کے لیے ذمے داری بڑھ گئی، پڑھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو پالنا اور گھر کو سنبھالنا ایک بڑا چیلنج تھا جسے انھوں نے بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ جب ان کے شوہر 1962ء میں ایک ٹریفک حادثے میں انتقال کر گئے تو ان کی ذمے داریوں میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔

ان کی ہمت، بہادری، سیاسی بصیرت اور ٹیلنٹ کو دیکھ کر ان کے خاندان نے انھیں سیاست میں باقاعدہ کام کرنے کی اجازت دے دی اور ان کی مدد کرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں وہ ویسٹ پاکستان اسمبلی میں 1962ء سے 1965ء تک عوام کی نمایندگی کرتی رہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کے میں ذوالفقار علی بھٹو کا بڑا ہاتھ تھا اور جب 1970ء کے قومی الیکشن ہوئے تو اس میں پی پی پی نے انھیں ایم این اے کی سیٹ پر کامیاب کروایا اور نہ صرف یہ بھٹو نے اس کی اہلیت دیکھتے ہوئے انھیں قومی اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بنوایا جو ایک بڑا اعزاز تھا کیونکہ وہ پہلی خاتون تھی جو اس عہدے پر فائز ہوئیں۔ اس کے علاوہ وہ 1988ء کے الیکشن میں ایم پی اے بن گئیں اور محترمہ بے نظیربھٹو نے انھیں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بنایا۔

اس کے علاوہ وہ سندھ کیبنٹ میں وزیر برائے صحت اور لوکل گورنمنٹ بھی رہی ہیں۔ ان کے لیے ایک بڑا اعزاز یہ بھی ہے کہ وہ چانڈیو ٹرائب کے سردار سلطان احمد چانڈیو کو ہرا کر قمبر کی سیٹ سے ایم این اے منتخب ہوئی تھیں اور لاڑکانہ کی تاریخ میں یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ 1988ء والے الیکشن میں تینوں ایم این اے کی سیٹ پر عورتیں منتخب ہو کر آئی تھیں جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی شامل تھیں۔ وہ بے نظیر بھٹو کی بڑی قریبی ساتھی اور مخلص کارکن رہی ہیں جس سے بھٹو اور محترمہ اکثر سیاسی مشورہ لیتے رہتے تھے۔ اس خاندان کی اہم بات یہ تھی کہ وہ شروع ہی سے پی پی کے ساتھ منتخب ہوتے رہے ہیں اور کئی مرتبہ وزیر بن چکے ہیں اور ان کے بھائی صفدر عباسی سینیٹر رہ چکے ہیں۔

جب ضیا الحق نے بھٹو کی حکومت ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا تو اس میں پی پی کے کئی لیڈران کو گرفتار کیا اور نظربند کیا، جس میں بیگم صاحبہ بھی شامل تھیں۔ اس دوران ان کو بڑی پیش کش کی گئیں کہ وہ پی پی کا ساتھ چھوڑ دیں مگر وہ پارٹی کی پکی وفادار تھی اور پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ایم آر ڈی تحریک میں بھی نصرت بھٹو اور بے نظیربھٹو اور دوسرے لیڈران کے ساتھ چلتی رہیں۔ جب نصرت بھٹو پر لاہور میں لاٹھی چارج کر کے لہولہان کیا گیا تو ان کے ساتھ وہ بھی تھیں اور زخمی ہو گئی تھیں۔

ان کی وفاداری کا سرٹیفکیٹ انھیں کئی مرتبہ مل چکا تھا۔ وہ اپنی سچائی اور وفاداری کی وجہ سے پی پی پی ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن بھی رہ چکی تھیں۔ جب بھی پارٹی پر کوئی مشکل وقت آتا تو  وہ آگے آگے رہتی تھیں اور ہر وقت قربانی دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ پارٹی کی بنیادی رکن تھیں اور ایم آر ڈی تحریک چلی تو انھوں نے اپنی گرفتاری پیش کی اور انھیں 17 مہینے نظر بند رکھا گیا۔

بیگم اشرف عباسی 2 جنوری 1925ء کو گاؤں ولید لاڑکانہ میں پیدا ہوئیں جہاں سے انھوں نے پرائمری تعلیم اس اسکول سے حاصل کی جو 1898ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد لاڑکانہ کے مشہور اسکول گورنمنٹ ہائی اسکول سے 1938ء میں بمبئی یونیورسٹی سے میٹرک کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کیا۔ وہ لاڑکانہ ضلع کی پہلی مسلمان لڑکی تھی جس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس وقت صرف ہندو لڑکے اور لڑکیاں زیادہ تر تعلیم حاصل کرتے تھے اور جس اسکول میں وہ پڑھتی تھیں وہاں پر کو ایجوکیشن تھی۔ انھوں نے پورے سندھ میں اس امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس کے بعد انٹر کا امتحان 1940ء میں ڈی جے کالج کراچی سے پاس کیا، مزید تعلیم کے لیے لیڈی ہارڈنگ کالج دہلی میں داخلہ لیا مگر شادی ہونے کی وجہ سے وہاں سے واپس آ گئیں۔

1948ء میں انھیں ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی میں  ایم بی بی ایس میں داخلہ مل گیا۔ اس وقت وہ دو بچوں کی والدہ تھیں مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنی میڈیکل کی تعلیم جاری رکھی اور کراچی میں ویمن ورکنگ ہاسٹل میں رہتی تھیں۔ ڈاؤ سے انھوں نے ایم بی بی ایس کا امتحان 1953ء میں فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا۔

اس کے بعد لاڑکانہ سول اسپتال میں بطور لیڈی ڈاکٹر  پانچ سال لوگوں کی خدمت کی۔ جیسا کہ ان میں سیاسی جراثیم موجود تھے اور سرکاری نوکری اور سیاست ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تھے اس لیے انھوں نے نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور اب وہ کھل کر عملی سیاست میں سرگرم ہو گئیں مگر اس کے ساتھ اپنا پروفیشن کا کام بھی کرتی رہیں اور پرائیویٹ طور پر پریکٹس کرتی رہیں۔ اس کے علاوہ انھیں ادب سے بھی کافی دلچسپی تھی مطالعے کے لیے  وقت نکالتی رہیں اور کئی میگزین میں ادب کے بارے میں لکھتی رہیں۔

انھیں سوشل ورک سے محبت اور دلچسپی اپنے خاندان سے ورثے میں ملی تھی جسے کرنے کے لیے ولید گاؤں میں جو اب لاڑکانہ شہر کا ایک محلہ ہو گیا ہے وہاں پر مدر (Mother) ٹرسٹ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے جس سے لوگوں کو مفت طبی سہولتیں اور تعلیمی سہولتیں مل رہی ہیں تا کہ وہاں کے غریب لوگ مفت میں یہ زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل کر سکیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کو سینے پرونے کے ہنر سکھانے کے لیے اسکول قائم کیا ہے تا کہ وہ گھر بیٹھے اس ہنر سے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ عزت کے ساتھ پال سکیں۔

وہ کئی فلاحی اداروں کی سربراہ اور رکن رہ چکی تھیں جس میں ٹی بی ایسوسی ایشن، ریڈکراس، اپوا، گورنمنٹ سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن شامل ہیں۔اپنی ذمے داریوں اور مصروفیات سے وقت بھی نکال کر گھر والوں کے ساتھ مختلف جگہوں کے دورے بھی کرتی تھیں۔  1957ء میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سمندری جہاز میں سوار ہو کر عراق، اردن، سعودی عرب گئیں اور حج کی بھی سعادت حاصل کی۔ اس کے علاوہ سرکاری سطح پر کئی ممالک کے دورے کیے۔ ان کے بیٹوں میں حاجی منور علی عباسی، صفدرعلی عباسی اور اختر علی عباسی  لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں اور ان کے اوطاق پر پورا دن لوگ اپنے مسائل حل کروانے آتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔