نامعلوم ذرائع سے اربوں ڈالر کی آمد سے ترکی میں سنسنی پھیل گئی

ندیم سبحان  منگل 23 ستمبر 2014
مرکزی بینک کے توازن ادائیگی کے گوشوارے میں ان غیررجسٹرڈ شدہ رقوم کو net error and deficit کے خانے میں دکھایا گیا ہے۔  فوٹو: فائل

مرکزی بینک کے توازن ادائیگی کے گوشوارے میں ان غیررجسٹرڈ شدہ رقوم کو net error and deficit کے خانے میں دکھایا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

ترکی میں نامعلوم ذرائع سے آنے والے اربوں ڈالر نے سنسنی پھیلادی ہے۔ پچھلے بارہ سال سے نامعلوم ذرائع سے آنے والے زرمبادلہ کے حجم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ کوئی بتانے کے لیے تیار نہیں کہ خطیر رقوم کہاں سے آرہی ہیں۔ مرکزی بینک کے توازن ادائیگی کے گوشوارے میں ان غیررجسٹرڈ شدہ رقوم کو net error and deficit کے خانے میں دکھایا گیا ہے۔ تاہم ماہرین اقتصادیات جانتے ہیں کہ اتنی بڑی رقم کو چھپانا کسی طور ممکن نہیں۔ بہرحال وہ net error and deficit کے کالم میں پراسرار ذرائع سے آنے والی بھاری رقوم کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔

ترکی کی وزارت خزانہ کے سابق انڈرسیکریٹری مہافی ایغلمیز نے ایک تفصیلی گوشوارہ تیار کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرون ملک سے آنے ڈالر کا ملک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں سے گہرا تعلق ہے۔ گوشوارے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نومبر 2002ء میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے  کے پارٹی) کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ترکی میں نامعلوم ذرائع سے زرمبادلہ کی آمد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ 2002ء میں ترکی سے 75.8 کروڑ ڈالر باہر بھیجے گئے مگر اگلے برس 4.489 ارب ڈالر کا زرمبادلہ موصول ہوا۔

زرمبادلہ کی آمد 2007ء سے مزید بڑھ گئی جب جسٹس اینڈ ڈیولپنٹ پارٹی کا امیدوار منصب صدارت پر بھی براجمان ہوا۔ اس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ مذکورہ پارٹی لمبے عرصے تک ترکی کی حکمران رہے گی۔ 2007 ء میں نامعلوم ذرائع سے 51.7  کروڑ ڈالر موصول ہوئے جب کہ 2008 ء میں یہ حجم تین ارب ڈالر تک وسیع ہوگیا۔ پُراسرار ذرائع سے رقوم کی آمد کے ضمن میں 2011ء ریکارڈ ساز سال ثابت ہوا۔ اس سال 9.4 ارب ڈالر موصول ہوئے۔

مذکورہ سیاسی جماعت کے زمام اقتدار سنبھالنے سے پہلے، 1992ء سے 2002 ء کے درمیان ترکی سے 3.5 ارب ڈالر باہر بھیجے گئے تھے۔ تاہم جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے حکومت میں آتے ہی صورت حال بدل گئی۔ 2003ء سے 2013ء کے درمیان نامعلوم ذرائع سے مجموعی طور پر 29.3 ارب ڈالر ترکی میں بھیجے گئے۔ رواں برس کے ابتدائی چھے ماہ میں ان ذرائع سے حاصل ہونے والی رقم 6.4 ارب ڈالر تھی۔ اس طرح یہ رقم 36 ارب ڈالر ہوجاتی ہے، جب کہ سال کے اختتام تک یہ اعدادوشمار ممکنہ طور پر 40 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔

کیا اتنی بڑی رقم کو محض ’حسابی غلطی ‘ یا net error and deficit قرار دیا جاسکتا ہے؟ وزارت خزانہ کے سابق سیکریٹری فائق اوزترک اور مہافی ایغلیمیز نے مرکزی بینک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان پُراسرار رقوم کے ذرائع ظاہر کرے بہ صورت دیگر یہ افواہیں زور پکڑنے لگیں گی کہ یہ رقوم دراصل مختلف وزیروں اور بیوروکریٹس کی ہیں۔

2014ء کے اختتام تک، صرف رواں سال میں نامعلوم ذرائع سے آنے والی رقوم کا حجم 15 ارب ڈالر تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔ اس طرح سال رواں میں ماہانہ بنیادوں پر موصول ہونے والی رقم ماضی میں سالانہ موصول ہونے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔

فائق اوزترک نے، جو اب حزب اختلاف کی مرکزی جماعت ، ری پبلکن پیپلز پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین بھی ہیں، زرمبادلہ کے نامعلوم ذرائع کے بارے میں جاننے کے لیے درخواست پارلیمنٹ میں جمع کرادی ہے، تاہم ابھی تک وزارت خزانہ یا مرکزی بینک کی جانب سے اس کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ فائق کا کہنا ہے کہ حکومت کو یہ بتانا ہوگا کہ اربوں ڈالرز کہاں سے آرہے ہیں، ورنہ اس بارے میں مختلف افواہیں پھیلتی رہیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔