- ایل ڈی اے نے 25 ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے پرمٹ اور مجوزہ لے آﺅٹ پلان منسوخ کردیے
- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
- وزیراعظم کا اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے ملک گیر مہم تیز کرنے کا حکم
- جی-7 وزرائے خارجہ کا اجلاس؛ غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ
- پنڈی اسٹیڈیم میں بارش؛ بھارت نے چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی پر سوال اٹھادیا
- اس سال ہم بھی حج کی نگرانی کرینگے شکایت ملی تو حکام کو نہیں چھوڑیں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- بشریٰ بی بی کو کھانے میں ٹائلٹ کلینر ملا کر دیا گیا، عمران خان
- عمران خان اور بشریٰ بی بی کی درخواستیں منظور، طبی معائنہ کروانے کا حکم
- حملے میں کوئی نقصان نہیں ہوا، تمام ڈرونز مار گرائے؛ ایران
- 25 برس مکمل، علیم ڈار دنیائے کرکٹ کے پہلے امپائر بن گئے
- قومی اسمبلی: جمشید دستی اور اقبال خان کے ایوان میں داخلے پر پابندی
- کراچی میں غیرملکیوں کی گاڑی پر حملہ، خودکش بمبار کی شناخت
- مولانا فضل الرحمٰن کو احتجاج کرنا ہے تو کے پی میں کریں ، بلاول بھٹو زرداری
- کراٹے کمبیٹ 45؛ شاہ زیب رند نے ’’بھارتی کپتان‘‘ کو تھپڑ دے مارا
- بلوچستان کابینہ کے 14 وزراء نے حلف اٹھا لیا
- کینیا؛ ہیلی کاپٹر حادثے میں آرمی چیف سمیت 10 افسران ہلاک
- قومی و صوبائی اسمبلی کی 21 نشستوں کیلیے ضمنی انتخابات21 اپریل کو ہوں گے
- انٹرنیٹ بندش کا اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر واویلا مچا دیا جاتا ہے، وزیر مملکت
- پی ٹی آئی کی لیاقت باغ میں جلسہ کی درخواست مسترد
- پشاور میں صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے کا معاملہ؛ 15 ڈاکٹرز معطل
3 نومبر کی ایمرجنسی کا ریکارڈ جنرل حامد اپنے ساتھ لے گئے، سربراہ تحقیقاتی ٹیم
اسلام آباد: سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف آئین شکنی کے مقدمے میں سربراہ تحقیقاتی ٹیم اور ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی نے بتایا کہ3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی لگانے کا مکمل ریکارڈ اس وقت کے آرمی چیف پرویز مشرف کے چیف آف اسٹاف جنرل حامد جاوید اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
ریکارڈ غائب ہونے کی تحقیقات تو نہیں کی تاہم وزارت دفاع سے رابطہ کیا گیا مگر ریکارڈ نہ مل سکا۔ جمعرات کوخصوصی عدالت کے روبرو استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیان ریکارڈ ہونے اور جرح مکمل کرنے کے بعد مزید سماعت یکم اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ وکیل صفائی بیرسٹر فروغ نسیم کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے خالد قریشی نے کہا کہ جنرل حامد جاوید کو ریکارڈ فراہم کرنے کیلیے کوئی نوٹس جاری ہوا نہ ہی ان کا بیان قلمبند کیا جاسکا البتہ شوکت عزیز کی جانب سے لکھا گیا خط ریکارڈ پر موجود ہے مگر انکی جانب سے ایمرجنسی لگانے کیلیے بھیجی گئی کسی ایڈوائس کا وجود نہیں ملا، شوکت عزیز اور ان کی کابینہ نے جنرل مشرف کے احکام پر عمل کیا۔
مشرف کیساتھ کوئی معاون کار نہیں تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کے پاس اس فرد کا نام موجود نہیں جو 3 نومبر2007 کو وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ریکارڈ کا محافظ تھا۔ پرویز مشرف نے دیگر حکام کے ساتھ جو ملاقاتیں یا مشاورت کی، اس بارے میںکوئی چیز سامنے نہیں آئی۔ وفاقی حکومت نے انھیں ایمرجنسی کے نفاذ میں معاونت کرنے والوں کے تعین کا مینڈیٹ نہیں دیا تھا، عدالت یکم اکتوبر سیاشفاق پرویز کیانی اور شوکت عزیز سمیت سابق فوجی و سول حکام کو شریک ملزمان نامزد کرنے کیلیے پرویز مشرف کی درخواست کی سماعت کرے گی، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ اگلے مرحلے میں پرویز مشرف کو بیان ریکارڈ کرانے کیلیے عدالت طلب کیا جائے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔