اشرافیہ کا پاکستان

جاوید قاضی  جمعـء 19 ستمبر 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں کہیے کہ جمود نہیں ہے، خبروں کا بازار گرم ہے۔ کل یہ خبر نہ ہوتی کہ مسافروں نے ہنگامہ برپا کردیا اور اشرافیہ مسافر جن کی وجہ سے جہاز بہانہ کرکے تعطل کا شکار کردیا گیا، ان کو جہاز سے اترنے پر مجبورکردیا گیا، مگر آج یہ خبر ہے۔ اب جب بات نکلی ہے تو پھر اسے دور تک جانے دیجیے کہ یہ ایک لحاظ سے اشرافیہ کا پاکستان ہے اور یہ اشرافیہ کوئی برلا ٹاٹا والی بھی نہیں بلکہ کچھ جاگیردار اور اس کے ساتھ ہے افسرشاہی۔ بات جب اشرافیہ کی ہوگی تو پھر اسے سیاستدان یا پارلیمنٹ تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔

اس میں تو پھر سب آتے ہیں۔ شب خوں لانے والے اور ان کے ہمنوا ، تو شب خوں سے لڑنے والے۔ جمہوری قوتیں بھی۔ عزیز ہم وطنو کے تازیانے بھی تو طاقت کا سرچشمہ عوام بھی ۔ روٹی ،کپڑا، مکان کے فلک شگاف نعرے والے بھی تو محل کے مکیں بھی۔ باقی جہاز سے اتارے گئے لوگ تو بہانہ ہے اس بات کی طویل تاریخ میں جانے کا نہ کہیے یہ ملک خداداد انگریزوں کی دی ہوئی گماشتہ اشرافیہ سے ابھی تک اپنے آپ کو آزاد نہ کرا سکا۔

اس وقت جب چین کے صدر احمدآباد میں چائے کی پیالی والے نریندر مودی کے ساتھ ایک نئی دوستی کا آغاز کرنے کے لیے ایک سو ارب ڈالر کے نئے معاہدے لے کر آ رہے ہیں، وہاں ان کے سیاستدانوں کے پاس ایسی کالی لینڈ کروزر ہیں، نہ سو سو گارڈ۔ یہاں تو ڈبل کیبن ٹویوٹا ہے اور اس میں بیٹھے ہیں مسلح افراد جو بظاہر کسی ایسے سیاستدان کے باڈی گارڈ ہیں جس کی جان کو خطرہ ہے۔ بہت سارے مطلب نکلتے ہیں اس سے۔ ایک تو یہ کہ بے چارے دیہاتی لوگ ان کے شان و شوکت سے سہم جاتے ہیں اور لاشعوری غلامی قبول کرلیتے ہیں۔ دوسرا یہ خود مقامی انتظامیہ بھی ان کی اس طاقت سے مائل بہ کرم ہوتی ہے اور ان کی جی حضوری میں لگی رہتی ہے۔

ان کے لیے کوئی قانون نہیں، نہ کوئی رکاوٹ ہے۔ وہ افسران کا تبادلہ بھی کروا سکتے ہیں۔ دو اور دو پانچ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی ایسی زمین کا ٹکڑا اپنے علاقے میں نہیں چھوڑتے جس پر یہ قبضہ کرسکیں۔ سرکاری زمینیں سستے داموں خرید کر آج کل یہ پلاٹوں کی اسکیمیں بھی اسی جگہ منظور کروالیتے ہیں۔ زمینیں یہ بے نامی خریدتے ہیں اور اس طرح کئی لوگوں کو روزگار مل جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ یہ سب دیہی علاقوں میں ہوتا ہے بلکہ شہر کے علاقوں میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ کچھ اسی طرح ہو رہا ہوتا ہے۔ اب یہ کلاسیکل جاگیرداری ہے، جدید جاگیرداری فکر یا مافیا ہے۔ مگر جو ہے سو یہی ہے۔

اس میں پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ(ن) ہو یا (ق) ہو ، فنکشنل ہو یا کوئی آمریتی دور ہو یہاں تک کہ جو تھوڑی بہت مڈل کلاس کی سیاست کرنے والے ہیں وہ بھی اقتدار میں ان سے شراکت کرکے وہی کچھ کر رہے ہوتے ہیں جوکہ رسم ہے اور اگر جو رسم ورواج کے مطابق نہیں چلے گا وہ دیوانہ کہلائے گا۔ مگر ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں۔ دو چار سال قبل جب لندن میں ہاؤس آف کامن وائس کے قریب میٹرو ٹرین سے اترا تو پتا چلا کہ بہت سارے برطانیہ کے ہاؤس آف کامن کے نمایندے میرے ساتھ سوار تھے اور وہ نئے منتخب ہو کے ایوان میں حلف لینے کے لیے پہلی مرتبہ آرہے تھے۔ امریکا میں بھی میں نے ایسی مڈل کلاس سوچ کا غلبہ دیکھا۔ قانون سب کے لیے ایک ہے۔

وہاں کوئی سوسو گارڈ نہیں رکھتا، نہ اپنے گھروں میں تعلیم کے کھاتے میں بھرتی کرواکے سرکاری خرچے پر ملازم نہیں رکھواتا ، وہاں کوئی سرکاری زمینوں پر قبضے نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ ایسی صورتحال تو اب ہندوستان میں بھی ایسی بدتر نہیں۔

یہ پاکستان کی اشرافیہ ایک ہی ہے کہ اس میں کوئی بھی فرق نہیں۔ نوٹ چھاپنے ہیں قرضے لینے ہیں، اور اس اشرافیہ کو بری حکمرانی کے بدلے پھلتے پھولتے ہوئے پر آنکھیں بند کردیتی ہے۔ یہ کل مشرف کے ساتھ تھے، اس سے پہلے ایوب کے ساتھ تھے، یحییٰ و ضیا الحق کے ساتھ تھے۔ جدھر دیکھیں گے آپ کو یہی نظر آئیں گے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ شرفا آپس میں ایک حد تک لڑتے ہیں تاکہ اقتدار کی سیدھی ڈور ان کے ہاتھ آجائے۔ ان شرفا میں اکبر بگٹی یا خیربخش مری مارے گئے کیوں کہ وہ اس شرفا والی سیاست سے اجتناب کرکے بیٹھ گئے۔انگریزوں کے زمانے میں ایک ایسا سر پھرا سندھ میں بھی ہوتا تھا جس کو تاریخ میں ’’سورہ بادشاہ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

جوکہ موجودہ پیرپگاڑہ کے دادا تھے۔ موصوف پھانسی چڑھے اور ان کی لاش کو بھی غائب کردیا گیا اور بہت سارے اس کے چاہنے والے پھانسی چڑھے۔ مجھے یاد ہے کچھ ذرا ذرا کہ ہمارے والد نے مولانا حسرت موہانی کو نوابشاہ مدعو کیا تھا ، وہ مرد قلندر ،درویش خدا مست آئے بھی تھے۔ اور ان کیمپوں میں گئے تھے جہاں سیکڑوں خاندانوں کو رکھا گیا تھا۔ سندھ میں ایک اور بھی سرپھرا پیدا ہوا تھا ذوالفقار علی بھٹو نام تھا اس کا ۔ جب اس کو پھانسی ہوئی تو سندھ میں ماتم کدے کی شب تھی ۔ سندھ نے اپنا غصہ ایم آرڈی تحریک کی شکل میں رقم بھی کروایا تھا۔ سیکڑوں لوگ مارے گئے۔

سارے زمیندار غلام مصطفی جتوئی کی قیادت میں جمع ہوئے اور یہ وڈیرے پہلی مرتبہ جیلوں میں بھی گئے اور ان میں ایک نام ایک اور سرپھرے کا بھی لے لوں جس کو مخدوم خلیق الزماں کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔ شاید ہی سندھ کے کسی پیر خاندان سے اتنی سخت کسی نے جیل کاٹی ہو اور پھر اب اس سیاست گردی سے ترک تعلق کر بیٹھے۔ یوں تو ایک اور جرات مند بھی سندھ میں پیدا ہوئی جس کا نام تھا بے نظیربھٹو۔ جب ماری گئی تو پورے سندھ میں ایک اور ماتم کدہ بچھ گیا۔

لیکن یہ ایک پہلو ہے تصویر کا اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ چالیس سال سے سندھ میں ان بھٹوؤں کے نام پہ لوگوں نے ووٹ دیے لیکن سندھ کا دہقان وہی غریب، کوئی پرسان حال نہیں ،لاڑکانہ کے نوڈیرو، گڑھی خدابخش کے دہقان کی حالت نہ بدلی ہاں مگر وہاں جاگیردار اور طاقتور بازی لے گیا۔ کچھ جیالوں کو نوکریاں بھی ملیں مگر اس علاقے کے اسکولوں میں اب کوئی ماسٹر نہیں جاتا۔ ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں نہیں بلکہ پرائیویٹ اسپتالوں میں مریضوں کو دیکھتا ہے۔ غرض جو بھی بہبود کے ادارے ہیں جن سے غریبوں کو کچھ مل سکتا ہے ان کے معیار زندگی میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے سب بند ہیں …غالب خستہ کے بغیر۔

یہ اشرافیہ، کارخانوں سے، دھندوںسے امیر نہیں ہوئی بلکہ بری حکمرانی کے کاروبار سے امیر ہوئی ہے۔ ان کا سردار کل ارباب رحیم ہو یا آج قائم علی شاہ ہو ان کے کام ایک ہی ہیں۔

یہ اشرافیہ کمیشن کھاتی بھی ہے اور کھلاتی بھی ہے۔ ان کے پیچھے رہتی ہے افسر شاہی۔ پولیس میں تبادلے ہوں یا کسی اور محکمے میں یہ اپنے علاقے میں اپنی پسند کے افسران رکھواتے ہیں اور مل جل کے ڈیولپمنٹ کا فنڈ کھاتے ہیں، وہ ڈیولپمنٹ کا فنڈ جو اتنا ہی پوتر ہے جتنا زکوٰۃ کا فنڈ۔ یہ لوگ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے ایک سو پچاس ارب تعلیم پر سندھ حکومت خرچ کرے جس کے ایک لاکھ تیس ہزار اساتذہ کی فوج میں سے ایک لاکھ اسکول نہیں آتے اور جو آتے ہیں وہ پڑھانے سے قاصر ہیں۔ میں اور میرا خاندان ان ہی سرکاری اسکولوں سے پڑھ کر غربت کی لکیروں سے نکلے تھے۔ لیکن آج کا غریب یہ سفر نہیں کرسکتا۔

اسے اب شاید کئی دہائیوں تک آج کے اشراف کی بری حکمرانی کے دھندے کی وجہ سے کئی نسلوں تک غربت کی لکیر کے نیچے رہنا ہے۔ ان کی تقدیر بدلنے کے لیے کوئی دوا عمران خان کے پاس بھی نہیں کیونکہ اس کے پاس بھی یہی اشرافیہ ہے۔ جب تک پاکستان میں قومی سرمایہ دار برلا ٹاٹا جیسا نہیں آتا ، مڈل کلاس اسمبلیوں تک نہیں پہنچے گی ۔ تب تک نہ صرف صورتحال بدتر ہوگی بلکہ یہ سرطان کی شکل میں خود اس ملک کے لیے ایک بہت بڑی بربادی رقم کر بیٹھے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔