اشرافیائی ثقافت

مقتدا منصور  پير 22 ستمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پیر کی شام قومی ائیر لائن کی پرواز دو گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئی۔ مسافروں کو وقت پر ان کی نشستوں پر بٹھا دیا گیا تھا، مگر پھر بھی تاخیر۔ کسی نے کہا کہ فنی خرابی۔ کسی نے کہا سابق وزیر داخلہ اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک اور مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار اس تاخیر کا باعث ہیں۔ یہ سن کر مسافروں کا پارہ آسمان پر پہنچ گیا۔

غصے میں بھرے مسافروں نے دونوں VVIP مسافروں کو جہاز پر سوار نہیں ہونے دیا۔ یہ واقعہ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ رونما ہوا۔ اسی دوران خبر آئی کہ یوکراین کے عوام نے اپنے نائب صدر کو کچرادان میں پھینک کر ان پر گندا پانی پھینکا۔ دنیا کے دیگر کئی ممالک میں بھی ایسے واقعات وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں۔ برطانیہ میں بھی کئی بار عوام نے اپنے وزیر اعظم کے بعض فیصلوں کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انھیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔

کارل مارکس نے کہا تھا کہ ’’ذرایع پیداوار انسانی معاشروں میں سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات کا تعین کرتے ہیں۔‘‘ گویا ذرایع پیداوار میں جنم لینے والی تبدیلیاں، معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلیوں کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا جمہوریت سولہویں صدی میں بپا ہونے والے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں جنم لینے والا سیاسی نظام ہے۔ جس کی جڑیں 1215 میں شاہ جان اول کی جانب سے منظور کردہ Magna Carta میں پیوست ہیں۔

جو بادشاہ کے اختیارات کو محدود کرتے ہوئے عوامی نمایندوں کی قانون سازی میں شرکت کا اولین پروانہ تھا۔ اس نظام کو مہمیز انقلاب فرانس نے لگائی، جس نے آزادی، مساوات اور اخوت جیسے اعلیٰ تصورات کو فروغ دے کر تمام انسانوں کی برابری پر مہر صداقت ثبت کی۔ 1917میں سوویت یونین کا قیام اور سوشلسٹ معاشرے کے قیام نے غریب، مفلوک الحال اور زد پذیر طبقات کو اقتدار میں شامل ہو کر اپنی حالت زار بدلنے کا حوصلہ عطا کیا۔ یوں جمہوریت معاشرے کے تمام طبقات کے دل کی آواز بن گئی۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد کرہ ارض پر پھیلی نوآبادیات میں آزادی کی نئی لہر نے جنم لیا، جنھوں نے اپنے عوام کو آزادی کے بعد جمہوری نظم حکمرانی کے ذریعے اقتدار و اختیار میں شرکت کا یقین دلایا۔ لیکن عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا ایک نئی قطبیت کا شکار ہو گئی، جو نظریاتی بنیادوں پر استوار تھی۔ اس تقسیم کے اثرات نئی آزاد ہونے والی ریاستوں پر بھی مرتب ہوئے اور ان میں سے بیشتر اپنے متعین اہداف کو چھوڑ کر اس نئی جدل کا حصہ بن گئیں، جس نے ان کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل نو اور سماجی ترقی کے تصور کو بری طرح متاثر کیا۔

اس صورتحال کی ذمے داری ریاست ہائے متحدہ امریکا اور سوویت یونین دونوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جنھوں نے آزاد ہونے والی نوآبادیات کو اپنے لیے سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے آزاد ماحول مہیا کرنے کے بجائے انھیں اپنے کیمپ میں رکھنے کی خاطر فوجی اور شخصی آمریتوں کی سرپرستی کی۔ جس نے نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والی ریاستوں میں سیاسی عمل کے ارتقا کو بری طرح متاثر کیا۔

معروف منحرف امریکی دانشور نوم چومسکی نے اپنی کتاب Deterring Democracy میں لکھا ہے کہ وہ امریکا جو 1945ء تک فاشزم کے خلاف جنگ میں اتحادیوں کا ساتھی تھا، 1946ء میں کمیونزم کا راستہ روکنے کی خاطر اس قدر آگے بڑھا کہ یونان، اٹلی اور اسپین کی مقبول سیاسی جماعتوں کا تختہ الٹ کر ان کی جگہ فاشسٹوں کو اقتدار دلانے کی کوششوں کی سرپرستی کی۔ مقصد صرف ایک تھا کہ کہیں ان ممالک میں سوشلسٹ اثرات نہ پھیل جائیں اور یورپ کا جنوبی حصہ کمیونسٹ نہ ہو جائے۔

پاکستان سمیت نوآبادیاتی نظام سے آزاد ہونے والی بیشتر ریاستیں ایسی تھیں، جہاں جاگیردارانہ نظام کی جڑیں خاصی گہری تھیں۔ ان معاشروں میں سخت ترین پدرسری نظام پہلے ہی سے موجود تھا، جو کسی طور جاگیردارانہ کلچر سے مختلف نہیں ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ امریکا نے فوجی آمریتوں کی سرپرستی شروع کر دی۔ یوں ایک نئی بالادست اشرافیہ نے جنم لیا، جو جاگیردارانہ کلچر کے ساتھ ساتھ بے تحاشا اختیارات کی بھی حامل تھی۔

چنانچہ جاگیردارانہ ثقافت کی جڑیں مزید گہری ہوتی چلی گئیں اور اقتدار و اختیار کی سفاکانہ مرکزیت قائم ہو گئی۔ لیکن تعلیم کی کمی اور غلامانہ طرز حیات پر اصرار نے دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کو کہیں عقیدے کے نام پر، کہیں نسلی و لسانی تفاخر کے نام پر اور کہیں قومیتی بالادستی کے نام پر ایک دوسرے سے دست وگریباں کیا جاتا رہا، جب کہ اقتدار و اختیار پر مقتدر اشرافیہ (سول اور ملٹری) اپنے پنجے گہرے کرتی چلی گئی۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک کربناک طوق کی شکل اختیار کر گئی۔

حملہ آوروں کی دلیری سے مرعوب ہونا، شہنشاہیت کے گن گانا اور اپنے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا تمسخر اڑانا غلامانہ ذہنیت کی علامت ہوا کرتا ہے، جو اشرافیائی ثقافت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارا مزاج یہ ہے کہ ہم بلاجواز ہر مغل حکمران پر فخر کرتے ہیں، ان پر کی جانے والی تنقید پر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ اسی ذہنی کیفیت نے ہندوستان کے حالات درست کرنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی، جس نے صرف دلی ہی نہیں راستے میں آنے والے ہر شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ مگر ہم آج بھی ابدالی پر فخر کرتے ہیں۔ ہمارے اکثر دوست ساحر لدھیانوی کے اس شعر

اک شہنشاہ نے بنا کر حسین تاج محل

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں، کیونکہ تاج محل ان کا تفاخر ہے۔ حالانکہ جس زمانے میں ممتاز محل (ارجمند بانو) کا زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث انتقال ہوا، کم وبیش اسی زمانے میں (ابتدائی سترھویں صدی) آسٹریا کی ملکہ بھی زچگی کے باعث فوت ہوئی۔ دونوں حکمرانوں کو اپنی بیگمات سے لافانی محبت تھی۔ مگر رویوں اور سوچ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ شاہ جہاں نے اپنی محبت کا اظہار تاج محل تعمیر کر کے کیا، جو بلاشبہ دنیا کا ساتواں عجوبہ ہے۔ جب کہ آسٹریا کے بادشاہ نے اپنی محبت کا اظہار پورے ملک میں جدید سہولیات (اس وقت کے لحاظ سے) سے لیس میٹرنٹی ہوم تعمیر کرکے کیا۔

اسی طرح میرے دوست اختر حسین ایڈووکیٹ، جن کا تعلق جہلم سے ہے، بتاتے ہیں کہ ان کے شہر کی میونسپل کمیٹی نے شہر کے وسط میں سکندر یونانی کی یادگار تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر چند صاحب شعور شہریوں نے اختلاف کرتے ہوئے مخالفت کی۔ اختر بتاتے ہیں کہ یادگار کی تعمیر کا فیصلہ گو کہ ختم کر دیا گیا، لیکن عوام کی اکثریت راجہ پورس کے مقابلے میں سکندر کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ راجہ پورس ہندو تھا اور قبل از مسیح جنم لینے والے سکندر کو مسلمان سمجھا جاتا ہو۔

بہرحال اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، یہ طے ہے کہ ہمارا مزاج قطعی طور پر جمہوری نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ آمریت کو جمہوریت پر ترجیح دیتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے آمریت کے قصیدے گانے لگتے ہیں۔ اسی طرح ہم اپنے طبقے کے تعلیم یافتہ اور اہم افراد کو اہمیت دینے کے بجائے طبقہ اولیٰ سے جلد مرعوب ہو جاتے ہیں، جس کی مثال یہ ہے کہ متوسط اور نچلی متوسط بستیوں سے تعلق رکھنے والے ووٹر کبھی اس پڑھے لکھے امیدوار کو نہیں چنتے جو موٹر سائیکل یا آٹو رکشہ پر انتخابی مہم چلا رہا ہو، بلکہ لینڈ کروزر میں آنے والے جاہل مطلق کو فخریہ اپنا نمایندہ منتخب کر لیتے ہیں۔

ملک کے اقتدار اعلیٰ پر حاوی اشرافیہ نے اپنی گرفت کو مستحکم رکھنے کے لیے کئی عملی اقدامات کیے ہیں۔ اول، متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہر اس باصلاحیت فرد کو Co-opt کر لیتی ہے، جس سے ذرا سا بھی خطرہ ہو کہ وہ اقتدار پر ان کی گرفت کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ دوئم، انتہائی منظم انداز میں اس اشرافیہ نے سیاست سے بیوروکریسی تک اپنی رسائی کو بڑھایا ہے۔

اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنے بچوں کے بارے میں پہلے سے فیصلہ کر لیتے ہیں کہ کسے سیاست میں جانا، کون سول سروس میں شامل ہو گا اور کون کاروبار کرے گا یا صنعت لگائے گا۔ یہ خاندان شادیاں بھی باہم کرتے ہیں اور ان کی رشتے داریوں کا جال بھی خاصا وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ سوئم، یہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے عوام کو کبھی فرقہ وارانہ، کبھی نسلی و لسانی بنیادوں پر لڑواتے ہیں اور انھیں مسلسل منقسم رکھنے کے لیے سازشیں کرتے ہیں۔ مقتدر اشرافیہ کے یہ رویے عوام میں ان کے لیے بڑھتی ہوئی نفرت کا سبب بن رہے ہیں۔

یہاں جسٹس جواد ایس خواجہ کا یہ تبصرہ نقل کرنا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’رحمان ملک اور رمیش کمار کے ساتھ ہونے واقعے کی ویڈیو دیکھنے کے بعد مجھے اطمینان بھی ہوا اور بے اطمینانی بھی۔ اطمینان اس لیے کہ سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ بے اطمینانی اس لیے کہ اگر ادارے صحیح طور پر کام کر رہے ہوتے تو عوام کو خود یہ اقدام نہ کرنا پڑتا۔‘‘ ان کا تبصرہ ریاستی ڈھانچے میں موجود فرسودگی اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا مختصر مگر برمحل جائزہ ہے۔ اگر اس معاشرے کو بہتری کی طرف لے کر جانا ہے تو پاکستانی سیاسی قیادتوں کو 19 ویں صدی کے جرمن رہنما بسمارک کے وژن سے استفادہ کرنا ہو گا۔ کیونکہ شاید ٹوٹتے بکھرتے معاشرے کو بچانے کی یہ آخری تدبیر ثابت ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔