اس مرتبہ گیم بالکل مختلف ہے

نصرت جاوید  جمعـء 26 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ان دنوں میرے تمام کالم صرف ایک بنیادی بات کو بیان کرنا چاہ رہے ہیں اور وہ یہ کہ نواز شریف کی تیسری حکومت کو اس Establishment سے خطرہ نہیں جس کا ذکر 1990کی دہائی سے ہمارے ملک میں ایک مخصوص ادارے کے حوالے سے ہو رہا ہے۔ ان کے اصل مسائل ’’اشرافیہ‘‘ کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں اور میں اس اصطلاح کا ذکر کرتے ہوئے ملک کے ان تمام تر طاقتور حلقوں کو ذہن میں رکھتا ہوں جن کا تعلق ہماری ریاست کے دائمی اداروں تک محدود نہیں۔

تخریب کاروں کی طرح ’’اشرافیہ‘‘ کی  ایک Non State Category  بھی ہوتی ہے۔ اس کا تعلق ملٹی نیشنل کاروباری اداروں سے شروع ہو کر مقامی صنعت کاروں، پراپرٹی مافیا اور اشیائے صرف سے متعلق کئی اجارہ دار سرمایہ داروں تک پھیلا ہوا ہے۔ سیاسی حوالوں سے جب جمہوری نظام کی بات آتی ہے تو ہماری توجہ خود بخود پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب کی طرف لوٹ جاتی ہے۔

1985سے ریاست کے دائمی اداروں کی سرپرستی میں نواز شریف نے اس صوبے پر اپنا کنٹرول جمایا تھا۔ اسی کنٹرول کی بدولت وہ 1990 کے انتخابات کے بعد اس ملک کے پہلی بار وزیر اعظم بن جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے باہم مل کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو ’’سیکیورٹی رسک‘‘ قرار دے کر فارغ کروایا تھا۔ محترمہ کے خلاف سازشی جال بچھاتے وقت مگر ان دونوں کو ہمیشہ خوف ’’سندھ کارڈ‘‘ کا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے پہلے اس کارڈ کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ بھٹو نے بلکہ بڑی جانفشانی سے اس کارڈ کو کند کر دیا تھا۔

ان کی اسی Contribution کی وجہ سے جی ایم سید نے بھٹو کو مرتے دم تک معاف نہیں کیا تھا۔ جی ایم سید کو ہمارے نام نہاد محب وطن پارسا ہمیشہ ’’غدار‘‘ وغیرہ پکارتے رہے ہیں۔ مگر 5جولائی 1977 کے بعد جنوبی ایشیاء کے ایک عظیم ’’مجاہد اسلام‘‘ اور ’’فاتح افغانستان‘‘ جناب غازی ضیاء الحق شہید جی ایم سید کو مسلسل پھولوں کے گلدستے بھجواتے رہے۔ صرف اس وجہ سے کہ ان دونوں کا دشمن یعنی ذوالفقار علی بھٹو سانجھا تھا۔ غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ کو یہ خدشہ تھا کہ اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کو یک دم غیر سیاسی اقدامات کے ذریعے فارغ کر دیا گیا تو ’’سندھ کارڈ‘‘ متحرک ہو جائے گا۔ اس کارڈ کے احیاء کی پیش بندی کے لیے غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کو غلام مصطفیٰ کھر کی وساطت سے کوٹ ادو کے ایک حلقے سے منتخب کروا کر قومی اسمبلی میں لایا گیا۔

ان کے اسمبلی میں آنے سے پہلے خواجہ غلام حیدر وائیں ایوان میں قائدِ حزب اختلاف ہوا کرتے تھے۔ جیسے ہی جتوئی مرحوم وہاں پہنچے، راتوں رات ایک ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ بن گئی۔ پیپلز پارٹی کی ہر مخالف جماعت اور آزاد اراکین اس کا بخوشی حصہ بن گئے۔ جتوئی صاحب بآسانی اس کے قائد منتخب ہو گئے۔ ان ہی کی کاوشوں سے محترمہ کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ جتوئی مرحوم اور ان کے وفادار نجی محفلوں میں یہ اصرار کرتے رہے کہ نواز شریف نے اس تحریک کا ’’دل سے‘‘ ساتھ نہیں دیا تھا۔ اسی لیے وہ ناکام ہو گئی۔ اس تحریک کی ناکامی کے بعد غلام اسحاق خان کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو کرپشن وغیرہ کے الزامات کے تحت برطرف کرنے کے سوا اور کوئی راستہ ہی باقی نہ بچا۔ 6 اگست 1990 کو جب حکومت اور قومی اسمبلی برطرف ہوئی تو غلام مصطفیٰ جتوئی قائم مقام وزیر اعظم بنائے گئے۔ اسی لیے یہ فرض بھی کر لیا گیا کہ 1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے بعد نئی حکومت کے سربراہ وہی رہیں گے۔

1990 کے انتخابات میں مگر پیپلز پارٹی مخالف امیدوار سب سے زیادہ پنجاب سے کامیاب ہوئے تھے۔ وہ سب اپنی کامیابی کی اصل وجہ نواز شریف کو تسلیم کرتے رہے۔ ان ہی کی طرف سے آواز اٹھی کہ وزارتِ عظمیٰ ان کا حق بنتا ہے۔ غلام اسحاق خان مگر کئی دنوں تک ہچکچاتے رہے۔ وہ بالآخر اس وقت مجبور ہو گئے جب ریاست کے چند دائمی اداروں کے ذریعے انھیں سمجھایا گیا کہ اگر نواز شریف کو وزیر اعظم نہ بنایا گیا تو وہ ’’پنجاب کے شیخ مجیب الرحمن‘‘ بن سکتے ہیں۔ جنرل حمید گل اللہ کے فضل سے آج بھی زندہ ہیں اور ذہنی طور پر بڑے چوکس بھی۔ اپنے کسی فیاض لمحے میں یہ ساری کہانی آپ کو مجھ سے کہیں بہتر انداز میں سنا سکتے ہیں۔

نواز شریف نے مگر وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے صرف تین ماہ بعد ہی غلام اسحاق خان کو یہ سمجھا دیا کہ ’’پنجاب سے آیا ایک صنعت کار‘‘ ہماری ریاستی اشرافیہ کے ایک محترم ’’بابے‘‘ کے اشاروں پر نہیں چلے گا ’’اپنی مرضی‘‘ کرے گا۔ غلام اسحاق خان کی مگر مجبوری یہ بھی تھی کہ 1990میں ایک وزیر اعظم اور اسمبلی کو برطرف کرنے کے چند ہی ماہ بعد وہ ایک اور وزیر اعظم کو 58(2)B  کے دیے اختیارات استعمال کرتے ہوئے برطرف نہیں کرنا چاہتے تھے۔ غلام اسحاق خان نے بڑی سنجیدگی سے کوشش کی کہ جنرل ضیاء کے برطرف کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے سر پر دستِ شفقت رکھ دیا جائے۔

جونیجو صاحب 1990 کی اسمبلی کے رکن ضرور تھے مگر انھیں اس ایوان میں کوئی خاص اہمیت نہیں ملا کرتی تھی۔ صدارتی محل سے اشارہ ہوا تو ان کے اردگرد لوگ جمع ہونا شروع ہو گئے۔ غلام اسحاق خان کو لیکن ایک بار پھر یاد دلا دیا گیا کہ پنجابی (نوازشریف) کو ہٹا کر سندھی (محمد خان جونیجو) کو لایا گیا تو ’’پنجاب کارڈ‘‘ پیدا ہو سکتا ہے۔ ’’پنجاب کارڈ‘‘ کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے دستِ شفقت محمد خان جونیجو مرحوم کے سر سے ہٹا کر حامد ناصر چٹھہ کے سر پر رکھ دیا گیا۔ اخبارات میں ’’اچانک‘‘ ایسی کہانیوں کا سیلاب اُمڈ آیا جن کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ پنجاب کا یہ جاٹ یعنی چٹھہ صاحب کتنے ایماندار اور صاف ستھرے آدمی ہیں۔

چٹھہ صاحب کی ایمان داری پر شک کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مگر مسئلہ ان کا یہ بھی تھا کہ اپنی والدہ کے اکلوتے اور بہت ہی لاڈلے بیٹے ہوتے ہوئے وہ لوگوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ صبح بہت دیر سے سو کر اُٹھتے۔ دوپہر تک سلیپنگ سوٹ میں ملبوس اپنے کمرے میں بیٹھے ٹیلی وژن دیکھتے رہتے یا وڈیو گیمز سے دل بہلانے میں مصروف۔ لوگوں سے وہ اکثر دوپہر کے کھانے کے بعد ملتے اور عصر کے قریب ان کا قیلولہ شروع ہو جاتا۔ نواز شریف کا تختہ الٹانے کے لیے ایک متحرک اور مسلسل سازشوں میں مصروف شخص کی اشد ضرورت تھی۔ چٹھہ صاحب یہ سب کر ہی نہیں سکتے تھے۔ مجبوراََ غلام اسحاق خان مرحوم کو پیرپگاڑا کی ذہانت سے رجوع کرنا پڑا۔ وہ مگر ایک حد سے زیادہ مددگار ثابت نہیں ہو سکتے تھے۔

پیپلز پارٹی میں ’’دوست‘‘ ڈھونڈنا بھی غلام اسحاق خان کی مجبوری بن گئی اور یہاں اصل بریک تھرو جہلم کے ذہین و فطین مگر ٹھنڈے ٹھار چوہدری الطاف حسین مرحوم نے ڈیلیور کر کے دیا۔ سردار فاروق خان لغاری کا دل جیتنے کے لیے بیوروکریٹک روابط استعمال ہوئے کیونکہ مرحوم ایک زمانے میں DMG افسر بھی رہے تھے۔ آفتاب شیر پاؤ کا دل ان دنوں جمہوریت اور آزادی کے سب سے بلند آہنگ پروموٹر بنے روئیداد خان کی پشتو میں ہوئی گفت گو سے جیتا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو مگر آخری دم تک دل سے غلام اسحاق خان کا ساتھ نہیں دینا چاہتی تھیں۔

آصف علی زرداری کو مسلسل جیل میں رکھنے کی وجہ سے وہ مگر مجبور ہو گئیں۔ انھوں نے نواز شریف کے خلاف کھل کر آنے کا فیصلہ کیا تو غلام اسحاق خان نے اپریل 1992 میں نواز حکومت کو برطرف کر دیا۔ قائم مقام وزیر اعظم انھوں نے مگر میر بلخ شیر مزاری کو بنایا جن کے تقرر سے جتوئی مرحوم سے لے کر محترمہ تک ہر کوئی نواز مخالف غلام اسحاق خان کے ’’اصل ارادوں‘‘ کے بارے میں شک و شبے میں مبتلا ہو گیا۔ شک و شبے کی اس فضا نے نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ کو نواز حکومت کی برطرفی کے خلاف ’’تاریخی فیصلہ‘‘ دینے کا حوصلہ بخشا اور بالآخر نواز شریف سے جان چھڑانے کے لیے ’’کاکڑ فارمولا‘‘ استعمال کرنا پڑا۔

اس فارمولے کی بدولت محترمہ 1993 میں دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں۔ مگر3 سال بعد ان کے اپنے ’’فاروق بھائی‘‘ نے بطور صدر انھیں فارغ کر دیا اور نواز شریف ’’بھاری مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ دوسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ ان سے 1999 میں جان جنرل مشرف نے براہِ راست حکومت سنبھال کر چھڑوائی۔ اب نواز شریف کی تیسری ’’باری‘‘ ہے۔ اس مرتبہ گیم بالکل مختلف ہے۔ اسے پوری طرح سمجھے بغیر بات آگے نہیں بڑھ پائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔