اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے دو امریکی گورنروں کا انجام

انوار فطرت  اتوار 21 ستمبر 2014
ا رابرٹ میکڈونل اور وڈ بلیگوجے وچ پر کرپشن کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔ فوٹو : فائل

ا رابرٹ میکڈونل اور وڈ بلیگوجے وچ پر کرپشن کے الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔ فوٹو : فائل

ورجینیا کی سات مردوں اور پانچ خواتین پر مشتمل وفاقی جیوری اس پر فرد جرم عائد کرنے ہی کو تھی کہ اس نے اپنی آنکھیں زور سے بھینچ لیں اور کرسی پر آگے پیچھے جھولنے لگا۔

اسے خوہش ہوئی کہ یہ لمحہ وارد ہونے سے پہلے وہ زمین میں گڑ جائے لیکن اس لمحے کا وارد ہونا تھا اور وہ ہوا، جیوری نے اسے بدعنوان قرار دے دیا۔ پوری شدت سے بھنچی اس کی آنکھیں ندامت کے آنسوؤں کو روکنے میں ناکام ہو گئیں، پانی بپھرے ہوئے سیلاب کی طرح بند توڑ کر اس کے چہرے کی جھریوں میں راستے بنا گیا۔ اس کی بیوی تھوڑی دیر کو خود پر قابہ پائے رہی لیکن دھچکا ایسا زوردار تھا کہ اس کی پلکوں کے پشتے بھی پاش پاش ہو کر بکھر گئے۔

پچھلی نشستوں پر بیٹھے ان کے بیٹوں، بیٹیوں کی سسکیاں عدالت سرسرا گئیں۔ میاں بیوی کا صدمہ یہ تھا کہ ان کی زندگی بھر کی نیک نامی چند کم زور لمحون نے بھسم کر دی اور ان کے بچے اس لیے سسک پڑے کہ اب وہ اپنے معاشرے میں کس منہ سے جائیں گے، ان کے والدین نے ان کو کہیں کا نہ رکھا ۔

یہ میاں بیوی گزشتہ جنوری تک امریکا کی ریاست ورجینیا کا فرسٹ کپل تھا یعنی میاں، رابرٹ میکڈونل  ریاست کے منتخب گورنر اور ان کی بیگم مورین خاتونِ اول۔ میکڈونل ری پبلیکن پارٹی سے ہیں۔ ان پر بدعنوانی کے 14 الزامات تھے جن میں سے 11 میں وہ مجرم قرار پائے۔ ان کی اہلیہ پر بھی 14 ہی الزامات تھے تاہم ان پر 9 الزامات درست قرار پائے۔ جن میں ایک الزام، انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانا بھی ہے، جوڑے کی عمر ساٹھ ساٹھ سال ہے۔

میکڈونل ان الزامات سے قبل خاصے نیک نام تھے اور ریاست کے لیے ان کی خدمات بھی بہت نمایاں ہیں۔ ان ہی خدمات اور ان کی مقبولیت کے  پیش نظر ایک وقت میں انہیں امریکا کی نائب صدارت کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

جوڑے پر الزامات ہیں کہ انہوں نے اپنے دورِ گورنری میں ایک دوا ساز ادارے کے مالک سے تحائف اور قرضے حاصل کیے تھے، جو دراصل ’’رشوت‘‘ کی ذیل میں آتے تھے۔ ادارے کا نام Star Scientific Inc. ہے اور جونی ولیم سینیئر اس کا مالک ہے۔ یہ ڈائیٹری سپلیمنٹ بنانے والا ادارہ ہے۔ اس ادارے نے ایک نئی آئٹم Anatbloc تیار کی جس کے فروغ و ترویج کے لیے میکڈونل نے اپنے عوامی عہدے کا اثر و رسوخ اور سرکاری مشینری استعمال کی۔ یہ آئٹم جب تیار ہوئی تو جونی ولیمز نے اسے عوامی سطح پر متعارف کرانے کے لیے گورنر سے رابطہ کیا اور انہیں آمادہ کیا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔

جس پر گورنر میکڈونل نے اس ڈائٹری سپلیمنٹ کی تعارفی تقریب اپنے گورنر ہاؤس میں منعقد کرائی اور تمام ریاستی یونی ورسٹیوں کو ’’حکم‘‘ دیا کہ وہ اس سپلیمنٹ پر تحقیقی مطالعاتی سیشنز منعقد کرائیں۔ اس کے علاوہ گورنر نے سٹار سائینٹیفک کے مالک ولیمز سینیئر کی ریاستی محکمۂ صحت کے  افسران سے ملاقاتوں کی راہ بھی ہم وار ہوئی۔ اس معاونت کے بدلے میں ولیمز سینیئر نے انہیں ایک لاکھ 77 ہزار ڈالر کے  تحائف اور قرضے فراہم کیے، جس کی سامنے کی ایک نشانی رولیکس کی وہ گھڑی ہے جو گورنر کی کلائی پر جھلملا رہی تھی اور قیمتی کار فراری ہے، جس میں عدالت سے فرد جرم کا کلنک اپنی جبیں پر لگوانے کے بعد سابق گورنر میکڈونل رخصت ہوئے تھے۔ ان الزامات پر 5 ہفتے تک تفتیشی کام ہوتا رہا اور عدالت نے ان پر مجموعی طور پر 17 گھنٹے صرف کیے۔

کسی طرح کی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے حکومت کی طرف سے معاونت کرنا بہ ظاہر کوئی جرم نہیں ہے تاہم کسی خاص کمپنی کو خصوصی طور پر نوازنا بہ ہرحال انصاف کے تقاضوں کو پامال کرنے کے مترادف ہے اور اس خصوصی مہربانی کے بدلے اگر تحائف اور سوغاتی قرضے وصول کیے جائیں تو یہ البتہ جرم کے زمرے میں آتا ہے اور سابق گورنر ورجینیا اور سابق خاتون اول سے یہ جرم سرزد ہوا۔ 5 ہفتے کی شب و روز کی محنت کے بعد تفتیش کاروں نے تمام ایسے ثبوت حاصل کر لیے جن کے بل پر سابق گورنر 14 میں سے 11 الزامات، سابق خاتون اول 14 میں سے 9 الزامات میں مجرم قرار پائیں۔

ایک تفتیش کار کیلی کرامر جو واشنگٹن کے میئر براؤن کے دفتر میں اٹارنی جنرل ہیں، کہتے ہیں کہ سابق گورنر کے عمل سے  عوامی عہدوں کے تقدس کو ٹھیس پہنچی ہے اور اس کی ساکھ مشکوک ہوئی ہے۔ ان کے مطابق سابق گورنر میکڈونل کو سٹار کے مالک ولیم سینیٹر نے ایک موقع پر 50 ہزار ڈالر کا سوغاتی قرضہ دیا، ایک موقع پر 15 ہزار ڈالر کا ایک تحفہ پیش کیا اور 70 ہزار ڈالر کا ایک اور قرضہ میکڈونل اور ان کی ہم شیرہ کی کارپوریشن کو دیا۔

سابق گورنر میکڈونل اور ان کی اہلیہ مورین 38 برس سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہیں اور وہ اس دوران کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں رہے لیکن تفتیش کے پانچ ہفتوں کے دوران وہ ایک دوسرے سے الگ ہو  گئے ہیں۔ عدالت سے فردِ جرم عائد ہونے کے بعد دونوں الگ الگ گاڑیوں میں بیٹھ کر واپس گئے اور انہوں نے اخبار نویسوں سے بات چیت کرنے سے بھی گریز کیا تاہم میکڈونل نے بس اتنا کہا کہ وہ خدا سے نا امید نہیں ہیں۔

اس رجائیت کا اظہار انہوں نے اس حوالے سے کیا کہ ان کے وکلاء نے انہیں عدالت سے اپیل کرنے کا یقین دلایا ہے۔  جیوری نے دونوں پر جو فردِ جرم عائد کی ہے، خدشہ یہ ہے کہ اس کی پاداش میں جوڑے کو بیس بیس سال قید کی سزا دی جائے گی جب کہ ہر جرم پر اڑھائی اڑھائی لاکھ ڈالر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ یہ بتایاجا چکا ہے کہ میکڈونل پر گیارہ اور ان کی اہلیہ مورین پر 9 الزامات ثابت ہوچکے ہیں۔ مقدمے کی سماعت کے اختتام کے بعد ورجینیا کے ڈیموکریٹ اٹارنی جنرل مارک ہرنگ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کے فیصلے کا تقاضا ہے کہ ریاست میں اخلاقی اصلاحات کی جائیں انہوں نے ریاست کے قانون  سازوں پر زور دیا کہ تحفوں اور سوغاتوں کی وصولی پر فی الفور پابندی لگائی جائے۔

یہ ہے روڈ بلیگوجے وچ؛ تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے، سابق ایمیچیور باکسر بھی ہے۔ 2002  میں شکاگو کے گورنر منتخب ہوا تھا اور مارچ 2012 تک اپنے عہدے پر براجمان رہا لیکن کچھ ایسی حرکتیں کر بیٹھا کہ اب 14 برس کی قید کاٹ رہا ہے۔ رشوت لی اور وہ بھی سیاسی تعیناتیوں کے لیے۔ اس کے والدین سربیا ہرزیگووینا سے 1947 میں اِلی لوئس (شکاگو) کے ایک گاؤں میں اٹھ آئے تھے۔ بہت غربت کی زندگی کاٹی۔ روڈ بلیگو اس خاندان کے چار بچوں میں دوسرے نمبر پر تھا۔ غربت بہت تھی۔

روڈ نے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کبھی جوتے پالش کیے، کبھی پیزا ڈیلیوری بوائے بنا، کبھی گوشت کی پیکنگ کی اور کبھی کنٹینوں میں پلیٹیں دھوئیں۔ اسی طرح اس نے فورمین ہائی اسکول کے بعد مختلف یونی ورسٹیوں سے تعلیم مکمل کی۔ وہ ایک بہت اچھا باکسر بھی رہا، اس نے مڈل ویٹ باکسر کے طور پر 7 کانٹے کے دنگل جیتے، دو میں ناک آؤٹ ہوا اور ایک میں شکست کھائی اور اس کے بعد اس پیشے سے ریٹائر ہو گیا۔

روڈ کا سسر ایک بااثر شخصیت ہے۔ ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے روڈ نے بعض کام یابیاں حاصل کیں اور غالباً ان ہی کی وجہ سے ڈیمو کریٹ پارٹی میں شامل ہوئے۔ بعد میں اسی سسر کی وجہ سے روڈ نے شکاگو کی گورنری کے لیے منعقدہ عام انتخابات میں مضبوط ری پبلیکن رقیب ’جم‘ ریان کو شکست سے دوچار کیا۔ روڈ سے پہلے ’جارج‘ ریان شکاگو کا گورنر تھا، جس کی انتظامیہ پر کچھ سکینڈلز وغیرہ کے الزامات تھے، جن کا روڈ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران خاصا فائدہ اٹھایا۔

اس کے علاوہ شکاگو کے ووٹر ’جم‘ ریان اور ’جارج‘ ریان کے ناموں سے بھی خاصے گو مہ گو کے شکار رہے، حال آں کہ دونوں رہ نماؤں کے درمیان کوئی رشتہ اور تعلق نہیں تھا۔ سابق گورنر جارج ریان کی انتظامیہ کی بدنامی روڈ  کے مدمقابل جم ریان کے دامن کا داغ بنتی رہی۔ وہ اپنی انتخابی تقاریر کے دوران جے ریان کے الفاظ استعمال کرتا اور ووٹر اسے اس کا مدمقابل جم ریان سمجھتے۔ بہ ہرحال اس طرح راڈ شکاگو کا گورنر بننے میں کام یاب ہو گیا۔

روڈ خاصا سرگرم گورنر رہا۔ اس نے اپنی ریاست کے لیے اچھے کام بھی کیے۔ اپنی گورنری کے دوران اِلی لوئس جنرل اسمبلی کے 36 اجلاس طلب کیے، بتایا جاتا ہے کہ 1970 کے بعد سے اس ادارے کے اتنے اجلاس کبھی منعقد نہیں ہوئے تھے تاہم دل چسپ بات یہ ہے کہ روڈ نے ان میں سے کسی ایک اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔ روڈ کے دور میں البتہ ایک بات دیکھنے میں آئی کہ اس کی گورنری کے دوران ریاست کے اخراجات میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اس نے ریاستی محصولات میں اضافے کے لیے اِلی لوئس میں Gross Receipts Tax بھی عائد کرنے کی تجویز دی تھی ۔ ان کے تعلقات اپنی پارٹی کے ارکان اور اپوزیشن کے ساتھ کبھی مثالی نہیں رہے۔ ان پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ وہ قانون سازی کو مناسب وقت نہیں دیتے، اس وجہ سے بھی ان کے قانون ساز ارکان کے ساتھ تعلقات اچھے  نہیں رہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک بہت ہی غریب خاندان سے تھا۔ اس باعث ان کی محرومیوں کی بھی ایک طویل داستان تھی۔ ایک ایسا شخص، جس نے بچپن میں بہت کڑوے کسیلے دن بیتے تھے ایسے لوگ دو میں کسی ایک انتہا پر چلے جاتے ہیں یا تو بہت دیانت دار ہوتے ہیں یا اپنی خواہشوں کے اسیر ہو جاتے ہیں اور اپنی سابقہ محرومیوں کے ازالے کے لیے اپنے اختیارات سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ روڈ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا۔ جس طرح اس نے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے کشٹ کاٹا۔ اس نے ان کے مزاج میں کڑواہٹ سی بھر دی تھی اور غالباً اسی باعث وہ اپنی گورنری کے دوران تعلیمی فنڈ میں اضافے کے ہمیشہ مخالف رہے۔

روڈ پر بد عنوانی کے بہت سے الزامات عائد کیے گئے۔ امریکی محکمۂ انصاف کا الزام یہ تھا کہ روڈ نے مختلف طریقوں سے رشوتیں وسول کیں اور اس سلسلے میں اس نے اپنے عہدے کا نا جائز استعمال کیا۔ ایک الزام یہ ہے کہ جب موجودہ صدر اوباما نے صدارتی انتخاب کے لیے اپنی سینیٹ کی نشست خالی کی تو اسے پر کرنے کے لیے  روڈ نے اپنی گورنری استعمال کی اور اس کے لیے خاصی ’’وصولی‘‘ کرکے سابق ریاستی اٹارنی جنرل رولینڈ بریز کو تعینات کرایا۔

اس حوالے سے ایک وائر ٹیپ ریکارڈنگ بھی سامنے آئی ہے، جس میں روڈ کسی سے کہتا ہے کہ وہ اس نشست پر تعیناتی کی قیمت وصول کرے گا۔ یو ایس اٹارنی پیٹرک فٹزجیرالڈ نے الزام لگایا کہ روڈ نے ایک اوپن سیٹ کو نیلام کیا اور سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو بیچ دی۔ یہ اور اس طرح کے متعدد الزامات میں روڈ اس وقت طویل مدت کی قید کاٹ رہا ہے۔

ان دنوں اس سابق گورنر کی مالی حالت نہایت سقیم ہے۔ معروف چینل سی این بی سی نے اس کی مدد کے لیے ایک شو میں اسے بطور سیلبریٹی مدعو کرنا چاہا تاہم عدالت نے اس کی اجازت نہیں دی جس پر اس کی بیوی کو شو میں شامل کیا گیا اور پھر امریکیوں نے دیکھا کہ شکاگو کی سابق خاتونِ اول کو اس شو میں چند ہزار ڈالر کے لیے ایک مرا ہوا زہریلا مکڑا (ٹیرنٹیولا) کھانا پڑا۔

ان واقعات کا مقصد یہ ہے کہ یہ دکھایا جا سکے کہ انصاف کی بلاتاخیر فراہمی کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے، صرف چند ہفتوں کی عدالتی کارروئی میں بڑی سے بڑی شخصیت کو بے نقاب کر دیا جاتا ہے۔ میکڈونل ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں ان کی ری پبلیکن پارٹی نے ایک مرتبہ امریکا کے صدارتی انتخابات تک کے لیے نام زد کر دیا تھا لیکن جب یہ شخص اپنے کاندھوں پر الزامات کا بار لیے عدالت کے سامنے پیش ہوا تو جیوری کے بارہ ارکان میں سے کوئی اس امر سے متاثر نہ ہوا کہ اس شخص کا ماضی بہت تاب ناک رہا ہے۔ عدالت نے اسے صرف اور صرف ایک ملزم کے طور پر لیا اور اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وہ ایک عام آدمی کے ساتھ ایسے مواقع پر روا رکھتی ہے۔ ہم یہاں شب و روز یورپی اور امریکی جمہوریت کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ ہرچند جمہوریت کی یہ صورتیں بہت سے سوالیوں کی زد پر ہیں ۔

تاہم بہ ہرحال ہم غریب ملکوں کے لیے ایک کشش ضرور رکھتی ہیں۔ کیا ہم ان کے مقابل گنگوتیلی کے مقام پر کھڑے نظر نہیں آتے۔ ہم ؛ کہ ہمارے ہاں قوانین ملزم کی حیثیت کو نظر میں رکھتے ہیں۔ ایک عام آدمی اگر پٹا ڈلے کتے کو مار دے تو اسے مقدمہ قائم کرکے برسوں کے لیے جیل بھیجا جا سکتا ہے لیکن اگر اشرافیہ ایک ہی ہلے میں 14 افراد کو دن دہاڑے بے دریغ موت کے گھاٹ اتاردے تو ریاستی مشینری اسے بچانے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہے اور کئی کئی ہفتے ایف آئی آر درج نہیں ہونے دیتی۔ یہاں سب آئین آئین کی مالا جاپتے رہتے ہیں لیکن آئین کے اس حصے کو کوئی درخور اعتنا نہیں سمجھتا جو عوام کے بنیادی حقوق کی بات پہلے کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔