(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - فیس بک کا جگا ٹیکس

محمد عثمان فاروق  جمعـء 26 ستمبر 2014
ایک افواہ کے مطابق اب فیس بک استعمال کرنے کے لیے ہمیں ماہانہ 3 ڈالر دینے ہونگے یہ تو وہی بات ہوگئی کہ وہ جس تھالی میں کھاتے تھے اُسی میں چھید کردیا ۔۔۔۔ اِس سے بہتر تھا کہ ہم اپنا فیس بک بنا لیتے نہ کسی کا محتاج ہونا پڑتا اور حکومتی کمائی الگ ہوتی۔ فوٹو: ایکسپریس

ایک افواہ کے مطابق اب فیس بک استعمال کرنے کے لیے ہمیں ماہانہ 3 ڈالر دینے ہونگے یہ تو وہی بات ہوگئی کہ وہ جس تھالی میں کھاتے تھے اُسی میں چھید کردیا ۔۔۔۔ اِس سے بہتر تھا کہ ہم اپنا فیس بک بنا لیتے نہ کسی کا محتاج ہونا پڑتا اور حکومتی کمائی الگ ہوتی۔ فوٹو: ایکسپریس

آج کل ایک افواہ ہم بھی سن رہے اور آپ بھی سن رہے ہونگے ۔۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ کہا جارہا ہے کہ نومبر سے مشہور سوشل میڈیا ویب سائیٹ فیس بک مفت نہیں رہے گی ۔ اب اِس سوشل ویب سائٹ کو استعمال کرنے والوں کو ماہانہ 3 ڈالر ادا کرنے ہونگے۔

میرے لیے یہ خبر نہایت حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فیس بک پر جب بھی کوئی اکاونٹ بنتا ہے تو   اِس سوشل میڈیا  ویب سائٹ کو استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہے اور یوں فیس بک کے بزنس میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن جناب جن صارفین کی وجہ سے فیس بک کا شمار آج دنیا کی سب سے مقبول اور پیسہ کمانے والی ویب سائیٹس میں ہوتا ہے اور جن صارفین کی وجہ سے اِس سوشل میڈیا  ویب سائٹ کے مالک مارک زکربرگ کو کھرب پتی بنادیا ہے لیکن اب انہی صارفین کی جیب کترنے کا منصوبہ بن چکا ہے۔

یہ خبر سن کر مجھے بی بی سی کی وہ ڈاکو منٹری یاد آگئی جس میں ہندوستان کے کسی بڑے مندر کے سامنے ایک عورت گائے اور چارہ رکھ کر بیٹھی ہوتی ہے ۔ عقیدت مند ہندو آتے اور عورت کو رقم ادا کرکے چارہ خریدتے اور گائے کو کھلاتے تھے۔ اس پر بی بی سی کے نمائندے نے بڑا شاندار تبصرہ کیا اور کہا کہ یہ عورت دنیا کا سب سے کامیاب ترین بزنس کررہی ہے اور وہ ایسے کہ گائے بھی عورت کی ہے چارہ بھی عورت کا ہے اور اس گائے کو چارہ کھلانے کی ذمہ داری بھی عورت کی ہے لیکن کمال کی بات یہ  کہ لوگ اس عورت سے چارہ خریدتے ہیں اور اسی کی گائے کو کھلا دیتے ہیں ۔  کچھ اسی طرح کا کام اب فیس بک کرنے جا رہی ہے کہ جن صارفین کی وجہ سے فیس بک بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے اربوں کے اشتہارات لیتی ہے اب انہی کی جیب سے پیسے بھی نکلوائے جائیں گے ۔

سوال یہ ہے کہ فیس بک کو اتنا یقین کیوں ہے اگر وہ فیس بک کے استعما ل کرنے کے لیے صارفین پر ٹیکس عائد کرے گی تب بھی لوگ اِس ویب سائٹ کو استعمال کرتے رہینگے ؟ اسکے لیے آپکو فیس بک کے مزاج کو سمجھنا پڑے گا ۔ فیس بک دراصل ایک جادو اور کمال کا آئیڈیا ہے ۔ کسی بھی انسان کی پوری شخصیت کسی کھلی کتاب کی طرح اسکا فیس بک اکاونٹ دیکھ کر سمجھی جا سکتی ہے ۔ لوگ جو باتیں اپنے رازدان ترین لوگوں کو بھی بتانا نہیں پسند کرتے وہ فیس بک پر ایسے آرام سے کسی بھی انجان بندے سے کہہ دیتے ہیں جیسے  کوئی مسئلہ ہی نہ ہو ۔ آپکو کھانے میں کیا پسند ہے ؟ آپ کپڑے کیسے پہنتے ہیں؟ کونسا میوزک سنتے ہیں؟آپکا مذہبی اورسیاسی رجحان کیا ہے؟ آپ سوتے کب ہیں؟ کب اٹھتے ہیں؟ جبکہ صارفین کی بہت بڑی تعداد نے اپنے کاروبار کو پھیلانے کے لیے اِس ویب سائٹ کو بہت  مثبت طور سے استعمال کیا ہے۔  بات یہاں ختم تو نہیں ہوتی؟ کیونکہ حالات بدل چکے ہیں اور آجکل تو رشتہ دیکھنے والےاکثرلڑکایا لڑکی کودیکھنےسے پہلےاسکافیس بک اکاونٹ مانگتے ہیں۔ اکثر جگہوں پر نوکری کے لیے اپلائی کریں توباقاعدہ انکی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ اپنا فیس بک آئی ڈی بھی بتائیں ۔ گویا جب فیس بک کی عادت  لوگوں کی زندگیوں میں کسی اپنے کی طرح شامل ہوچکی ہے جس مثبت پہلو تو ہیں ہی مگر منفی پہلووں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اُس کے باوجود لوگ اِس عادت کو فی الحال چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور یہی  وہ حقیقت ہے جو شاید فیس بک چلانے والے شاطر دماغوں کو پتا چل گئی ہے ۔

اسےآپ سرمایہ دارانہ نظام کا حسن بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک چیز اگر آپکی ضرورت نہیں بھی ہے تو اسکی اسطرح پبلسٹی کی جاتی ہے کہ عوام کو لگتا ہے یہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے اور عوام اسکو خریدنے کے لیے رقم خرچ کرنے پر بھی راضی ہوجاتی ہے۔ لیکن ایسے لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ چین ایران اور دنیا کے بہت سے ممالک میں فیس بک اور ٹوئیٹر جیسی اکثر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پابندی عائد ہے مگر یاد رہے کہ وہاں کے لوگ زندہ بھی ہیں اور خوش بھی۔

یہاں رہنے والے لوگ صرف خوش ہی نہیں بلکہ خوشحال بھی ہیں ۔۔۔۔ کیوں ہوگئے پریشان؟ جی بالکل خوشحال بھی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے ممالک نے غیرملکی ویب سائٹس پر پابندی عائد کرکے اپنی سرکاری سوشل میڈیا ویب سائیٹس بنائی ہوئی ہیں جن کا فائدہ ان ممالک  کو یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف ان سائیٹس سے حاصل ہونے والی آمدن ملک کے اندر رہتی ہے بلکہ اگر کوئی ناپسندیدہ مواد ان ویب سائیٹس پہ ہو تو اسکو ہٹوانے کے لیے کسی غیرملکی کمپنی کے ترلے نہیں کرنے پڑتے۔ اب  ذرا سوچیئے کہ  اِس وقت فیس بک پر پاکستان کے کئی ملین صارفین ہیں جن کی بدولت فیس بک والے  اربوں ڈالر کمارہے ہیں  مگر پھر بھی ہم پر ٹیکس لگانے پر تلے ہیں یہ تو وہی بات ہوگئی کہ جس تھالی میں کھاتے ہیں  اُسی میں چھید کرتے ہیں۔

ایسی صورتحال کے بعد کیا ہی اچھا ہو کہ چین اور ایران کی طرح ہم بھی فیس بک کی جگہ اپنی سرکاری فیس بک چلائیں جس سے نہ صرف پاکستان کو آمدن حاصل ہو بلکہ کوئی بھی ناپسندیدہ مواد ہٹوانے کے لیے کسی کے ترلے بھی نہ کرنے پڑیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔