سوال یہ ہے!

مقتدا منصور  بدھ 24 ستمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ایک طرف شاہراہ دستور پر دھرنا جاری ہے، دوسری جانب پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اختتام پزیر ہواجب کہ تیسری طرف سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں ۔دھرنے کے شرکاء میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے بے دخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ پارلیمان میں خوش لباس وخوش گفتاراراکین الفاظ کی جادوگری میں مصروف رہے، البتہ اگلے انتخابات میں عوام کو ایک بار پھر بیوقوف بنانے کے لیے ہر روز کوئی نہ کوئی رہنماء متاثرین کے کیمپوں میں پہنچ جاتا ہے ۔کوئی لمبے بوٹ پہن کر فوٹو سیشن کراتا ہے ، تو لچھے دارجذباتی گفتگو سے ان کا دل گرماتا ہے مگر ان میں کسی میں بھی نیک نیتی سے ٹھوس اقدامات کرنے کا نہ جذبہ ہے اور نہ اہلیت ،اس لیے یہ سب باتیں ہوا میں تحلیل ہو رہی ہیں اور لوگ سمجھ رہے ہیں کہ جیسے ہی سیلاب کا زور ٹوٹے گا ، سب باتیں ، سب وعدے قصہ پارینہ ہوجائیں گے ۔

جمہوریت اس ملک کی ابھرتی ہوئی بورژوازی ، سماجی شعور سے آراستہ ہوتے متوسط طبقے اور مسائل کی چکی میں پستے محنت کش طبقات کی فطری ضرورت ہے ۔ مگر جمہوریت کو استحکام نہ تو ایوانوں میں خودستائی کرتی اشرافیہ دے سکتی ہے اور نہ ہی شاہراہ دستور پر براجمان مجمع اور ان کے قائدین۔کیونکہ یہ طے ہے کہ فیصلے سڑکوں پر نہیں عوام کے منتخب کردہ ایوانوں ہی میں ہوتے ہیں۔سڑکوں پہ کیے گئے فیصلے جذباتی ہونے کے سبب بے ثبات ہوتے ہیں۔ اب جہاں تک ایوانوں میں سنجیدہ،اہل اور معاملہ فہم نمایندوں کی موجودگی کا تعلق ہے ، تو انھیں بھیجنا عوام کی ذمے داری ہے ۔ عوام میں بے چینی ضرور ہے ، مگر کہیں قبائلی وابستگی،کہیں جاگیرداروں کا اثر و نفوذ اورکہیں برادری کی بندشیں انھیں صحیح فیصلہ کرنے سے روکتی چلی آ رہی ہیں ۔ جب تک معاشرہ قبائلیت، جاگیرداری اور برادری سسٹم کے چنگل سے آزاد نہیں ہوتا، حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا نظر نہیں آتا ۔

نکولس بیورلے سینئر برطانوی صحافی تھا ۔اس نے 1946ء میں چھ ماہ تک برٹش انڈیا کا طوفانی دورہ کیا ۔ واپسی پراس نے اپنے سفر کی روداد کتابی شکل میں پیش کی، جس کانامVerdict on Indiaتھا ۔ یہ ایک بہترین کتاب تھی، جس میں ایک کہنہ مشق صحافی کی دیدہ وری کی جابجا جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔اپنے پشاور کے دورے کا ایک واقعہ یوں بیان کرتا ہے کہ ’’میں پشاور چھاؤنی میں کرنل کمانڈنٹ کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک سولجر نے کمرے میں داخل ہوکر سلوٹ کیا اور ایک ماہ کی چھٹی کی درخواست پیش کی۔کرنل نے چھٹی کا سبب پوچھا،تو اس نے بتایا کہ اس کے چچا کو مخالف قبیلے کے لوگوں نے قتل کردیا ہے ۔ اب انتقام کے طورپر اسے مخالف فریق کا ایک فرد قتل کرنا ہے۔

کرنل نے فوراً اس کی چھٹی منظور کرتے ہوئے اسے ہدایت کی کہ سرکاری اسلحہ فوری طور پر جمع کرا کے چلا جائے ۔‘‘ نکولس لکھتا ہے کہ سولجر کے جاتے ہی میں پھٹ پڑا ۔ کہا تم کیسے برطانوی ہو جو قتل کے لیے چھٹی دے رہے ہو ۔ تم نے برطانیہ کی روایات کو فراموش کردیا،قانون کی بالادستی کے اصول کو طاق نسیاں کردیا ۔‘‘کرنل نے مسکرا کر جواب دیا کہ ’’میں نے کچھ نہیں بھلایا۔ اگر میں چھٹی نہ بھی دیتا تو یہ شخص قتل ضرور کرتا اور اپنے اس جرم کے لیے سرکاری اسلحہ استعمال کرتا ۔ میں اس علاقے کے مزاج کو بخوبی سمجھتا ہوں ۔برٹش انڈیا کے دیگر خطے قانون کی بالادستی اور جمہوری اقدار کی خوبیوں کو سمجھنے لگے ہیں ، مگر یہ خطہ قبائلی کلچر کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے ۔ اس لیے ان کی سمجھ میں جدید اصول وضوابط نہیں آتے ۔‘‘

دوسرا واقعہ سنیے ۔ میرے ایک وکیل دوست ہیں جن کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دور افتادہ گاؤں سے ہے ۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کراچی میں مقیم ہیں اور ماضی میں ترقی پسند طالبعلم رہنماء بھی رہ چکے ہیں ۔ ایک نشست میں انھوں نے جس اندازمیں جرگے کے حق میں دلائل دیے، اس نے ہر شخص کو حیرت زدہ کردیاحالانکہ وہ ایک وکیل ہیں اور قانون اور عدل کی باریکیوں سے واقف ہیں ، مگر صدیوں سےGenes میں موجود قبائلیت بہرحال کہیں نہ کہیں اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے ۔ دراصل اس خطے پر جس پر پاکستان بنا ہے،قبائلیت اور برادری کلچر کی جڑیں خاصی مضبوط ہیں ۔اس لیے جمہوریت کے پودے کے پروان چڑھنے میں خاصی دشواریاںپیش آرہی ہیں ۔ یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ جمہوریت صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا نام نہیں ہے ، بلکہ ایک کلچر اور ایک طرز حیات ہے ۔مگر اس کی اہمیت کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے ، جب معاشرہ جمہوری اقدار کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کے لیے ذہنی طورپرتیار ہوچکا ہو۔بصورت دیگر جاگیردار، قبائلی سردار اور برادری کی بنیاد پر نااہل افراد پارلیمان میں پہنچ کر آمریت سے بدتر صورتحال پیدا کردیتے ہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ عمران خان اور علامہ قادری کا طرز عمل غیر جمہوری ہے، لیکن معاف کیجیے جس پارلیمان کو ہم جمہوری سمجھتے ہوئے اس کے لیے رطب اللسان ہیں ، وہ بھی کوئی جمہوری ایوان نہیں ہے ۔ بلکہ ہمارے اپنے ہاتھوں منتخب ہونے والا اشرافیائی(Aristocratic)ادارہ ہے ۔ ساڑھے پانچ سو اراکین پر مشتمل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کتنے اراکین ایسے ہیں ، جن میں قومی مسائل اور عوام کی مشکلات کا ادراک ہے ؟ ان میں مسائل کے اسباب کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے؟ جب کہ وہ اراکین جن میں کسی حد تک اہلیت ہے ، وہ اپنی جماعت کے ناخداؤں کے بھاری پاؤں تلے دبے ، کچھ کہنے اور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔

باقی جو نمایندے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، وہ اسمبلیوں کے ذریعے حاصل طاقت کے بے جا استعمال(Power Abuse)میں مصروف ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان نااہل اور خودنمائی کے شکار اراکین کو بچانے کے لیے اپنے قلم کو استعمال کر رہے ہیں ، جو اختیارات کی مرکزیت پر یقین رکھتے ہیں اور عوام کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں؟ کیا ان نمایندوں کو تحفظ فراہم کریں ، جنھیں2010ء کی فلڈ رپورٹ پڑھنے اور اس میں دی گئی تجاویز پر عمل کرنے کی فرصت نہیں؟

پھر عرض ہے کہ دنیا تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے ۔اس کے تقاضے تبدیل ہو رہے ہیں ۔اس لیے ہر سطح پر اندازِفکرکو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج جمہوریت بورژوازی، متوسط اور محنت کش طبقات کی ضرورت بن چکی ہے ۔جب تک ان طبقات کے نمایندے ایوانوں میں نہیں پہنچیں گے ، صورتحال تبدیل نہیں ہوسکے گی ۔یہ تبدیلی نہ شاہراہ دستور پر سجے دھرنوں سے آئے گی اور نہ ایوان میں ہونے والی خود نمائی سے ۔ بلکہ ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے ، جو سرد جنگ کی نفسیات کا شکار نہ ہو ، جو عالمی تقاضوں کو سمجھتی ہو ، خطے کی صورتحال پر گہری نظر رکھتی ہو اور معاشی امور کی نزاکتوں سے واقف ہو ۔ جس روز ایسی جماعت وجود میں آگئی اور اس نے عوام کی توجہ حاصل کرلی، قوی امید ہے کہ اس دن سے حالات تبدیل ہونا شروع ہو جائیں گے ۔

دوسری بات جو اس عرصے میں بری طرح کھٹکی ہے ، وہ ذرایع ابلاغ کا دو انتہاؤں میں تقسیم ہونا ہے ۔ ذرایع ابلاغ عوام کی غیر رسمی تربیت کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ اگر ذرایع ابلاغ کے نمایندے خود کنفیوژن اور تقسیم کا شکار ہوں ، تو وہ عوام کو مزید کنفیوژن کا شکار کردیتے ہیں ۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دو انتہاؤں کے درمیان ایک گرے ایریا بھی ہوتا ہے ۔

ہم میں سے کتنے صحافی اور تجزیہ نگارایسے ہیں، جو اس گرے ایریا میں کھڑے ہوکر تبدیل ہوتی سیاسی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں ، شاید ایک فیصد سے بھی کم ۔ جو صحافی گرے ایریا میں کھڑے ہوکر صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں ہر دو طرف کے عناصر نے مشکو ک بنا دیا ہے۔ حالانکہ ہر تخریب کے اندر تعمیر کا پہلو ہوتا ہے ، اس لیے میرا کام کسی ایک فریق کی کاسہ لیسی نہیں ، بلکہ صورتحال کا انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ جائزہ لے کر دیانت داری کے ساتھ اپنی سوچ اپنے قارئین تک پہنچانا ہے ۔ اگر میں خود جانبدار Partisanہوجاؤں گا تو عوام کو صحیح معلومات فراہم نہیں کرسکتا ۔

لہٰذا میری جانی مانی رائے یہ ہے کہ دھرنوں نے بہر حال حکمرانوں اور ایوان میں بیٹھی جماعتوں کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبورضرور کیا ہے ۔ کراچی ایئر پورٹ پر رونماء ہونے والاواقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ یہ طے ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی طور پر ہی حل کیے جائیں اور اس میں کسی ماتحت ریاستی ادارے کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ۔

جس قدر جلد حکمران جماعت اور اپوزیشن کی جماعتیں اپنے رویے اور طرز سیاست تبدیل کرلیتی ہیں اتنی ہی جلد جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہو جائیں گے۔ جیسا کہ پچھلے اظہاریے میں لکھا تھا کہ حکمران اور اپوزیشن جماعتوںکو چاہیے کہ وہ 19ویں صدی کے جرمن رہنماء بسمارک کی طرح اپنے سیاسی کلچر کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں اس لیے انتظار ہے کہ کب سیاستدان اپنے رویوں کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے آپ کو بسمارک کی طرح ویژنری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔