وزیراعظم کا پھر دورہ امریکا

تنویر قیصر شاہد  پير 22 ستمبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

جنابِ وزیراعظم محمد نواز شریف ایک بار پھر امریکی دورے پر جارہے ہیں۔ وہ نیویارک میں 26ستمبر کو جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت فرمائیں گے۔ یہ اجلاس ہر برس ستمبر کے آخری ہفتے اقوامِ متحدہ کے دفتر میں منعقد ہوتا ہے جہاں اقوامِ عالم کے نمایندگان اور حکمران آتے ہیں اور کئی معاملات کے حوالے سے اپنا اپنا نقطئہ نظر دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔ دیکھنے والی بات مگر یہ ہوتی ہے کہ امریکی صدر بہادر دنیا کے کس ملک کے سربراہ کو اپنی نظر التفات سے نوازتے ہیں اور نہال کردیتے ہیں۔

جناب نواز شریف کے حوالے سے ہماری دعا ہے کہ صدرِ امریکا آگے بڑھ کر (بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے مقابلے میں) انھیں دل و نظر کے زیادہ قریب بٹھائیں لیکن نیویارک کی فضائیں اور واشنگٹن کی ادائیں بتا رہی ہیں کہ نریندر مودی کسی کو زیادہ محبوب رکھے جائیں گے۔ ان کے لیے تیاریاں بھی زیادہ ہیں اور امریکی دارالحکومت میں بھارتی سفارتکاروں کی خوشیاں دیدنی ہیں۔ ہمیں امید تھی کہ جناب نواز شریف نیویارک میں اپنے بھارتی ہم منصب سے ملاقات فرمائیں گے اور اپنی تمناؤں کے مطابق ان سے راز و نیاز کی باتیں کریں گے مگر پاکستان کی وزارتِ خارجہ کہہ رہی ہے کہ جی نہیں، یہ ملاقات نہیں ہوگی۔

نہ براہ راست، نہ ہی جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائن پر۔ ہمارے وزیراعظم گذشتہ برس بھی اسی ماہ، نیویارک کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے تھے تو ان کے ساتھ پاکستان کا کوئی وزیرِ خارجہ نہیں تھا۔ اس بار بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم جناب مودی اپنی نہایت ذہین، تیز طرار اور جہاندیدہ وزیرخارجہ محترمہ سشما سوراج کے ساتھ نیویارک میں ہوں گے لیکن ہمارے وزیراعظم صاحب کسی وزیرخارجہ کے مرہون منت نہیں ہیں۔ وہ  وزیراعظم بھی ہیں اور پاکستان کے وزیرخارجہ بھی۔ کوشش یہ دکھائی دے رہی ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں ان کی ملاقات نریندر مودی سے ہو جائے لیکن اسکاٹ لینڈ کے تازہ تازہ ریفرنڈم کے حوالے سے دنیا بھر میں یہ باز گشت سنائی دے رہی ہے کہ بھارت اپنے زیرِ قبضہ کشمیر میں بھی، یو این او میں کیے گئے اپنے وعدوں کے مطابق، ریفرنڈم کرائے تاکہ اہلِ کشمیر کو سُکھ کا سانس نصیب ہو۔ بھارت حسبِ سابق اور حسبِ عادت اس مطالبے سے انکار کرتے ہوئے بدستور ایک ہی مالا جَپ رہا ہے: کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔

پاکستانی عوام اور محبِ وطن پاکستانی لکھاری بھی اپنی آواز اور اپنے الفاظ میں یہی مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ بھارت کو اب ریفرنڈم اور استصواب رائے کی راہ پر آنا ہوگا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے مدارالمہام اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے ذمے داران مگر اس معاملے میں زیادہ سرگرمی اور جوش دکھاتے نظر نہیں آتے۔ گذشتہ برس اسی ماہ میں میاں صاحب نیویارک آئے تھے اور سابق بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ سے ملاقات ہوئی تھی لیکن دشمنوں نے اس ملاقات کے دودھ میں مینگنیاں ڈال دیں، میاں صاحب سے ایک فقرہ منسوب کرکے کہ من موہن سنگھ تو ایک دیہاتی بڑھیا عورت کی طرح ہیں۔ پاکستان اور جناب نواز شریف، اجتماعی اور نجی حیثیت میں اس کی تردیدیں کرتے رہے مگر اس جملے کی زہر فشانی کام دکھا چکی تھی۔

گذشتہ برس جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اور بعد ازاں میاں صاحب کی صدر اوباما سے ملاقات کے پس منظر میں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے جو معنی خیز کارٹون شایع کیا تھا، اس نے بھی پاکستان اور اس کے نئے نئے منتخب ہونے والے چیف ایگزیکٹو کو خاصا گزند پہنچایا تھا۔ یہ دراصل پاکستان کی وزارت خارجہ، امریکا میں پاکستانی سفارت خانے اور میاں صاحب کی میڈیا ٹیم کی اجتماعی نااہلی اور ناکامی بھی تھی۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس بار مذکورہ تینوں عناصر زیادہ جانفشانی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔

جناب نواز شریف کو اقتدار میں آئے سولہ ماہ ہوچکے ہیں۔ ان سولہ مہینوں میں تازہ دورئہ امریکا دراصل ان کا اٹھارواں غیر ملکی دورہ ہے۔ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد وہ دومرتبہ امریکی دورے پر جاچکے ہیں اور اب یہ تیسرا دورہ ہے۔ گذشتہ سولہ مہینوں کے دوران وہ اتنی بار برطانیہ گئے ہیں کہ ان کے ایک مخالف سیاستدان نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر طنزیہ کہا: لگتا ہے پاکستان کا دارالحکومت لندن منتقل ہوچکا ہے۔ میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے تازہ دورہ امریکا پر 3کروڑ 94لاکھ 40 ہزار روپے کے بھاری اخراجات اُٹھ رہے ہیں۔ ایک انگریزی معاصر نے دعویٰ کیا ہے کہ میاں نواز شریف غیر ملکی دورے کرنے میں تمام سابقہ حکمرانوں پر سبقت لے گئے ہیں۔

اصولی طور پر وزیراعظم کے غیر ملکی دورے غیر آئینی ہوتے ہیں نہ غیر قانونی۔ اس لحاظ سے تو یہ ضروری اور ناگزیر ہیں کہ اس سے غیر ملکی حکمرانوں اور ممالک سے گہرے تعلقات استوار ہوتے ہیں جس کے مجموعی مثبت اثرات سے وطنِ عزیز کو فوائد پہنچتے ہیں مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان رواں لمحات میں جن شدید معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں سے گزر رہا ہے، کیا ایسے لمحات میں غریب پاکستانی عوام کی رگوں سے ٹیکس کی شکل میں نچوڑا گیا خون وزیراعظم کے غیر ملکی دوروں کے لیے جائز اور مباح ثابت ہوسکتا ہے؟ جناب عمران خان ہی نہیں،پورا پاکستان متوقع تھا کہ وزیراعظم امریکی دورے پر تشریف نہیں لے جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

وزیراعظم نواز شریف صاحب امریکی دورے پر تو جارہے ہیں مگر واقفانِ درون خانہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور، کامیاب اور عوام کے محبوب رہنما کی حیثیت میں نہیں جارہے۔ نریندر مودی کے مقابلے میں وہ بھرپور عوامی پشت پناہی سے محروم ہیں۔ تازہ سیاسی بحرانوں نے ان کے اعتماد کو خاصا دھچکا پہنچایا ہے۔ الزامات کی آندھیوں نے انھیں ہلا کر  رکھ دیا ہے۔ امریکی بھی ان حقائق سے باخبر ہیں۔ اوپر سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ 26ستمبر کو جب میاں صاحب جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں گے، یو این پلازہ کے سامنے پاکستان عوامی تحریک، تحریکِ انصاف اور کونسل مسلم لیگ کے نمایندگان اور ہمدردگان ان کے خلاف مظاہرے بھی کریں گے اور سخت نعرے بھی لگائیں گے۔

اس پیش منظر میں نیویارک میں فروکش میرے دوست اور کونسل مسلم لیگ کے سربراہ سردار محمد نصر اللہ صاحب اور وہاں کے پاکستانی اخبار نویسوں کی جو ای میلز آئی اور فون آئے ہیں، وہ خاصے ہوشربا ہیں۔ یہ مناظر اور مظاہر میاں صاحب کے دورئہ امریکا کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر قادری اور کپتان صاحب کی قیادت میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اقتدار کے خلاف جو غبار اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں اٹھا ہوا ہے، اب اس کی بدلیاں نیویارک کے آسمان پر بھی چھا رہی ہیں۔ خدا نہ کرے کہ یو این او پلازہ کے سامنے ہمارے انقلاب پسندوں اور آزادی مارچ کے متوالوں کا وزیراعظم کے خلاف کوئی یُدپڑے۔

اس کا نقصان بہرحال پاکستان ہی کو ہوگا۔ اس نقصان کی شدت کو نسبتاً کم کیا جاسکتا تھا اگر نواز شریف صاحب اپنے بھارتی ہم منصب سے مل پاتے۔ میاں صاحب نے موڈی کے موڈ کو بہتر بنانے کی کوششیں تو بہت کی ہیں۔ کبھی ان کی والدہ محترمہ کو ساڑھیاں بھجوا کر اور کبھی انھیں شیریں چونسہ آموں کی پیٹیاں بھجوا کر مگر موڈی کا موڈ درست نہ ہوسکا۔ اس  نے بدلے میں اپنا ہلاکت خیز پانی پاکستان کی طرف چھوڑ کر ہمیں برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ گویا میاں صاحب بسیار کوشش کے باوجود بھارتی وزیراعظم کے دل میں پڑا کینہ دور نہیں کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔