چنگ چی رکشا ریگولیٹ نہ کیے جاسکے، ٹریفک پولیس رکاوٹ بن گئی

سید اشرف علی  منگل 23 ستمبر 2014
موٹرسائیکل چنگ چی رکشا ریگولیٹ کرنے کی سمری 4 ماہ قبل حکام کو بھیجی جاچکی، مسافروں کی جان ومال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا، ٹرانسپورٹ افسران۔ فوٹو: فائل

موٹرسائیکل چنگ چی رکشا ریگولیٹ کرنے کی سمری 4 ماہ قبل حکام کو بھیجی جاچکی، مسافروں کی جان ومال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا، ٹرانسپورٹ افسران۔ فوٹو: فائل

کراچی: صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے غیرقانونی موٹرسائیکل نصب چنگ چی رکشوں کو محفوظ طرز کی ٹرانسپورٹ بنانے کیلیے ریگولیٹ کرنے کی پالیسی تشکیل دیے گئے 4 ماہ گزر چکے ہیں تاہم ٹریفک پولیس کی مداخلت کے باعث اعلیٰ حکام نے حتمی منظوری نہیں دی۔

شہر کی اہم شاہراہوں اور سڑکوں پر 50 ہزار تا 75 ہزار چنگ چی رکشا غیرقانونی طور پر چل رہے ہیں جن سے یومیہ لاکھوں روپے بھتہ ٹریفک پولیس وصول کرتی ہے،شہرکا کوئی پرسان حال نہیں، تفصیلات کے مطابق شہر میں 5سال قبل موٹرسائیکل نصب چنگ چی رکشالنک روڈ پر متعارف ہوئے اور ٹریفک پولیس کی سرپرستی میں تیزی کے ساتھ پورے شہر میں چھاگئے،اس غیرقانونی ٹرانسپورٹ سروس نے پبلک ٹرانسپورٹ کو تباہ وبرباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اس وقت شہر میں صرف 4600 بسیں، منی بسیں اور کوچز چل رہی ہیں جو 2 کروڑکی آبادی کیلیے ناکافی ہیں۔

70 تا 125 سی سی کی موٹرسائیکلوں پر نجی ورکشاپس میں  اسٹرکچر نصب کیا جاتا ہے جس میں 6 سے 8 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کھوکھے ٹائپ ڈھانچے پر مزید افراد سوار کرلیے جاتے ہیں،ایک سے 2 مسافروں کو چنگ چی چلانے والا اپنی سیٹ پر بیٹھا لیتا ہے جبکہ رش اوقات میں جنگلے اور چھت پر بھی مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے،ذرائع کے مطابق چنگ چی رکشوں کے پاس نہ تو فٹنس سرٹیفکیٹ ہوتا ہے، نہ روٹ پرمٹ اور نہ ہی کمرشل طور پر ایکسائز ڈیوٹی ادا کی جاتی ہے تاہم 5 سال سے یہ غیرقانونی سروس شہر میںچل رہی ہے اور ٹریفک پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

ذرائع کے مطابق صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ نے پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی اور سماجی ومعاشی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے این ای ڈی یونیورسٹی اور دیگر متعلقہ اداروں سے مشاورت سے چنگ چی رکشوں کو محفوظ بنانے کیلیے پالیسی مرتب کی ہے، ان سفارشات کے تحت 100 سی سی موٹر سائیکل کے ساتھ 3 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش والا باڈی اسٹرکچر نصب کیا جائے گا، تمام ورکشاپس کو پابند کیا جائے گا کہ صوبائی حکومت کی منظور کردہ باڈی اسٹرکچر تعمیر کریں۔

اس ضمن میں موٹر وہیکل آرڈی ننس میں ترمیم کرکے صوبائی محکمۂ ٹرانسپورٹ شہر کی تمام ورکشاپوں کا معائنہ کرے گا اور جو ورکشاپس مالکان خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے گئے ان کے خلاف بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا، ذرائع نے بتایا کہ غیرقانونی باڈی اسٹرکچر پنجاب سے بھی برآمد ہوتا ہے جس کے تدارک کیلیے محکمہ ٹرانسپورٹ نے پنجاب حکومت کو خط بھیج دیا ہے، ذرائع نے بتایا کہ چنگ چی رکشا ریگولیٹ کرنے کی سمری 4 ماہ قبل صوبائی اعلیٰ حکام کو بھیجی جاچکی ہے تاہم ٹریفک پولیس کی بے جا مداخلت کے باعث یہ پالیسی سرد خانے کی نذر ہوگئی ہے۔

ذرائع کے مطابق ٹریفک پولیس چنگ چی رکشوں کو موجودہ حیثیت کے ساتھ برقرار رکھنا چاہتی اور مختلف حیلے بہانوں سے متعلقہ صوبائی اعلیٰ حکام کو گمراہ کیا جارہا ہے، جناح اسپتال کی رپورٹ کے مطابق چنگ چی رکشوں کی وجہ سے شہر میں ٹریفک حادثاث میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، چنگ چی رکشوں کے ڈرائیوروں نے نمائندہ ایکسپریس کو بتایا کہ ڈیڑھ لاکھ خاندانوں کا روزگار اس کاروبار سے وابستہ ہے، اگر یہ سروس بند کردی گئی تو ہمارے گھروں میں فاقوں کی نوبت آجائیگی۔

انھوں نے کہا کہ اگر ٹریفک پولیس کا بھتہ اور اڈا فیس ختم کردی جائے تو ہم حکومت کے منظور کردہ چنگ چی رکشا آپریٹ کرنے کیلیے تیار ہیں، متعلقہ افسران نے بتایا کہ چنگ چی رکشوں کو ریگولیٹ کرنے کیلیے اس کاروبار سے وابستہ افراد کے سماجی ومعاشی تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھا گیا ہے تاہم مسافروں کی جان ومال پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، اگر یہ پالیسی منطور ہوگئی تو شہر کی اہم شاہراہوں سے چنگ چی رکشا چلنے پر پابندی ہوگی اور صرف لنک روڈ پر چلانے کی اجازت دی جائے گی، اس طرح نہ صرف یہ سروس ریگولیٹ ہوجائیگی بلکہ حکومت کو بھی فٹنس سرٹیفکیٹ، روٹ پرمٹ اور ایکسائزڈیوٹی کی مد میں کروڑوں روپے کی آمدنی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔