شیکسپیئر کے ہملٹ کی زندہ تصویر

نصرت جاوید  جمعـء 19 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہملٹ کی صورت میں شیکسپیئر نے ایک عجیب کردار تخلیق کر دیا تھا۔ صدیاں گزر گئیں دُنیا بھر کے کئی نابغے اس کردار کی نفسیاتی گتھیاں سلجھانے میں مصروف رہے۔ معاملہ بالآخر اس ہاتھی کی صورت ہی رہا جو چار اندھوں کے ایک گروہ کو مل گیا تھا اور وہ ہاتھوں سے اسے ٹٹولتے ہوئے اپنے حصے کی دریافت شدہ ادھوری حقیقتوں تک محدود رہے۔ ہاتھی کو ایک مکمل اکائی کی صورت جان ہی نہیں پائے۔

آفاقی ادب کے سلسلے میں میرا معاملہ بھی ان اندھوں جیسا ہے۔ جب کبھی فرصت ملے تو یہ ڈرامہ کھلے ذہن کے ساتھ ایک بار پھر پڑھتے ہوئے ڈنمارک کے اس شہزادے کے مختلف الجہتی کردار کو ایک اکائی کی صورت ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہر بار ناکامی ہوئی۔ زچ ہو کر کئی برس سے اسے پڑھنا ہی چھوڑ رکھا ہے۔ دور کے ڈھول کی طرح مگر یہ کردار مجھے اب بھی بہت دل موہ لینے والا محسوس ہوتا ہے۔

آصف علی زرداری نے چند ماہ پہلے نواز شریف کو بادشاہ کہہ کر پکارا تھا۔ عمران خان انھیں پہلے پہل مصر کا حسنی مبارک کہتے رہے۔ آج کل وہ اور قادری صاحب یک زباں ہو کر پاکستان کے تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو ’’فرعون‘‘ پکارا کرتے ہیں۔ مگر اس ’’فرعون‘‘ کی قابلِ رحم بے بسی 14اگست 2014ء سے ہر شب پوری دُنیا کے سامنے بے نقاب بھی کرتے رہتے ہیں۔ کمال یہ بھی ہے کہ اپنے ’’فرعون‘‘ کو دیوار سے لگانے کے لیے ان دونوں حضرات کو عصائے کلیمی کی ضرورت نہیں پڑی۔ اسلام آباد کے گرد و نواح میں نیل جیسا کوئی دریا ہوتا تو شاید وہ اسے دو حصوں میں پاٹ کر اپنا جلوہ دکھا دیتے۔

مگر اس شہر میں دریائے نیل کے بجائے ایک زمانے میں کوئی ریڈ زون ہوا کرتا تھا۔ ان دونوں قائدین کے پروانوں نے اس زون کو دھرنا بستی میں تبدیل کر دیا ہے۔ خلقِ خدا اس زون میں راج کرتی ہے۔ ایک زمانے میں اس ملک کے سب سے باوقار اور خود مختار مانے جانے والے ادارے ’’پارلیمان‘‘ کے لان میں ان پروانوں نے کچھ دنوں تک ایک خیمہ بستی بھی آباد رکھی۔ سپریم کورٹ جس کے حکم پر ایک وزیراعظم فارغ ہوا، کے دروازوں پر ان دنوں گیلے کپڑے سکھائے جاتے ہیں۔

دُنیا کے لیے پاکستان کا سرکاری پیغامبر یعنی پاکستان ٹیلی وژن بھی چند لمحوں کے لیے ان کے قبضے میں آیا۔ پاک فوج کے احترام میں ہمارے انقلابیوں نے مگر اس ادارے کو جلد معاف کر دیا۔ چونکہ ان انقلابیوں نے اپنے دھرنوں کے دوران ایک گملا بھی نہ توڑنے کا عہد کر رکھا ہے شاید اس لیے وزیر اعظم ہاؤس ان کی دسترس سے ابھی تک محفوظ ہے۔ ان کے قائدین مگر جب بھی اشارہ کریں گے نواز شریف کے سرکاری گھر پر آناََ فاناََ قبضہ ہو جائے گا۔

دھرنے میں شریک عورتوں اور بچوں کو کوئی زک نہ پہنچانے کے نام پر پولیس کوئی زیادہ مزاحمت نہیں کرے گی۔ اگر چند سر پھرے پولیس افسران نے ایسی کوئی کوشش کی تو قائدین اپنے کارکنوں کی بند ہتھکڑیاں کھلوا دیں گے۔ جن کارکنوں کی ہتھکڑیاں قائدین کی فوری مدد سے کھل نہ سکیں وہ دو ایک راتیں تھانوں میں گزارنے کے بعد آزاد عدلیہ کی طفیل رہا ہو جائیں گے۔ نواز شریف کو ایسے حالات میں ’’فرعون‘‘ پکارنا مجھے تو مناسب نہیں لگتا مگر انقلاب انقلاب ہوتا ہے۔ جو چاہے اس کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

ذکر تو یوں بھی میں نے ہملٹ کا کرنا ہے۔ اس لیے مجھے یہ اعتراف بھی کر لینے دیجیے کہ ان دنوں نواز شریف مجھے ’’فرعون‘‘ تو ہرگز نظر نہیں آتے۔ مگر ان کی بے بسی مجھے ڈنمارک کے اس شہزادے کی یاد دلانا شروع ہو گئی ہے جسے شیکسپیئر کے بے پناہ تخلیقی ذہن نے عالمی ادب کا ایک شاہکار بنا دیا تھا۔ ہملٹ بے چارے کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے باپ کے خلاف سازش کے بارے میں پوری طرح باخبر تھا۔ اس کی اپنی ماں بھی اس سازش میں پوری طرح شریک تھی۔ ہملٹ کو لیکن کبھی یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ سازشیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں یہ بتائے کہ وہ ان کے Game Plan کے بارے میں پوری طرح باخبر ہے۔ اپنی ’’باخبری‘‘ کو چھپانے کے لیے بلکہ وہ اکثر ’’یملاجٹ‘‘ ہونے کے ڈھونگ بھی رچاتا۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے کہ ہملٹ کے شاعرانہ مزاج نے اسے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ مگر اس کے باپ کا قاتل بڑا سیانا تھا۔ اسے مکمل یقین تھا کہ اس دیوانگی کے پیچھے کوئی Method یا سیاست کی زبان میں Counter Game ہے۔

ڈنمارک کے شہزادے کو خود سازشیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کے گیم پلان کو بے نقاب کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ البتہ اس نے کسی نہ کسی طرح ایکٹروں کی ایک ٹولی ضرور اپنی خدمات کے لیے مستعار لے لی تھی۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ ایکٹروں کی یہ ٹولی ایک نوٹنکی نما ناٹک کے ذریعے بھرے دربار میں سازشوں کی پوری کتھا کھول کر بیان کر دے۔ ہمارے ڈنمارک کا شاہزادہ یعنی نواز شریف صاحب بھی ان دنوں خود کے خلاف ہوئی سازشوں کو چند ’’لفافہ اینکروں‘‘ کے ذریعے بے نقاب ہوتا دیکھنا چاہ رہے ہیں۔ میڈیا میں کسی نام نہاد اسکرپٹ کی دہائی مچائی جا رہی ہے۔ مبینہ اسکرپٹ پر عمل کرنے والے نمایاں اداکاروں کا ذکر تو ہمہ وقت ہو رہا ہے۔

مگر کوئی یہ بات کم از کم مجھے تو ابھی تک نہیں بتا سکا کہ اس نام نہاد اسکرپٹ کا مصنف اور ہدایت کار کون ہے۔ اب تو مجھے یہ خدشہ بھی لاحق ہونا شروع ہو گیا ہے کہ مبینہ اسکرپٹ رفتہ رفتہ اب اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پردہ گرنے کے بعد بھی لیکن ہمیں اس نام نہاد اسکرپٹ کے مصنف اور ہدایت کار کا علم نہیں ہو پائے گا۔ چند ایک ہمت والے بڑی محنت سے ان کا کھوج لگا بھی لیں تو نام نہاد آزاد میڈیا کے میرے جیسے کئی پاٹے خان ان کا ذکر تک نہیں کر پائیں گے۔ لیاقت علی خان کے قتل کا اسکرپٹ بھی تو کہیں لکھا گیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی تو ایک گیم لگی تھی اور یہ اسی دن شروع ہو گئی تھی جب موصوف نے اپنی حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے سے پورے ایک سال پہلے عام انتخابات کروانے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ موصوف کو اس فیصلے پر قائل کرنے والے اس کے اپنے دربار کے چند چہیتے ہی تو تھے جنہوں نے ’’قائدِ عوام‘‘ کو یقین دلایا تھا کہ اصغر خان اور بیگم نسیم ولی خان جیسے ’’سیکولر‘‘ اور ’’غدار‘‘ کبھی مسلم لیگ جیسی محب الوطن اور جماعت اسلامی جیسی پارسا جماعتوں کے ساتھ کوئی انتخابی اتحاد نہیں بنا پائیں گے۔

جنرل مشرف کو بھی کسی نے سمجھایا ہو گا کہ افتخار چوہدری کو بلا کر ’’تڑی‘‘ لگاؤ اور وہ جھٹ سے استعفیٰ لکھ دے گا اور پھر آئیں اس ملک میں بے نظیر بھٹو جنہوں نے ہر حملے سے محفوظ بنائی جیپ سے سر نکال کر اپنے جیالوں کو Wave کرنا چاہا تو اس دُنیا ہی میں نہ رہیں۔ کچھ اسکرپٹ بس عمل کرنے کو لکھے جاتے ہیں۔ حتمی ہدف حاصل ہو جائے تو اس کے مصنف اور ہدایت کار کوئی کریڈٹ نہیں لیتے۔ ایسے عالیشان لکھاری شیکسپیئر کی طرح ’’خود پسند‘‘ نہیں ہوتے کہ ہملٹ جیسے ڈراموں اور کرداروں کے خالق بن کر رہتی دُنیا تک اپنا نام لوگوں کے ذہنوں میں گونجتا رکھنا چاہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔