انجام کار

راؤ سیف الزماں  جمعـء 19 ستمبر 2014
saifuzzaman1966@gmail.com

[email protected]

لیجیے انقلاب اور آزادی مارچ کے دھرنوں کا ایک ماہ مکمل ہوا، لیکن انقلاب آیا یا نہیں؟ نیا پاکستان بنا یا نہیں؟ ہنوز یہ فیصلہ نہیں ہوسکا ، کیوں کہ انقلاب کے لیے فضا سازگار نہیں اور نئے پاکستان کے لیے پرانے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں یہ ممکن نہیں۔ لہٰذا آزادی و انقلاب کے داعی سردست اسلام آباد D چوک پر تشریف فرما ہیں اور روزمرہ کی بنیاد پر تقاریر و دینی نشست و برخاست کا اہتمام فرمارہے ہیں۔

اگر قارئین کی ایک ذرا سی تعداد نے بھی میرے گزشتہ کالم پڑھے ہوں تو انھیں یاد آجائے گا کہ میں نے اس انجام کی نشاندہی اس تحریک کے آغاز میں ہی کردی تھی اور صاحبان انقلاب و آزادی مارچ کو ایک اصلاحی پروگرام کے لیے تحریک چلانے کا مشورہ دیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ PTI جو قومی و صوبائی اسمبلیوں کا حصہ ہے۔ حکومت پر اپنے دباؤ میں اضافہ کرے کہ وہ اول مہنگائی، دوئم بے روزگاری، سوئم انتخابی اصلاحات، چہارم بدامنی، پنجم انرجی بحران کے خاتمے کے لیے کوئی جامع، ٹھوس اور قابل عمل منصوبہ بنائے اور اسے عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہوئے اس پر فوری طور پر عمل در آمد کی ابتدا کرے۔

اس Causes کو لے کر اسمبلی میں حکومت کی بھرپور Opposition کی جائے اور اس قدر کی جائے کہ وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے۔ مزید برآں ان Reforms کے مطالبات کے ہمراہ لوکل باڈیز کے انتخابات کے انعقاد پر بھی اصرار جاری رکھا جائے۔ میرے محترمین آپ ذرا سوچیے کہ ان دھرنوں کے بجائے اگر آپ کا طرز عمل آپ کی جدوجہد یہ عوامی مطالبات ہوتے تو آج حالات آپ کے حق میں کہیں مختلف ہوتے۔ پوری قوم آپ کے ہمراہ ہوتی۔ آپ کے 10 لاکھ لوگ جمع کرکے دکھانے کے دعوے میں 40 لاکھ مزید شامل ہوجاتے۔ لیکن آپ حضرات نے بالکل وہی راستہ چنا جس کا فیصلہ آپ پہلے کرچکے تھے۔ مجھے بھی یہ مشورہ دیتے ہوئے احساس تھا کہ اس پر عمل نہیں ہوگا اور ہمارے معاشرے میں شرافت، تہذیب اور تمدن کا جو حال ہوتا ہے وہی اس شریفانہ مشورے کا بھی ہوگا اور ہوا۔

دھرنے دے دیے گئے اور یہ سفر آزادی و انقلاب اب جس موڑ پر ہے اس کی کیفیت سے کم و بیش حضرات واقف ہیں۔ آخر کار ابھی ضد اور انا کا سفر جاری ہے۔ ملک کو داؤ پر لگا کر حکومت کا سفر جاری ہے۔ ہم بحیثیت قوم اس قدر بے یقینی کا شکار ہیں کہ ہر ایک پر شک کرنا ہر ایک پر الزام لگا دینا بھی اب ہماری قومی صفات کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ جس کے ثبوت کے طور پر آپ ملاحظہ کررہے ہوں گے کہ بغیر کسی ایجنڈے کے اور کچھ داستانوں، مطالبات کی فہرست لیے ہم ایک ماہ سے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں اور مسئلہ اب درپیش ہے وہ ایسی باعزت واپسی ہے جس کی تلاش میں مختلف مذاکراتی ٹیمیں جرگے اور کئی صوبوں کے گورنرز تک سرگرداں ہیں اور یہ مرحلہ کس طرح طے ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ کم از کم عمران خان اس پر شب و روز غور و خوض فرمارہے ہوں گے۔

اگرچہ وہ اپنے لیے اس قدر رعایت حاصل کرنے میں کامیاب بھی رہے کہ رات ہونے پر وہ اپنی رہائش گاہ بنی گالا تشریف لے جاتے ہیں اور پھر دن ڈھلے D چوک پر لوٹ آتے ہیں۔ کچھ پر عزم خطاب، نت نئے دعوؤں اور وعدوں سے لبریز تقاریر لیے۔ لیکن سابقہ الیکشن میں ملک بھر سے 76 لاکھ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں اب بہت کچھ سوچنا ہوگا اور دھرنا دیے جانے کے اس حادثے کے بارے میں بہت کچھ جاننا ہوگا۔ وہ ہاتھ اگرچہ ان سے دور نہیں جنھوں نے انھیں اس دلدل میں دھکا دیا تھا لیکن خود اپنے لیے بھی یہ سوال یہ استفسار ضرور ہوگا کہ ان کی سماعت ایسی سرگوشیوں کے لیے اتنی زرخیزکیوں ہے؟ اور کسی بھی قیمت پر، کسی بھی حالت میں ان کا فی الفور وزیراعظم کیوں ناگزیر ہے۔

محترم مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ مئی 2013 کے الیکشن میں کی گئی ممکنہ دھاندلی کے تحقیقاتی مطالبے سے کہیں زیادہ اس وقت آپ کو خود احتسابی (Self Accountability) کی ضرورت ہے کیوں کہ آپ کے عائد کردہ Rigged الزامات منظم نہیں ہیں بلکہ میں نے انھیں جب بھی سنا وہ مجھے ایک کہانی کی طرح سے لگے۔ ان میں ’’فرض کرلیں‘‘ ’’مثلاً‘‘ جیسے مقامات جا بجا آتے ہیں۔ خان صاحب مجھے یقین ہے کہ اگر آپ صرف اپنے آپ پر قابو پاگئے تو آیندہ آپ وزارت عظمیٰ سمیت بہت کچھ حاصل کرلیں گے کیوں کہ آپ بلا شبہ کرپٹ نہیں ہیں آپ میں استقامت ہے، جرأت ہے، آپ Fighter ہیں۔ واقعتاً ملکی نظام میں جن بنیادی تبدیلیوں کا تقاضا کررہے ہیں بالکل بجا ہے، بس اک ذرا خود کو سنبھالیے۔ حکومت وقت کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی کا ایک تفصیلی جائزہ اپوزیشن کی بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی پارلیمنٹ کے ہفت روزہ اجلاس میں لے چکی ہیں لیکن یہ کسی معجزے سے کم نہ ہوگا کہ حکومت اور اراکین کابینہ کے کانوں پر کچھ رینگ جائے، بلکہ وہ حکومتی کارکردگی پر تنقید کو ذاتی پر خاش اور دشمنی گردانتے ہوئے اچھے وقتوں میں بدلہ لینے کی نہ ٹھان لیں۔

پچھلے دو، تین دنوں میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے متعدد کارکنان گرفتار کرلیے گئے کچھ ان الزامات کے تحت کہ انھوں نے PTVکی عمارت پر حملہ کیا اور قبضہ کیا۔ مزید پہلے سے گرفتار کارکنان کو پولیس حراست سے زبردستی رہا کروانے کی کوشش کررہے تھے۔ PTIکے مرکزی رہنما اعظم سواتی کو بھی گرفتار پھر رہا کر دیا گیا جواباًPAT اور PTI نے حکومت سے جاری مطالبات کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ میرا خیال ہے کہ اگر کسی کریک ڈاؤن سے D چوک (Red Zone) خالی کروانا چاہ رہی ہے تو ممکنہ کامیابی کے بعد بھی یہ خطرہ موجود رہے گا کہ یہی مشتعل رہنما اور ہجوم یہاں سے اٹھ کر ملک بھر میں دھرنے دے گا۔

سڑکیں بلاک کردے گا۔ اس نقطے کو بھی ذہن میں رکھیے گا کہ ملک کے دیگر حصوں میں کوئی مضبوط احتجاج نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ان دو رہنماؤں کا اسلام آباد D چوک پر موجود ہونا ہے۔ اگر حکومتی طرز عمل اب مذاکرات سے ہٹ کر دھرنے کے شرکاء کو ریاستی طاقت سے ہٹانا ہے تو یہ ایک نہایت عاقبت اندیشانہ فیصلہ ہوگا۔ یاد رکھیے گا واحد راستہ مذاکرات ہیں۔ کامیاب مذاکرات یہی اس بحران کا حل ہے اور یہی جمہوریت کا حسن۔

میں آخر میں ان دعائیہ الفاظ کے ساتھ اجازت چاہوںگا کہ صوبہ پنجاب میں اس وقت بد ترین سیلابی حالت ہے۔ 300 افراد سے زائد اب تک لقمہ اجل بن چکے ہیں، 22 لاکھ لوگ اجڑ گئے، ہزاروں گھر بہہ گئے، اے اﷲ ہم پر رحم فرما، جو حادثاتی طور پر شہادت پاگئے ان کے لواحقین کو صبر جمیل اور اسباب زندگی عطا فرما، اے پروردگار ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور ہم سے ہر ایک کو بحیثیت فرد اور بحیثیت قوم اپنے ان بھائیوں کی دل کھول کر مدد کرنے کی توفیق عطا فرما (آمین)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔