20 صوبے بنانے کی تجویز

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعـء 19 ستمبر 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

عوام کو با اختیار بنانے کے لیے کم از کم 20 صوبے ہونے چاہئیں۔ سندھ کا وزیر اعلیٰ اردو بولنے والا کیوں نہیں بن سکتا؟ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی اتوار اور پیر کو ہونے والی تقاریر نے سیاسی منظر نامے میں ایک اور تلاطم پیدا کر دیا۔ اسلام آباد میں عمران خان اور ڈاکٹر طاھر القادری کے دھرنوں میں زہر اگلتی ہوئی تقاریر کے بعد الطاف حسین کی ان تقاریر نے کم سے کم سندھ میں ایک نئی بحث شروع کر دی۔

سندھی قوم پرستوں نے الطاف حسین کو سندھ دشمن قرار دیدیا۔ تاہم  سندھی قوم پرستوں کے ایک گروہ نے اردو بولنے والے وزیر اعلیٰ کے بارے میں الطاف حسین کے خیالات کی توثیق کر دی۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے 20 صوبے بنانے کی تجویز ڈاکٹر طاہر القادری کی نئے صوبے بنانے کی تجویز کی توثیق کی ہے۔ پنجاب کے کئی رہنما ایسے ہی مطالبات کر چکے ہیں۔ جب پرویز مشرف نے نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کو آخری شکل دے رہے تھے تو اس وقت بھی 20 صوبے بنانے کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی تھیں۔

الطاف حسین کا کہنا ہے کہ بھارت، ایران، ترکی اور افغانستان میں 20 سے زائد صوبے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اچھی طرزِ حکومت کے لیے نئے صوبوں کا قیام ضروری ہے۔ پاکستان میں صوبوں کے قیام کا معاملہ ہمیشہ حساس نوعیت کا رہا ہے۔ 5 صوبوں کے ملاپ سے پاکستان کا وجود سامنے آیا، اگرچہ یہ صوبے ہزار سال سے موجود تھے مگر ان کی انتظامی حد بندیاں برطانوی ہند کے دور میں ہوئیں۔ ان صوبوں کا اپنا ماضی ہے۔ اس طرح ہر صوبے کی اپنی زبان اور ثقافت ہے اور ان کی زبانیں اور ثقافتیں دنیا کی قدیم زبانوں اور ثقافتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ سندھی زبان اردو سے بہت زیادہ قدیم زبان ہے۔

اسی طرح سندھ کی تاریخ 5 ہزار سالہ قدیم تہذیب موئنجو دڑو سے شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح بلوچوں کی ثقافت انتہائی قدیم ہے۔ بلوچ اپنے رسم و روایات کو کسی صورت چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں، یہی صورتحال پختون خواہ کی ہے۔ پختونوں نے مختلف ادوار میں ہندوستان پر حکومت کی۔ اس طرح پنجاب پانچ دریاؤں کی ثقافت اور قدیم داستانوں کے علاوہ بھگت سنگھ جیسے آزادی کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے حریت پسندوں کی سرزمین رہا ہے۔ برطانوی ہند حکومت نے 1935ء کے ایکٹ کے تحت ان صوبوں کی حد بندی کی تھی۔ یہ حد بندی انتظامی بنیادوں پر تھی، یوں زبان، ثقافت اور قدیم مشترکہ تہذیب کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔

بھارت میں 1950ء میں آئین کے نفاذ کے بعد نئی ریاستوں کے قیام پر توجہ دی گئی، یوں بھارت میں ریاستوں کی تعداد 28 تک پہنچ گئی۔ بھارت میں نئی ریاستوں کے قیام اور ان کے بنانے کے خلاف عوامی سطح پر بڑے بڑے احتجاج ہوئے۔ ان احتجاجی مظاہروں میں بہت سے لوگ پولیس تشدد سے ہلاک ہوئے۔ بعض ریاستوں کے جنونی نوجوانوں نے نئی ریاستوں کے قیام کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کیا مگر 1950ء کے آئین پر مکمل عملدرآمد کی بناء پر نئی ریاستوں کے قیام کا سلسلہ جاری رہا۔ بعض دفعہ عوامی تحریکوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تشدد کی بناء پر حالات خراب ہوئے مگر مسلح افواج کے کسی کردار کے نہ ہونے کی بناء پر یہ سارے معاملات جمہوری نظام سے منسلک تاریخ کے کوڑے دان میں مدفن ہو گئے۔

پاکستان میں فوجی حکومتوں کے قیام سے مختلف نوعیت کے مسائل پیدا ہوئے۔ فوجی حکومتوں نے ون یونٹ کے ذریعے صوبوں کی زبان، ثقافت، تہذیب اور عوامی اختیارات کو نظر انداز کیا، یوں صوبوں میں احساسِ محرومی پیدا ہوا۔ اس احساسِ محرومی کا ذمے دار ون یونٹ کو قرار دیا گیا۔ سابق صدر پرویز مشرف بھی 20 صوبوں کے قیام کے حامی تھے۔ انھوں نے نچلی سطح تک اختیارات کا بلدیاتی نظام میں بڑے بڑے شہروں کو اسلام آباد سے براہِ راست کنٹرول کرنا شروع کیا تھا۔ یوں صوبائی خودمختاری کی پامالی سے وفاق کی وحدت متاثر ہوئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے چوتھے اقتدار میں پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگایا، یوں سرائیکی صوبے کے قیام کا نظریہ سامنے آیا۔

اس نظریے کو عملی شکل دینے کی پنجاب کی اسمبلی میں قرارداد تک منظور ہوئی، پیپلز پارٹی نے اپنے 1970ء کے مؤقف سے انحراف کرتے ہوئے تخت لاہور کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا مگر 2013ء کے انتخابات میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد یہ معاملہ تاریخ کے گمشدہ اوراق کا حصہ بن گیا۔ اگرچہ صوبوں کی مختلف وجوہات کی بناء پر تقسیم اور نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں مختلف تجاویز پیش کی جاتی ہیں جن پر ہزارہ صوبہ، سرائیکی صوبہ، بلوچستان سے پختون اکثریتی علاقوں کی علیحدگی، قبائلی علاقوں پر مشتمل نئے صوبے کا قیام اور کراچی صوبے کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔ ہمیشہ سندھ کی تقسیم کے حوالے سے سیاسی ماحول زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔ سندھ اسمبلی نے 1940ء میں سائیں جی ایم سید کی ایماء پر یہ قرارداد منظور کی تھی کہ سارے ہندوستان سے مسلمان سندھ میں آ کر آباد ہو جائیں۔

اس قرارداد کی روشنی میں تقسیمِ ہند سے قبل بہار کے مسلمان کراچی میں آ کر آباد ہوئے اور پھر پاکستان کے قیام کے بعد سندھیوں نے ہندوستان سے آ کر آباد ہونے والے افراد کو خوش آمدید کہا۔ قدیم سندھیوں نے مہاجروں کے لیے اپنے گھر کھول دیے اور مہمان نوازی کی ایسی روایت قائم کی جس کی ماضی میں مثال مشکل سے ملتی ہے۔ مگر سندھ میں نئے لوگوں کی آمد کو خوش آمدید قرار دینے کا مقصد انھیں سندھ کی ثقافت میں مدغم کرنا تھا اور اپنی زبان، تاریخ و تمدن کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

ہندوستان سے آنے والے شہری ابتدائی برسوں میں سندھ کی ثقافت میں ضم ہونے شروع ہوئے مگر جب جنرل ایوب خان نے پہلا مارشل لاء نافذ کیا تو حیدرآباد کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر ٹکا خان نے سندھی زبان کی تدریس پر پابندی لگا دی، یوں نئے آنے والے افراد کا سندھی زبان سیکھنے اور سندھ میں مدغم ہونے کا عمل رک گیا، سندھ میں صنعتی ترقی نہ ہونے کی بناء پر متوسط طبقے کا سائز نہیں بڑھا مگر اردو بولنے والا متوسط طبقہ شہروں میں چھا گیا۔

اس طرح شہری اور دیہی آبادی میں ایک تضاد پیدا ہوا۔ برسرِ اقتدار آنے والی حکومتوں نے شہری اور دیہی آبادی کے درمیان تضاد کو گہرا کیا جب پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے صوبہ سندھ میں سندھی زبان کو سرکاری زبان قرار دینے کا بل اسمبلی میں پیش کیا، یوں پہلی دفعہ لسانی فسادات ہوئے۔ مگر کچھ عرصے بعد دونوں برادریوں کے باشعور افراد نے طالع آزما قوتوں کی سازش کو محسوس کر لیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب الطاف حسین کی قیادت میں مہاجر قومی موومنٹ کا قیام عمل میں آیا تو سائیں جی ایم سید نے ایم کیو ایم کے قیام کا خیر مقدم کیا۔

بعض قوتوں کی سازش سے سندھ میں 1987ء اور 1988ء میں محدود پیمانے پر لسانی فسادات ہوئے مگر صورتحال بہتر ہو گئی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی، قوم پرستوں اور ایم کیو ایم کی قیادت نے سندھ کی یکجہتی کے لیے کوشش کی مگر پیپلز پارٹی کے گزشتہ 5 سال کے طرزِ حکومت نے ایک دفعہ پھر صوبہ سندھ میں خلیج پیدا کر دی مگر اس خلیج کو کم کرنے کے لیے سندھ کی تقسیم اور پورے ملک میں نئے صوبے بنانے سے معاملات مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

سندھ نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے، یوں محض حکومتوں کی غلطیوں کی بناء پر سندھ کی تقسیم کسی صورت مسئلے کا حل نہیں نہ 20 صوبے اچانک بنا کر طرزِ حکومت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے مگر الطاف حسین کے اس مطالبے میں حقیقت ہے کہ سندھ کا وزیر اعلیٰ اردو بونے والا کیوں نہیں ہو سکتا؟ پیپلز پارٹی کو جو سندھ کی وارث ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اس کو اصولی بنیادوں پر واضح کرنا چاہیے کہ سندھ کا باسی خواہ وہ کوئی زبان بول رہا ہو سندھ کا وزیر اعلیٰ ہو سکتا ہے مگر کسی بھی صورت میں سندھ کی انتظامی تقسیم مسئلے کا حل نہیں ہے۔

سندھ میں 1947ء میں آباد ہونے والے ہندوستان کی تقسیم کے اثرات سے اب تک نہیں نکل سکے ہیں اور اب سندھ کی تقسیم کے اثرات کب تک ہونگے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے وفاق پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جمہوری نظام کے استحکام کے بعد ہی بھارت کی طرح پاکستان میں نئے صوبے بننے کا عمل کسی بڑے بحران کے بغیر ناممکن ہو گا۔ اس وقت نئے صوبوں کا مطالبہ لوگوں میں برداشت نہ ہونے کی بناء پر جمہوری نظام کے لیے چیلنج بن جائے گا اور بغیر تیاری کے ایسا جمہوری نظام  تباہی کی طرف لے جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔