پنجابی طالبان کا عسکری کارروائیاں چھوڑنا بارش کا پہلا قطرہ ہے

اجمل ستار ملک  جمعـء 26 ستمبر 2014
سیاسی، دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

سیاسی، دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

تحریک طالبان پنجاب کی جانب سے پاکستان میں اپنا عسکری کردار ختم کر کے دعوت و تبلیغ کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ خوش آئند اوربلا شبہ افواج پاکستان اور دیگر حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

تحریک طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ کے بقول پاکستان میں عسکری کاروائیاں ختم کرنے کا فیصلہ علماء اکرام اور عمائدین کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا گیا ہے اور انہوں نے قبائل میں موجوددیگر طالبان گروپوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی مذاکرات کی میز پر آئیں۔ تحریک طالبان پنجاب کی جانب سے اپنی عسکری کارروائیاں ختم کرکے دعوت و تبلیغ کا راستہ اختیار کرنا امن کے قیام کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔اسی حوالے سے گذشتہ دنوں ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ہمایوں احسان (سیاسی تجزیہ نگار)

یہ بات درست ہے کہ سیاست دانوں کا کردار پیغمبروں جیسا ہونا چاہیے مگر ایسا ممکن نہیں ۔میرے خیال میں اگر ہمارے لیڈروں کاذہنی معیار پیغمبروں جیسا نہیں تو مثبت سوچ رکھنے والے ایک عام انسان کی طرح ہی ہو جائے۔ اگر ایسا بھی ممکن نہیں تو پھر ایک ایسے جانور جیسا ہی ہو جائے جسے بھوک لگتی ہے تو وہ درندے کی طرح اپنے سے کمزور جانور کو کھاتا ہے اور چند گھنٹے سکون کرتا ہے۔ ہمارے لیڈر توعوام کا خون چوستے ہیں۔انکا سارا پیسہ باہر کے بینکوں میں جاتا ہے۔ایسا تو کسی جنگل میں بھی نہیں ہوتا کہ شیر اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ہر روز پندرہ سولہ ہرن ماڑ ڈالے۔ علماء کے کردار کی معاشرے میں بہت اہمیت ہے۔

ہمیں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو فرقہ پرست نہ ہوں اور جو مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کیلئے مثبت کردار ادا کریں۔ طالبان کا سرنڈر کرنا خوش آئند ہے۔ ان کے  ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور اپنی ضد نبھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ہمارے معاشرے میںضدی لوگ موجود ہیں جن کا سوائے تنقید کے معاشرے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ ان میں سے بعض اسلام دشمن ،چند آئیڈیلسٹ اور دیگر آزاد خیال لوگ ہیں ۔یہ لوگ بے جا تنقید کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ طالبان کی پیشکش قبول کریں۔ اس سے معاشرے میں تبدیلی آئے گی۔

کسی بھی مذہب یا مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے مگر اس سے پہلے بنیادی اصول وضع کیے جانے چاہیں۔میرے نزدیک تین بنیادی اصول ہیں جو سب کو واضح ہونے چاہیں اور ان سے بات چیت کرتے وقت بھی یہ اصول ان لوگوں کو بتائے جانے چاہیں۔ اول یہ کہ طاقت کے استعمال کا حق صرف اورصرف ریاست کے پاس ہے۔کسی فرد واحد کو طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔قرآن میں جہاں بڑے گناہوں کا ذکر ہے وہاں فساد کا بھی ذکر ہے ٰلہٰذا فرد واحد کے طاقت کا استعمال گناہ ہے۔

دوسرا یہ کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے تاکہ ہر خاص و عام کوبلا تفریق انصاف ملے۔تیسرا یہ کہ ہم سب ایک سسٹم کے اندر رہیں اور اس کے قوانین کا احترام کریں ۔دوسری طرف ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ بات کرنے کو تیار ہوئے ہیں ان کے بارے میں اپنی نفسیات ٹھیک کریں اور اچھا شہری بننے میںانکی مدد کریں۔ طالبان نے سرنڈر کرکے مثال قائم کی ہے لہٰذا ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور انہیں ذمہ دار اور معزز شہری بننے کیلئے مواقع فراہم کیے جائیں۔یہ سب میڈیا پہ بھی دکھانا چاہیے اس سے مثبت روایت قائم ہوگی اور مزید عناصر بھی سرنڈر کریں گے۔

بریگیڈیئر (ر) محمد یوسف (دفاعی تجزیہ نگار)

نارتھ وزیرستان میں ضرب عضب کا شروع ہونا افواج پاکستان اور حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ پنجابی طالبان کی طرف سے سرنڈر کرنا بارش کا پہلا قطرہ ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ انکا انفرا سٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔عصمت اللہ معاویہ کا گروپ بہت بڑا گروپ تھا اور انکا ہتھیار ڈالنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ ضرب عضب میں جو طالبان گرفتار ہوئے تھے فوج اور حساس اداروں نے ان میں سے کسی کو بھی گولی نہیں ماری بلکہ ان سے معلومات حاصل کر کے ان کا انفاسٹرکچر تباہ کیا ہے اور ان لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کیا ہے۔

یہ ہمارے کلمہ گو بھٹکے ہوئے بھائی ہیں جو ماضی کے داغ دھونا چاہتے ہیں لہٰذا حکومت اور تمام اداروں کو ذمہ دار شہری بننے میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ موجودہ معاشرے میں دین اور سیاست بہت اہم ہیں مگر اسے بد قسمتی سے چند لوگوں کو چھوڑ کر ہم نے ایسے لوگوں کے حوالے کیا ہو ا ہے جو اس کے اہل نہیں ہیں۔  جب دین اور سیاست میں اچھے لوگ آجائیں گے جن میں تحمل ہوگا،برداشت ہوگی،بردباری ہوگی تو وہ پھر ایک دوسرے کے نقطئہ نظر کو سمجھتے ہوئے جمہوریت کے اصولوں پر چل کر اس پر عمل کریں گے تو معاشرے میں ایک خوشگوار تبدیلی پیدا ہوگی۔ 1994ء تک طالبان کا کوئی وجود نہیں تھا۔

ملا عمر اس وقت ایک مدرسہ میں استاد تھے۔ اس دوران افغانستان میں مسائل پیدا ہوناشروع ہوئے اور جگہ جگہ بھتہ خوری،اغواء جیسے جرائم عام ہوئے تو ملا عمر نے اپنے شاگردوں کی مدد سے طالبان کو متعارف کروایا اور 90 فیصد افغانستان پر اپنا تسلط قائم کیا۔ملا ضعیف نے اسلام آباد میں ایک ملا قات میں بتایا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ہم لڑکیوں کو تعلیم نہیں دیتے۔ ہماری لڑکیاں میڈیکل کالجوں میں باقاعدہ پڑھ رہی ہیں ۔ہمارے لڑکے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ہم انہیں مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ مغرب کے کچھ ممالک کو یہ چیز پسند نہیں تھی کہ اسلام کے نام پر ایک ایسا ملک وجود میں آجائے جو بعد میں ان کے  لیے پرابلم بنے۔

بوسنیا کے بارے میں یورپ نے اکٹھ کرلیا تھا کہ ہم یورپ کے مرکز میں ایک اسلامی ملک کو برداشت نہیں کر سکتے۔اس وجہ سے بھی ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ نے جب افغانستان میں ڈرون حملے شروع کیے تو اس موقع پر بھی ملا عمر کے واضح بیانات موجود تھے کہ میں نے کسی کو پاکستان میں کارروائیاں کرنے کیلئے نہیں کہا۔ ہماری جتنی بھی کارروائیاں ہیں وہ افغانستان میں ہیں اور ہمارا جہاد امریکہ کے خلاف ہے۔ پاکستان میں جامع حفصہ پر آپریشن کے بعد مشکل صورتحال پیدا ہوئی۔

پرویز مشرف نے جب جامع حفصہ پر آپریشن کروایا تو اس میں شہید ہونے والے لوگوں کے رشتہ داروں کو طالبان اور غیر ملکی عناصر نے اپنے عزائم کیلئے استعمال کیا اور انکی فنڈنگ کی۔یہ جو طالبان ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے عزیز جامع حفصہ میں شہید ہوئے۔جی ایچ کیو پر جنہوں نے حملہ کیا ان میں ایک ڈاکٹر تھا جو جی ایچ کیو میں کام کرتا تھا اسکی بہن جامع حفصہ میں شہید ہوئی تو پھر اسنے لوگوں کو ملا کر جنہیں باہر سے فنڈنگ ہوئی جی ایچ کیو پر حملہ کیا۔یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔

میری یونٹ ناتھ ساؤتھ وزیرستان میں تھی۔وہاں ہم نے جن لوگوں کو گرفتار کیا ان میں ازبک بھی تھے جن کے پاس گرین کارڈ اورامریکہ سے رابطے کیلئے اسٹیبلائزر سیٹ موجود تھے۔افغان جنگ کے بعد ازبک ، یمن اور باہر سے جولوگ آئے،حکومت کو چاہیے تھا کہ ایران کی طرح انہیں بالکل الگ تھلگ رکھتے اور جنگ بندی کے بعد انہیں واپس بھیج دیتے مگر ہماری ایڈمنسٹریشن سے یہ غلطی ہوئی جس کے نتیجے میں وہ پورے پاکستان میں پھیل گئے پھر یہاں شادیاں کیں ، انکی اولادیں بھی یہاں ہیں اور اب وہ جانے کیلئے تیار نہیں ۔لہٰذا ایڈمنسٹریشن کو انکی واپسی کیلئے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ مزید لوگ بھی پکڑے جائیں گے اور انشاء اللہ آہستہ آہستہ ہم طالبان پر قابو پا لیں گے۔ہمیں چاہیے کہ بجائے اس کے کہ ہم انکو مارکر معاشرے میں موجود ان کے  رشتہ داروں کو اپنا دشمن بنائیں بلکہ کوشش کریں کہ انکی برین واشنگ کر کے اور انہیں تعلیم دے کر معاشرے کا ایک مفید فرد بنایا جائے تاکہ یہ معاشرے کا ایک اچھا فرد بن کر ہمارے ساتھ رہ سکیں۔اس کے ساتھ یہ کوشش بھی کرنی چاہیے کہ بیرونی طاقتوں سے ان کے  رابطے ختم کیے جائیں تاکہ یہ دوبارہ دشمن کے ہاتھوں میں ان کے  آلہ کار نہ بن سکیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہاں ہماری سول ایڈمنسٹریشن کی کوتاہی ہے۔

سوات میں آرمی نے آپریشن کرکے علاقے کو کلیئر کردیا مگربد قسمتی سے ابھی تک سوات میں حکومتی رٹ قائم نہیں ہو سکی۔اسی طرح فاٹا میں سیاسی لوگوں کی کارکردگی بھی دیکھنی چاہیے۔ اگر یہ صحیح کام کر رہے ہوتے تو لوگ دشمن کے ہاتھ میں جاکر نہ کھیلتے۔ پنجاب کے اندر بھی دہشتگرد گلی محلوں میں رہتے ہیں ۔ اگر ہماری پولیس زندہ ہے اور مو ثر کام کر رہی ہے تو کوئی دہشتگرد گلی محلوں میں کیسے آسکتا ہے۔ پولیس کو بھی چاہیے کہ یہ لوگ جب آتے ہیں تو ان کی معلومات اکٹھی کرے۔حساس اداروں کی انفارمیشن کی بنیاد بھی پولیس ہوتی ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے تمام ادارے جن میں فوج ہے، پولیس ہے خاص طور پر ہمارے علماء ہیں ان کو گروپ بنانے چاہئیں جو ان لوگوں سے جاکر بات چیت کریں۔مولانا فضل الرحمان اس علاقے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔یہ لوگ وفد لے کر جائیں اور جو لوگ راہراست پر نہیں آرہے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کریں اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کریں۔تاکہ وہ اپنے لیے، پاکستان کیلئے اور دین کیلئے مسائل پیدا نہ کریں ۔دین اور سیاست دو ایسے شعبے ہیں جن پر حکومت پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ہمیں دین میں ایسے لوگ چاہئیں جو تفرقہ ڈالنے کی بجائے لوگوں کو جوڑنے کی کوشش کریں۔

اسی طرح سیاست میں بھی وہ لوگ چاہئیں جو سیاست کے اصل مقصد کو اپنائیں اور ان کے  کردار میں پیغمبروں کے کردار کی جھلک ہو۔جب انکا کردار پیغمبروں کی طرح ہوگا، دیانت میں، امانت میں، صداقت میں ،لوگوں کی خدمت میں ، جب وہ عمر خطابؓ کی طرح پیٹھ پر بوریاں لاد کر غریبوں کو کھلائیں گے یا پھران میں اتنا تحمل ہوگا کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر حضرت عمرؓ سے پوچھے کہ تم لمبے آدمی ہو تمہارا لمبا چوغہ کیسے بن گیا تو بیٹے کو کھڑے ہو کر بتانا پڑا کہ میں نے اپنے حصہ کا کپڑا دیا تھا اس لیے بناہے۔عمر جیسے سخت آدمی نے اسے کچھ نہیں کہا۔

یہ چیز سیاست میں لانے کی ضرورت ہے کہ تحمل سے ایک دوسرے کا نقطئہ نظر سمجھ کراتحاد کو آگے بڑھائیں تاکہ ملک کے اصل مسائل غربت،جہالت اور تعلیم پر توجہ دی جاسکے۔اگر اصل مسائل یعنی غربت اور جہالت پر توجہ نہ دی گئی تو میں دیانتداری سے کہتا ہوں کہ دس پندرہ سال بعد اتنا بڑا خون خرابہ ہوگا جس کا آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستان کی بیس کڑور آبادی میں سے چار کڑور امیر ہیں جنہیں کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ہے۔

دو کڑور ایسے خاندان ہیں جنہیں صبح سے شام تک کھانا میسر نہیں ہے اور وہ کرایہ کے مکان میں رہتے ہیںجن کے ا ٓٹھ کڑور بچے تعلیم سے محروم ہیں۔آج سے پندرہ سولہ برس بعد یہ بغیر ہنر اور تعلیم کے سڑکوں پر آئیں گے۔ چوری اور بھتہ خوری کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔اسلیئے حکومت کو چاہیے کہ ان مسائل کی طرف توجہ دے تاکہ لوگ اپنی غربت ختم کر کے اپنے بچوں کو ہنر سکھا سکیں، تعلیم دے سکیں تاکہ وہ اچھے شہری بن کر ملک اور دین کی خدمت کر سکیں۔

محمد مہدی (رہنما پاکستان مسلم لیگ (ن) و ماہر امور خارجہ)

پاکستان میں پنجابی طالبان کا ذکر پہلی دفعہ 2007ء میں اس وقت سامنے آیا جب ہاشم نامی ایک شخص بہت زیادہ اسلحہ و بارود کے ساتھ ملتان سے پکڑا گیا تھا۔اور اس نے انکشاف کیا کہ اس کا تعلق تحریک طالبان پنجابی گروپ سے ہے۔ بعدازاں پتہ چلا کہ پنجابی طالبان کے بھی آگے سے مزید چار نمایاں گروپ پائے جاتے ہیں۔ ان میں عصمت اللہ معاویہ کے گروپ کے علاوہ قاری ظفر‘ رانا افضل اور قاری عمران کے گروپ شامل تھے‘ کچھ عرصہ بعد قاری عمران تو کہیں غائب ہو گئے تاہم باقی کے تین گروپ ابھی تک کسی نہ کسی حوالے سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

جہاں تک عصمت اللہ معاویہ کا تعلق ہے تو وہ کبیر والا کے رہائشی ہیں اور وہیں سے انہوں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ ان کے ساتھ شامل ہونے والوں میں زیادہ تر لوگ ایسے تھے جن کا تعلق افغانستان سے تھا‘ اس کے علاوہ لشکر جھنگوی‘ حرکت المجاہدین‘ جیش محمد اور جہاد اسلامی کے لوگ بھی کسی نہ کسی طور اس گروپ کے ساتھ شامل رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جو اس طرح کی کارروائیاں چھوڑ کر اپنے گھروں میں آ چکے تھے مگر پھر پولیس نے انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا۔

علاقے میں جہاں بھی کوئی واقعہ یا جرم ہوتا تھا تو ان کو پکڑ لیا جاتا تھا۔ چنانچہ یہ لوگ دوبارہ روپوش ہو گئے اور پھر انہوں نے یہ گروپ یعنی تحریک طالبان پنجاب بنا لیا اور اس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگر ان کی کارروائیوں کو دیکھا جائے تو یہ زیادہ تر پنجاب کے اندر کارروائیاں کرتے رہے۔ ان کی پہلی بڑی کارروائی 2009ء میں دیکھنے میں آئی جب انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں ایک امام بارگاہ پر حملہ کیا اور پھر مارچ 2009ء میں ہی لاہور میں پولیس کے تربیتی مرکز پر بھی حملہ کیا اور اسی گروپ نے باقاعدہ ذمہ داری قبول کی۔ تب اندازہ ہوا کہ یہ بھی کوئی مضبوط اور اہم گروپ ہے۔

اس کے علاوہ اس گروپ کی ایک بہت بڑی کارروائی اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل پر خودکش حملہ تھا۔ کہا جاتا تھا کہ اس حملے میں جو ٹرک استعمال ہوا وہ بھی جھنگ سے آیا تھا۔ ان لوگوں نے زیادہ تر کارروائیاں اسلام آباد‘ راولپنڈی اور لاہور میں کیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا نیٹ ورک جنوبی پنجاب کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں بھی موجود تھا اور بعدازاں یہ لوگ شمالی وزیرستان وغیرہ کے علاقوں میں بھی منتقل ہو گئے اگر حالیہ ڈویلپمنٹ کو دیکھا جائے تو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب ملا فضل اللہ تحریک طالبان پاکستان کے امیر بنے تو اس وقت سے ہی طالبان کے مختلف دھڑوں میں ایک دراڑ بنتی دکھائی دینے لگی تھی اور اس وقت بھی عصمت اللہ معاویہ نے ملا فضل اللہ سے تھوڑا فاصلہ رکھنا شروع کر دیا تھا۔

اور پھر جب پاکستان کی موجودہ حکومت نے ستمبر 2013ء میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں تمام عسکری قیادت نے بھی شرکت کی اور اس کانفرنس میں جب کہا گیا طالبان سے پہلے مذاکرات کئے جائیں۔ تو اس وقت طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات سامنے آئے کیونکہ کچھ دھڑے مذاکرات کے حق میں تھے اور کچھ اس کی مخالفت کر رہے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس وقت بڑا مؤثر کردار ادا کیا اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کیا اور انکو توڑا۔

اور پھر جب پاک فوج نے ’’ضرب عضب‘‘ شروع کیا تو مولوی فضل اللہ افغانستان جاکر بیٹھ گیا اور تمام دھڑوں سے دور ہوگیا یہاں تک کہ آپس میں ان کا رابطہ رہنا بھی مشکل ہوتا گیا۔ تو اس لحاظ سے ہماری پاک فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے ضرب عضب میںان کی کمر توڑی اور یہ لوگ منتشر ہونے پر مجبور ہو گئے۔ بہر حال اب عصمت اللہ معاویہ کا جو بیان سامنے آیا ہے وہ بڑا خوش آئند ہے۔ البتہ اسے پہلے دیکھنا ہو گا کہ کس حد تک ان لوگوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔

مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ان پر نظر رکھنا ہو گی کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے‘ واقعی اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے یا نہیں اور اگر واقعی پوری طرح سے عملدرآمد ہو رہا ہے تو پھر ان لوگوں کو پاکستان میں بسنے دینا چاہئے۔ خاص طور پر ایسے لوگ جو براہ راست کسی طرح کے واقعات میں مطلوب نہیں ہیں‘ انہیں بار بار تنگ نہیں کرنا چاہئے اور انہیںدوبارہ اس آگ میں نہیں دھکیلنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پنجاب میں اور کراچی میں فرقہ وارانہ واقعات میں کمی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ واقعی یہ لوگ اپنی باتوں پر قائم ہیں اور ان پر عملدرآمد کر رہے ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس کامیابی کو حاصل کرنے میں ہماری سیاسی جماعتوں‘ ہماری حکومت اور خصوصاً ہماری پاک فوج اور دیگر عسکری اداروں کا بہت بڑا کردار ہے۔ کیونکہ خصوصاً پاک فوج کے جوانوں نے جس طرح بہادری سے اس جنگ میں اپنی جانوں کی قربانی دی ہے اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ انہی وجوہات کی بناء پر اب طالبان کے مختلف دھڑے تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کا اعلان کر رہے ہیں اور آپ دیکھیں کہ عصمت اللہ معاویہ کے بعد اب بیت اللہ محسود گروپ نے بھی ملا فضل ا للہ سے دور رہنے اور فاصلہ رکھنے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ ان کے گروپ کی جانب سے تو باقاعدہ پمفلٹ بھی جاری کیا گیا ہے کہ خودکش حملے حرام ہیں۔تو میرے خیال میں یہ بہت زبردست تبدیلی ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ پنجابی طالبان اور دیگر گروپوں کی جانب سے اس طرح کے اقدامات کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہونگے ۔ کیونکہ اگر ہمارے دشمن کم سے کم ہوتے جائیں گے تو یہ پاکستان کے لئے بہت خوش آئند بات ہو گی۔ ایک اور قابل ذکر بات ہے کہ عصمت اللہ معاویہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کبھی کوئی ریاست اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کسی دوسرے ملک میں کارروائیوں کے لئے اس کی سرزمین استعمال کی جائے۔ اس لئے ان لوگوں کو اس بات سے بھی پیچھے ہٹنا ہوگا۔

البتہ انہوں نے جوکہا ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام کی طرف آنے کے لئے دعوت وتبلیغ کا کام کریں گے تو یہ بہت اچھا طریقہ ہے۔ انہیں نہ صرف اس طریقے سے میدان میں آنا چاہئے بلکہ میں تو کہوں گا کہ انہیں سیاسی طور پر بھی میدان میں آنا چاہئے اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔ اس لحاظ سے یہ باتیںدہشت گردی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے بھی بہتر ہیںبلکہ یہاں کی خراب معاشی صورتحال کو سنبھالا دینے کے لئے بھی بہتر ثابت ہو سکتی ہیں۔

علامہ راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ)

ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور ہم ایک ہی نقطہ نظر کے حوالے سے اپنی بات پہلے بھی کرتے رہے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ہمیں اسکے نتیجے میں بہت بڑے نقصا ن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔مگر اسکے باوجود ہمارا موقف آج بھی وہی ہے کہ ایسے تمام لوگ جو ملک کے آئین اور قانون سے اپنے آپکو ماورا سمجھتے ہوئے اس قسم کی جہادی کاروائیوں کو اپنے لیے جائز سمجھتے ہیں ،انکا سرنڈر کرنا بلا شبہ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ان کے  اس اقدام کی کیفیت کیا ہوگی۔

وہ کس طریقے سے اپنے آپ کو نارملائز کریں گے، وہ کس طریقے سے اپنے آپ کو دوبارہ عامتہ الناس میں لے کے آئیں گے اور کیا عوام انہیں ایک عام شہری کے طور پر قبول کرنے کو تیار بھی ہونگے یا نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب میرا خیال ہے فوری طور پر شاید نہ مل سکیں بلکہ کچھ عرصہ کے بعد شاید ان کے  جواب سامنے آسکیں ۔ اسکے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب بھی کوئی سرنڈر کرتا ہے تو اپنے تمام اثاثہ جات کے ساتھ سرنڈر کرتا ہے۔

اس لحاظ سے یہ دیکھنا ہوگا کہ ان لوگوں کے جتنے بھی پکٹس ہیں جہاں انکا اسلحہ موجود ہے،جہاں ان کے  دیگر ساتھی موجود ہیں،کیا یہ تمام پکٹس ،اسلحہ وغیرہ حکومت یا متعلقہ ایجنسیوں کے قبضے میں آگئی ہیں لہٰذا ہمیں اس نئی صورتحال کا بڑی سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا کہ اس کے مستقبل میں نتائج کیا نکلیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو بیان سامنے آیا ہے اس کے مطابق ملا فضل اللہ پر مختلف قسم کے الزامات بھی لگائے گئے کہ وہ بھتہ خوری اور اغواء جیسے معاملات میں ملوث ہے۔جتنے بھی مختلف گروپ جو کسی نہ کسی جماعت سے منسلک رہے ہوں مالی ذرائع حاصل کرنے کیلئے یہ سارے کام کرتے رہے ہیں۔

کیا یہ بعید نہیں ہے کہ تحریک طالبان پنجاب نے بھی یہ سارے کام کیے ہوں؟ جو الزام دوسروں پر لگائے جا رہے ہیں اس میں خود بھی شریک کار رہے ہوں، انکی کلیئرنس کیسے ہوگی؟ اہم بات یہ ہے کہ پنجابی طالبان نے پاکستان میں رہتے ہوئے پاکستان سے باہر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی بات کی ہے۔ دوسرے ممالک پہلے ہی یہ بات کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کی جارہی ہے۔ چونکہ ا نکا تعلق سنٹرل پنجاب سے ہے لہٰذا ہمیں خصوصی طور پہ ان پر نظر رکھنی ہوگی کہ ان کے  عزائم کیا ہیں اور انہیں کیسے روکا جا سکتا ہے۔

پنجابی طالبان کا سرنڈر کرنا پاک فوج اور حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔مزید پیش رفت یہ ہونی چاہیے کہ یہ اس بات کا اقرار کریں کہ ہم کسی بھی ملک میں جاکر کاروائی نہیں کریں گے۔ماضی میں ان لوگوں نے حکومت پاکستان، حساس اداروں، پولیس و دیگر حفاظتی اداروں پر حملے کیے اور نقصان پہنچایا۔اس حوالے سے ان سے کس طریقے سے نپٹا جائے گا۔ دعوت و تبلیغ کا کام کرنے کیلئے جب یہ معاشرے میں نکلیں گے تو اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔

لہٰذا اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ اس راستے پر نہیں چلیں گے جس پر یہ پہلے سے موجودرہے ہیں۔آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے جن لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے ان کے نقصان کی تلافی کیسے ہوگی؟ حکومت نے ان کے خلاف جو مقدمات قائم کر رکھے ہیں کیا وہ ختم کر دیے جائیں گے؟ ان سوالات کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں ہے وقت کے ساتھ سب واضح ہو جائے گا۔لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ ایک دہشت گرد جماعت نے اپنی کارروائیوں کو غلط سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو روکنے کی کوشش کی ہے جس سے پاکستان خصوصاً پنجاب کے لوگوں کو سکون حاصل ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔