کھیل لمبا ہو گیا ہے

نصرت جاوید  ہفتہ 27 ستمبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ عمران خان، منیرؔ نیازی کی ذات اور کلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ ان کی سیاست کا انداز مگر ان کی شاعری سے کافی متاثر نظر آتا ہے۔ شاعر نیازی کو ہمارے قدیم شہر آسیب زدہ اور بدشکل لوگوں سے بھرے نظر آتے تھے۔ اسی لیے ’’شہر سنگدل‘‘ کو تباہ کرنے کے بعد وہ نئی بستیاں آباد کرنے کی خواہش میں مبتلا رہے۔ سیاست دان نیازی کو ’’پرانا پاکستان‘‘ نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کی سفاک گرفت میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے۔

وہ اس کی جگہ اقبالؔ کے شاہینوں کا ’’نیا پاکستان‘‘ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لگن میں مبتلا ہوئے کئی دنوں سے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک کے تمام نجی چینل دن میں کئی بار اپنی معمول کی نشریات روک کر انھیں خلقِ خدا سے مکالمہ کرتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ اس مکالمے کی وجہ سے اپنے گھروں میں بیٹھے لوگ بھی ’’نئے پاکستان‘‘ کے مجوزہ خدوخال پر غور کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کوئی پسند کرے یا نہیں عمران خان کا مرتب کردہ ’’بیانیہ‘‘ اب گھر گھر پہنچ چکا ہے۔ صحافیوں اور تبصرہ نگاروں میں اس بیانیہ کا تنقیدی جائزہ لے کر نسبتاََ غیر جانبدارانہ انداز میں بیان کرنے کی جرأت باقی نہیں رہی۔ وجہ ان کی وہ خوف ہے جو ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کی مسلسل مذمت کی وجہ سے عمران خان نے ان کے دلوں میں پیدا کر دیا ہے۔

منیرؔ نیازی نے بھی اپنے ایک مصرعے میں ’’لوگوں کو ان کے گھر میں ڈرا دینا چاہیے‘‘ کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ بے چارے تو اس خواہش کو پورا ہوتا نہ دیکھ پائے مگر عمران خان نے ’’لفافہ صحافیوں‘‘ کے تذکرے سے اپنا مقصد ضرور حاصل کر لیا ہے۔ ’’معروضی اور متوازن‘‘ نظر آنے کی تمنا میں اب صحافیوں اور تبصرہ نگاروں کی اکثریت بتدریج یہ اعتراف کرنا شروع ہو گئی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان نے ہماری سیاست کے بارے میں لوگوں کو بنیادی سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ 30 سالوں سے باریاں لینے والے نااہل، بزدل اور بدعنوان سیاست دان ان سوالات کے مناسب جوابات تو کیا دیتے ان کا سامنا کرنے سے بھی کترانا شروع ہو گئے ہیں۔

میرا ذاتی مسئلہ مگر یہ ہے کہ مجھے سوالات اٹھانے کی دائمی بیماری لاحق ہے۔ اپنے اس ناقابل علاج مرض کی وجہ سے میں اکثر عمران خان کی سیاست کے بارے میں بھی سوالات اٹھاتا رہتا ہوں۔ عالمی اور مقامی سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میرا ہمیشہ سے یہ اصرار بھی رہا ہے کہ سیاست بنیادی طور پر چند اہداف متعین کر کے انھیں حاصل کرنے کا کھیل ہے۔ اپنی اس رائے کی بدولت میں یہ کہتا رہا کہ قومی اسمبلی کے چار حلقوں کے انتخابی نتائج کی مکمل چھان بین کا مطالبہ درحقیقت پاکستان میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنے کی خاطر بلند کیا جا رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر یہ مطالبہ غیر آئینی اور ناجائز وغیرہ بھی کبھی نہیں لگا۔ سیاست بنیادی طور پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے اختیار شدہ داؤ پیچ کا نام ہے اور ہر وہ سیاست دان جسے عوامی مقبولیت کا زعم ہو جلد از جلد ریاستی قوت و اختیار کا مالک بننا چاہتا ہے۔

عمران خان یہی سب کرتے مجھے کبھی عجیب نظر نہ آئے۔ سیاست میں لیکن صرف اہداف ہی طے نہیں کیے جاتے۔ اصل کھیل ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اپنائی حکمت عملی کی صورت ہمارے سامنے کھل کر آتا ہے۔ نئے انتخابات کے حصول سے پہلے عمران خان کے لیے ضروری تھا کہ وہ مئی 2013ء کے انتخابات کی ساکھ کو مکمل طور پر مشکوک بنا دیتے۔ اپنے اس مقصد کے حصول میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ بحران میں نواز حکومت کی حلیف نظر آتی ہے۔ مگر قمر زمان کائرہ اور ندیم افضل چن کی ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو سنیں تو مئی 2013ء کے انتخابی عمل کے بارے میں شکوک و شبہات شدید تر ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔

چوہدری اعتزاز احسن کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ہوئی تقریر بھی ان شکوک کا ایک بھرپور دفاع تھا۔ ’’سیاسی جرگے‘‘ کے نام پر چند ’’جمہوریت دوست‘‘ سیاست دانوں کی آنیاں جانیاں بھی اصل میں نواز حکومت کو یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرنا چاہ رہی ہیں کہ چند اختصاصی حلقوں کے انتخابی نتائج کا سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل ایک بنچ کڑا جائزہ لے۔ اگر ان حلقوں میں دھاندلی کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہو کر نئے انتخابات کی راہ ہموار کریں۔ مئی 2013ء کے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دینے کی یہ سب سے ہنر مند ترکیب ہے۔

اسی لیے تو اپنی تندوتیز تقاریر کے باوجود تحریک انصاف کے رہ نما ’’سیاسی جرگے‘‘ میں شامل لوگوں سے مذاکرات میں مسلسل مصروف رہے ہیں۔ عمران خان مگر ’’سیاسی جرگے‘‘ کی اس گہری واردات کو پوری طرح سراہنے کو تیار نہیں ہو رہے۔ نواز شریف سے فوری استعفیٰ حاصل کرنے پر بضد ہیں۔ اس ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک مرتبہ ’’ایمپائر‘‘ کی اُنگلی اٹھنے کی تمنا کا اظہار بھی کر بیٹھے اور اس تمنا نے سیاسی جرگے میں شامل ’’جمہوریت دوستوں‘‘ کو پریشان کر ڈالا اور وہ کچھ دیر کو مذاکراتی عمل سے الگ ہو گئے۔

بہرحال عمران خان اپنی سیاسی گیم کا پہلا راؤنڈ یعنی مئی 2013ء کے انتخابات کی ساکھ کو زک پہنچانا جیت چکے ہیں۔ اب راؤنڈ دوسرا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس راؤنڈ کے دوران نواز شریف اب اپنی ضد دکھائیں گے۔ کھیلنے کو کچھ کارڈ ان کے پاس اب بھی موجود ہیں۔ ان میں سے چند وہ نیویارک سے وطن واپسی کے بعد میز پر ہر صورت پھینکیں گے۔ شاید ان ہی کارڈز کے تدارک کے لیے عمران خان نے اتوار کو تخت لہور کے گڑھ میں جا کر اپنا جلوہ دکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے نتائج حاصل نہ ہوئے تو رحیم یار خان سے لے کر اٹک تک کئی بڑے شہر ہیں جہاں ہفتہ وار جلسوں کے ذریعے عمران خان اپنے بیانیے میں مزید شدت و توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسرا راؤنڈ ان جلسوں کی وجہ سے اب تک ہوئے پہلے راؤنڈ سے بھی طویل تر ہو سکتا ہے۔

نواز شریف کا استعفیٰ شاید اس راؤنڈ کے اختتام پر بھی نہ ملے۔ مگر اس راؤنڈ کی طوالت نواز حکومت کو مزید کمزور ضرور کر دے گی۔ خلقِ خدا کو نواز شریف کے ’’مینڈیٹ‘‘ کی صداقت سے خاص سروکار نہیں۔ اسے سستی اور مسلسل بجلی درکار ہے۔ سردیوں میں گیس کا بحران شدید تر ہوا تو حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو جائے گا۔ بیرونی سرمایہ کاری اب چین سے آنا بھی مشکل نظر آ رہی ہے۔ IMF سے کیے وعدے نبھانا بھی اب ممکن نہیں رہا۔ امریکا افغانستان سے جان چھڑا رہا ہے۔ اس لیے Coalition Support Fund والے ڈالر بھی 2015ء کے آغاز سے ملنا بند ہو جائیں گے۔ ان تمام حالات کے بعد احتجاجی تحریک شدید سے شدید تر ہوتی چلی جائے گی۔ ’’دیوار سے لگے ہوئے‘‘ نواز شریف استعفیٰ مگر پھر بھی نہیں دیں گے۔ ان سے استعفیٰ ’’کوئی اور‘‘ ہی لے سکتا ہے۔ عمران خان سمیت سارے سیاستدان مل کر بھی نہیں۔

مستقبل میں کیا ہونا ہے یا ہو سکتا ہے اس کا ذکر فی الوقت غیر ضروری ہے۔ مجھے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو یاد صرف اتنا دلانا ہے کہ 17 جون کے ماڈل ٹاؤن والے واقعہ کے بعد کم از کم تخت لہور کو شہباز شریف سے آزاد کروانا بالکل ممکن دِکھ رہا تھا۔ اگر یہ دونوں حضرات صرف اس ہدف پر اپنی ساری قوت مرکوز رکھتے تو اسلام آباد آنا چند روز کے لیے بآسانی مؤخر کیا جا سکتا تھا۔ شہباز شریف کے بغیر نواز شریف خود کو اسلام آباد میں کافی تنہاء اور بے بس محسوس کرتے۔ عمران خان اور طاہر القادری نے نواز شریف کے اس Strategic Asset کو تباہ کرنے پر کوئی توجہ ہی نہ دی۔ براہِ راست نواز شریف کو نشانہ بنانے اسلام آباد آ گئے اور کھیل لمبا ہو گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔