میں بھی عجیب شخص ہوں…

سعید پرویز  جمعـء 19 ستمبر 2014

14 اگست پر لاہور سے دو عدد دھرنے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ دوران سفر کبھی ایک دھرنا آگے، کبھی دوسرا آگے۔ آخر یہ دونوں دھرنے اسلام آباد پہنچ ہی گئے۔ میں نے ان دھرنوں کے بارے میں کالم لکھا تھا، مگر خود ہی پڑھ کر اسے پھاڑ دیا۔ بعد کو اعتزاز احسن سے لے کر جاوید چوہدری تک سبھی نے وہی کچھ کہا اور لکھا کہ جو میں نے لکھا تھا۔ جاوید چوہدری کو اپنے لکھے پر خوب گالیاں سننے کو ملیں۔ خیر پھر میں خود بھی اپنے گھر میں دھرنے پر بیٹھ گیا۔ میرے اپنے گھر والوں سے نرالے اور مزیدار مطالبات تھے ۔قارئین کرام کو بھی پیش ہوں۔

1۔میں بلڈپریشر اور شوگر کا مریض ہوں۔ لہٰذا میرے لیے خاص طور پر پرہیزی کھانا تیارکیا جائے جو مزیدار اور لذیز بھی ہو اور میری پسند کا ہو۔
2۔روزانہ صبح شام شہر کے معروف اور مہنگے ڈاکٹر مجھے چیک کریں۔ (اس مطالبے پر میرے ڈاکٹر بیٹے نے کہا ’’ابا! میں آپ کو روزانہ ہر وقت چیک کرتا رہتا ہوں‘‘ میں نے اس کی بات کو رد کردیا ہے۔ میرا کہنا ہے کہ مجھے تم پر اعتبار ہی نہیں، تمہارا چیک اینڈ بیلنس درست نہیں، تم مجھے غلط چیک کروگے)۔
3۔میرے قلم کار دوست جب چاہیں ملاقات کے لیے آئیں گے۔ انھیں کنٹینر لاکر کوئی نہیں روکے گا۔ وہ جب تک چاہیں بیٹھیں، شعرو ادب، سیاست، ثقافت پر بات کریں۔ ان کے لیے چائے پانی اور کھانے کا بہترین انتظام کیا جائے۔
4۔ میرے چھوٹے بیٹے کے لیے فوراً کسی مناسب رشتے کا بندوبست کیا جائے اور میری ہونے والی بہو کا ڈاکٹر ہونا لازم ہے۔ اور جب تک میرے مطالبات پورے نہیں ہوتے میرا دھرنا جاری رہے گا۔ اور اگر گلی کے نکڑ پر بیٹھے محلے داروں کے رکھے ہوئے گارڈز نے میرے قلم کار دوستوں کو روکا تو میں نے دوستوں سے کہہ دیا ہے کہ ان کی ٹانگیں توڑ دیں اور اگر میرے گھر والے روکیں تو ان کی بوٹیاں نوچ لیں۔

دو دھرنے اسلام آباد میں جاری ہیں اور تیسرا دھرنا میرے گھر میں جاری ہے۔ جس کی کوئی کوریج نہیں ہوسکتی، ایک دن میں نے اپنے بیٹوں سے کہا ’’ڈاکٹر ہارون صاحب کو بلاؤ!‘‘ میری فرمائش پر بچے بولے ’’ابا جی! وہ تایا ابا حبیب جالب کے دوست ہیں۔ نظریاتی ساتھی ہیں۔ وہ آپ کو اس حال میں دیکھیں گے تو کیا کہیں گے؟ تایا ابا کی بڑی بے عزتی ہوجائے گی۔ دنیا حبیب جالب کا احترام کرتی ہے، آخر کچھ تو سوچیں!‘‘ میں نے بچوں سے کہا ’’میں کچھ نہیں جانتا، عمران خان اور طاہر القادری کی طرح میری ہر بات مانی جائے ورنہ میں اس ڈنڈے سے گھر کے شیشے اور تم لوگوں کے سر توڑ دوں گا۔‘‘

میرے بچے دن رات جاگتے ہیں اور میں دن بھر سوتا ہوں۔ شام کو نیند پوری کرکے میں اپنے گھر کی چھت پر چلا جاتا ہوں۔ اہل محلہ بھی مغرب پڑھ کے کھانا وانا لے کر اپنی اپنی چھتوں پر آجاتے ہیں اور میگافون پر میرا خطاب شروع ہوجاتا ہے۔ اہل محلہ نے اپنے عزیز رشتے داروں اور دوستوں کو بھی بلانا شروع کردیا ہے جو میرا خطاب سنتے ہیں۔ تالیاں بجاتے ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران وقفے وقفے سے ترانے اور نغمے بھی اہل محلہ کو سنائے جاتے ہیں، جب اسلام آبادی دھرنوں میں فیض اور جالب کو سنایا جاتا ہے تو میں کیوں نہ سناؤں۔

میرے گھر والے بہت پریشان ہیں۔ گھر والوں نے خاندان والوں کو بلوا لیا ہے۔ وہ مذاکرات کر رہے ہیں، میں نے دوستوں کو کہہ دیا ہے ’’تم میرے گھر والوں سے مذاکرات جاری رکھو، مگر یاد رکھو! ایک آدھ مطالبے پر رخنہ ڈالے رکھنا۔‘‘

میرے گھر والوں نے مجھے پکڑ کر کمرے میں بند کرنے کی کئی بار کوشش بھی کی مگر وہ ناکام رہے، میں نے ان کے ارادے بھانپ لیے اور کہا ’’دیکھو! اگر تم لوگوں نے مجھے بند کرنے کی کوشش کی تو میں چھت سے کود کر جان دے دوں گا۔ میں مر جاؤں گا مگر مطالبات منوائے بغیر دھرنا ختم نہیں کروں گا۔‘‘ بچے اپنے دفتر نہیں جا رہے، اکثر چھٹیاں ہو رہی ہیں۔

میرے گھر والوں نے میری پسند کا پرہیزی کھانا تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ قیمہ بھرے کریلے، چائنیز بروسٹ اور چاول۔ شام کی چائے کے ساتھ Wheat بسکٹ۔ میرے دوسرے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے میرے ڈاکٹر بیٹے نے اپنے سینئر ڈاکٹروں سے میرا معائنہ بھی شروع کرادیا ہے۔ میں نے اس پر ہیلتھ کمیشن تشکیل دینے کا ایک ضمنی مطالبہ بھی کیا ، میرا تیسرا مطالبہ بھی پورا کردیا ہے کہ میرے قلم کار دوست جب چاہیں اور جتنی دیر کو چاہیں آئیں اور کھانا پینا کھائیں پئیں، مگر ابھی تک ڈاکٹر ہارون مجھے دیکھنے نہیں آئے۔

بچے کہہ رہے ہیں کہ وہ بیرون ملک گئے ہوئے ہیں اور میرا چوتھا مطالبہ کہ میرے آخری کنوارے بیٹے کے لیے M.B.B.S ڈاکٹر لڑکی تلاش کی جائے۔ میرے گھر والے میرے اس مطالبے پر لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں اور بس اسی مطالبے پر مذاکرات کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں اور یوں میرا دھرنا دھوم دھام سے پورے شب شبھا کے ساتھ جاری ہے۔ گھر والوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں ، سارے سرکاری و نجی اسپتالوں میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے، جیسے ہی مناسب رشتہ مل گیا بچے کی شادی کردیں گے، مگر آپ یہ دھرنا تو ختم کریں! میں نے گھر والوں کو کہہ دیا ہے کہ تم میرے ساتھ دھاندلی کرنا چاہتے ہو، مگر میں تمہاری دھاندلی چلنے نہیں دوں گا، بس جاؤ اور میرے لیے ڈاکٹر بہو ڈھونڈو۔

اب میرے گھر والے ہفتے کے دو دن یعنی ہفتہ اتوار میرے لیے ڈاکٹر بہو ڈھونڈنے نکلتے ہیں، مگر انھیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی اور میرا دھرنا جاری ہے۔ میرے قلم کار دوست روز آتے ہیں کھانے پک رہے ہیں، روٹیاں تندور سے آرہی ہیں، میلہ لگا ہوا ہے میرے گھر کے سامنے! ، شام ڈھلے میرا خطاب شروع ہوجاتا ہے۔ محلے دار اپنی چھتوں پر Enjoy کرنے کے لیے جمع ہوجاتے ہیں۔ رات 8 بجے پھر 10 بجے اور آخری خطاب رات 12 بجے۔ اس کے بعد مشاعرہ شروع ہوجاتا ہے جو صبح موذن کی اذان پر ختم ہوتا ہے۔ پھر ہم چھت کو تالا لگا کر سو جاتے ہیں تاکہ کوئی اوپر نہ آئے اور ہم سوتے رہیں۔ میں کمرے میں چلا جاتا ہوں اور دوست کھلی چھت پر سو جاتے ہیں۔

ایک دن بچوں نے کہا: ’’ابا! گھر کے گٹر بند ہوگئے ہیں گندا پانی ابل ابل کر باہر نکل رہا ہے، پورے گھر میں تعفن پھیل چکا ہے۔ آپ دھرنا بند کریں تو گٹر کھلوانے کا کام کروایا جائے۔ نیز یہ کہ ایک عدد M.B.B.S بچی مل گئی ہے۔ لڑکی والے گھر آنا چاہ رہے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ آپ دھرنا چھوڑ کر چھت سے اتر زمینی حقیقتوں کی طرف آئیں تاکہ ہم گھر میں پھیلے تعفن کو ختم کرواسکیں، ورنہ ان حالات میں لڑکی والے کیا دیکھیں گے۔ آپ دھرنا چھوڑ دیں، ہمارا پہلے ہی بہت نقصان ہوچکا ہے مزید نقصان نہ کریں۔‘‘ میں نے گھر والوں سے کہا: ’’اس کا جواب آج شام کے خطاب میں دوں گا۔‘‘

اپنے افسانچے کو یہیں ختم کرتا ہوں اور بھائی جون ایلیا کا شعر سن لیجیے۔ بھائی جون یہ شعر سناتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اپنے بال نوچتے تھے اور زانوؤں کو پیٹتے تھے۔ وہ بڑے شاعر تھے اپنی وضع کے ساتھ:

میں بھی عجیب شخص ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا‘ اور ملال بھی نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔