حکومت نوں ستے خیراں نیں؟

نصرت جاوید  بدھ 24 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

نواز شریف صاحب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک پہنچ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں کئی دنوں سے موجود آزادی اور انقلاب کے خواہش مندوں کی ولولہ انگیزیوں کے باوجود ان کا بیرون ملک چلے جانا یقینی طور پر یہ پیغام دیتا ہے کہ اب ان کی حکومت اپنے مستقبل کے بارے میں ’’ستے خیراں‘‘ والا اعتماد حاصل کرچکی ہے۔

کچھ لوگ اس خود اعتمادی کا رشتہ ’’معمول‘‘ کی ان ترقیوں اور تبادلوں سے جوڑ رہے ہیں جو وزیر اعظم کے جہاز میں بیٹھنے سے ایک دن پہلے منظر عام پر آئیں۔ میری اس ضمن میں جو ذاتی رائے ہے اسے بیان کرنے کی خود میں جرأت نہیں پاتا۔ چند ہی روز پہلے اپنی لکھی یہ بات البتہ ضرور دہرانا چاہتا ہوں کہ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں۔ ادارے مستقل ہوا کرتے ہیں اور ان کے کچھ دائمی اختیارات، ترجیحات اور ذمے داریاں بھی۔

ہمارے ہاں جمہوری نظام تو ابھی گھٹنوں کے بل چل رہا ہے۔ امریکا میں اسے رائج ہوئے دو سے زیادہ صدیاں بیت چکی ہیں۔ وہاں ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر بے تحاشہ ووٹ لے کر ایک سیاہ فام نے پہلی مرتبہ صدر بن کر ’’تاریخ‘‘ بنائی تھی۔ یہ تاریخ بنانے کے لیے اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ عہد بھی کیا تھا کہ وائٹ ہاؤس پہنچتے ہی وہ اپنے ملک کو عراق اور افغانستان سے فوجی معاملات کے حوالوں سے الگ کرلے گا۔ عراق کے بارے میں وہ اپنا وعدہ نبھانے میں کامیاب رہا۔ افغانستان کے ضمن میں اس نے البتہ اپنے ہاتھ بندھے پائے۔ کئی مہینوں تک جاری زبردست کش مکش کے بعد بالآخر اسے افغانستان سے فوج نکالنے کے بجائے Surgeکے نام پر وہاں مزید فوج بھیجنا پڑی۔ بڑی ذہانت سے اس نے مگر Surge کا مطالبہ ماننے کے عوض 2014ء کو ایک قطعی سال بھی قرار دے دیا۔

اس سال کے اختتام تک افغانستان میں چاہے جیسے بھی حالات ہوں امریکا وہاں سے فوجی حوالوں سے باہر آچکا ہوگا۔ ہاں وہاں کی نئی حکومت کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ اسے تنہاء اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیا گیا چند ہزار امریکی فوجی افغانستان میں علامتی طور پر ضرور موجود رہیں گے۔ اس ’’علامتی موجودگی‘‘ کے بارے میں بھی قطعیت کے ساتھ کوئی دعویٰ کرنا کم از کم میرے جیسے نیم خواندہ شخص کے لیے ممکن نہیں۔ امریکا عراق سے بھی تو لاتعلق ہوگیا تھا۔ مگر اب داعش کو اوقات میں لانے کے لیے ایک بار پھر اپنی فوجی قوت کو استعمال کرنے کے لیے مجبور ہوگیا ہے۔ عراق میں نیا وزیر اعظم بھی اس کی کھلم کھلا مداخلت کے ذریعے ’’منتخب‘‘ ہوا ہے۔

بھارت ہمارا ’’ازلی دشمن‘‘ مانا جاتا ہے۔ کشمیر کا قضیہ ابھی تک حل نہیں ہوا۔ افغانستان کے معاملات میں ہم 1973ء کے بعد سے کسی نہ کسی صورت الجھے رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں 2014ء کے بعد ان الجھنوں میں اضافہ ہی ہوگا۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کے درمیان ایسے معاملات کے بارے میں باہمی مشاورت مسلسل برقرار نہ رہے تو شاعر اور اس کے محبوب کے درمیان والی ’’دلوں کی الجھنیں‘‘ بڑھتی ہی رہتی ہیں۔

میں ایسی الجھنوں کے بارے میں ویسے بھی قطعی لاعلم ہوں۔ ہمارے وطن عزیز میں دفاعی اور قومی سلامتی کے امور کے بارے میں لکھنے اور بولنے والوں کو ڈھونڈنے نکلو تو ایک نہیں ہزار مل جاتے ہیں۔ میں بھی انھیں بہت غور سے پڑھتا اور سنتا ہوں۔ تشفی مگر نہیں ہوتی۔ ان ماہرین کے تجزیوں کا تمام تر انحصار بدقسمتی سے اس سوچ پر مبنی ہے جو گزشتہ صدی کی آخری دو دہائیوں میں ہمارا قومی بیانیہ بن گئی تھی۔ ابھی تک کوئی دیدہ ور اس سوچ سے بالاتر ہوکر کوئی نئی بات سوچ ہی نہیں پایا۔

سیاسی حرکیات پر نگاہ رکھتے ہوئے اپنا رزق کمانے والا میرے جیسا رپورٹر البتہ ایک سوال پر ضرور غور کررہا ہے اور وہ یہ کہ نواز حکومت کے بارے میں واقعی ’’ستے خیراں‘‘ والا ماحول بن گیا ہے یا نہیں۔ اس سوال پر اپنے محدود علم کے ساتھ جتنا بھی غور کیا جواب نفی میں پایا۔ نواز شریف صاحب کی ذات سے مجھے کوئی شکایت نہیں۔ ان کا اندازِ سیاست مگر مجھے کبھی نہیں بھایا۔ اس کے باوجود میری خواہش ہے کہ سابقہ حکومت کی طرح ان کی حکومت بھی اپنی آئینی مدت کے اختتام کے بعد ہوئے انتخاب کے بعد نئی حکومت کو مہذب اور جمہوری انداز میں اقتدار منتقل کرے۔ ایسا ہوگیا تو ہمارا ملک جمہوری نظام کے تسلسل کے ذریعے نہ صرف مستحکم ہوجائے گا بلکہ اس کے حکمرانوں کو عوام کے بنیادی مسائل پر حقیقی توجہ دینے کی عادت بھی پڑ جائے گی۔ یہ اعتراف کرنے کے باوجود میں پنجابی کا وہ فقرہ دہرانے پر خود کو مجبور محسوس کرتا ہوں جو اس خدشے کا اظہار کرتا ہے کہ ’’نظر تو نہیں آتا مگر…‘‘

ہمارے ہاں 1990ء کی دہائی سے Establishment والی اصطلاح کافی استعمال ہورہی ہے۔ اس اصطلاح کا ایک محدود مفہوم ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمیں اب اس اصطلاح کا استعمال ترک کردینا چاہیے۔ اُردو زبان کا ایک اچھا خاصہ لفظ ہے ’’اشرافیہ‘‘۔ زیادہ بہتر ہے کہ اب ہم اپنے سیاسی معاملات کو اس لفظ کے تناظر میں دیکھنا شروع کردیں۔ ’’اشرافیہ‘‘ کی وسیع تر اصطلاح صرف ایک ادارے تک محدود نہیں رہتی۔ بڑے صنعت کار، افسر شاہی، ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اور ان کے لیے کام کرنے والے ایگزیکٹو یا کمیشن لے کر لابی کرنے والے بہت سارے طاقت ور افراد بھی اس میں شامل ہیں۔ خلقِ خدا کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ میں اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے تخت یا تختہ والی تفریق آچکی ہے۔

نواز شریف 1990ء کی دہائی میں اس اشرافیہ کے بھرپور نمایندے کے طورپر ابھرے تھے جو کامیاب صنعت کار طبقات کی ترجیحات کو سیاسی اور ریاستی طاقت کے ذریعے عملی جامہ پہنانا چاہتی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعت ان طبقات کے کوئی کام نہیں آسکتی تھیں۔ پیپلز پارٹی اپنی بقاء کے لیے بتدریج اپنے حلقوں میں طاقتور دھڑے رکھنے والے چوہدریوں ، راجوں اور جاٹوں تک محدود ہوتی چلی گئی۔ شہری متوسط طبقے کے لیے وہ کوئی پیغام نہ دے پائی۔ ہاں بے نظیر انکم سپورٹ جیسے پروگراموں اور سرکاری محکموں میں چھوٹی موٹی نوکریاں بانٹ کر اس نے نچلے متوسط طبقات تک اپنی روٹی، کپڑا، مکان والی کچھ پہچان ضرور برقرار رکھی۔

اندرونِ سندھ اس جماعت سے جذباتی وابستگی کی وجوہات اپنی جگہ ایک پیچیدہ مضمون ہیں۔ پرانے اور ابھرتے ہوئے صنعت کاروں اور خلیجی ممالک کی خوش حالی کی بدولت ہمارے ہاں ابھرتے نودولتیوں نے پنجاب کے شہروں میں جو سوچ پھیلائی اس کے بھرپور اور متحرک نمایندہ بن کر نواز شریف نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی جماعت کو بے دست وپاکیا اور بالآخر 1990ء میں پہلی بار اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ وزیر اعظم بنتے ہی مگر ان کا ٹکراؤ ریاست کی دائمی سوچ سے ہوا جس کے نمایندہ غلام اسحاق خان تھے۔

نواز شریف کو سیاسی طورپر زچ کرنے کے لیے بے نظیر اور ان کی جماعت کے علاوہ اور کوئی طاقت ہی موجود نہیں تھی۔ اس لیے 1993ء ہوا۔ مگر پھر 1997ء بھی آگیا اور بالآخر ریاست کے دائمی اداروں کو جنرل مشرف کی صورت قدم بڑھاکر 12اکتوبر 1999ء کرنا پڑا۔ مشرف صاحب 2007ء تک اپنی Utilityکھو بیٹھے تھے۔ اسی لیے ایک بار پھر NROکے ذریعے پیپلز پارٹی سے رجوع کرنا پڑا۔ مگر محترمہ اس دُنیا میں نہ رہیں۔ آصف زرداری نے سو طرح کے سمجھوتے کرکے محض اپنی آئینی مدت پوری کی اور پھر نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ اب ہماری اشرافیہ کو انھیں قابو میں رکھنے کے لیے مقامی اور عالمی بت خانوں سے بہت سارے صنم مل گئے ہیں۔ ’’ستے خیراں‘‘ ہونا ان کی وجہ سے اب کافی مشکل ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔