نئے صوبے اور آئینی تقاضے

جاوید قاضی  ہفتہ 27 ستمبر 2014
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یہ سب کا آئینی حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کریں اور یہ بھی لازم ہے ایسے حق رکھنے والوں پر کہ وہ آئینی طریقہ کار سے اپنے مطالبات منوائیں وغیرہ وغیرہ۔ آج کل سندھ کی تقسیم کی بازگشت سننے میں آرہی ہے۔ پھر یہ بھی سننے میں آیا کہ سندھ کی تقسیم نہیں بلکہ انتظامی صوبے بنائے جائیں۔ لاہور سے ہمارے مشہورکالم نگار نے تو ہالینڈ سے لے کر جاپان وغیرہ کی مثالیں بھی دے دیں کہ وہاں اتنی چھوٹی سی آبادی میں اتنے سارے صوبے ہیں تو بیس کروڑ والے پاکستان میں بیس صوبے کیوں نہیں بن سکتے۔

دراصل حقیقت یہ ہے کہ آکسفورڈ ڈکشنری میں صوبہ معنی انتظامی علاقہ، ڈسٹرکٹ یا ڈویژن وغیرہ۔ اور ہالینڈ سے لے کر جاپان وغیرہ کوئی وفاق نہیں بلکہ ایک ہی قوم ہے، ایک ہی زبان ہے وغیرہ۔ جہاں تک امریکا کا تعلق ہے وہاں کوئی 1773 سے لے کر جب وہ نیا آئین لے کر معرض وجود میں آیا کوئی بھی نئی ریاست وغیرہ وجود میں نہیں آئی کچھ سرحدوں کے تبادلے ہوئے ہوں وغیرہ ۔ کیوں کہ امریکا فیڈریشن ہے۔ وہاں کی وفاقی اکائیوں کو ریاست کہا جاتا ہے۔

خود ہندوستان میں بھی صوبوں کو ریاست کہا جاتا ہے اور اگر آئین میں ہمارے ہاں جو آئین میں مانی ہوئی چار اکائیاں ہیں ان کو ریاست کا نام دے کے صوبے کا نام واپس لیا جائے تو ساری بحث یہیں ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس دو درجے کے صوبے بنائے جائیں ایک وفاقی اکائی والا صوبہ اور اس میں انتظامی صوبائیت مبہم سی ہوجائے گی اور آگے چل نہیں پائے گی۔

اس لیے یہ بات پہلے طے کرلیجیے کہ آپ کیا مانگتے ہیں۔ اگر آپ سندھ کی تقسیم مانگتے ہیں تو بے شک آپ مانگیے اور اس کے لیے طریقہ کار موجود ہے آئین کے آرٹیکل 239(4) میں ، یعنی پہلے تو دو تہائی اکثریت والی قرارداد سندھ اسمبلی میں پاس ہو اور پھر ایسی ہی دو تہائی والی قرارداد ایوان اعلیٰ و ایوان بالا دونوں سے پاس ہو۔ دیکھا جائے تو بالکل ہی ناممکن کردیا ہے یہ کام آئین بنانے والوں نے۔ یعنی آئین میں ترمیم تو کی جاسکتی ہے اور ہوئی بھی ہے مگر آئین میں ایسی ترمیم جس سے صوبوں کی وفاقی اکائیوں کی جغرافیائی تبدیلی ہو وہ بالکل ناممکن۔

ہمارے متحدہ کے دوستوں نے ایسی ایک کوشش بھی کی کہ پہلے آئینی ترمیم کا راستہ لے کر آئین میں ایسی ترمیم جس سے صوبوں کا جغرافیہ تبدیل کیا جائے اسے نرم کیا جائے یعنی آرٹیکل 239(4) کو آسان کیا جائے۔ جس کے لیے بیسویں آئینی مینڈیٹ بل 2012 میں لائے بھی جو کہ پرائیویٹ بل تھا اور قومی اسمبلی میں وہ زیر بحث بھی آیا مگر پاس نہ ہوسکا۔ میرے خیال میں آئین میں 239(4) کو آسان کرنے کی گنجائش بھی نہیں۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمارے آئین کی بھی ایک ڈاکٹرائن آف امپلائیڈ لیمیٹیشن ہے۔ سب سے پہلے اس ڈاکٹرین کو امریکا سپریم کورٹ نے ان کے بہت بڑے آئینی کیس Marbury V Madison میں 1818 میں چیف جسٹس سر جان مارشل کی سربراہی میں متعارف کروایا۔ کیونکہ کانگریس وغیرہ نے ترمیم کرکے کورٹ کے Judicial Review کے پاور واپس لے لیے۔ تو کورٹ نے کہا کہ ایسا کام آپ کر بھی نہیں سکتے ۔

جس سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ یا روح وغیرہ کو نقصان پہنچے۔ ہندوستان کے عظیم کیس Kashavanandaمیں1972 میں وہاں کے عظیم آئینی وکیل نانی پالخی والا نے بھی doctrine of Implied Limitationکو اٹھایا اور اندرا گاندھی جس کی پارٹی دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئی تھی اور ایسی ترامیم کر بیٹھی جس سے آئین بنانے والوں کی سوچ کی نفی ہوئی آئین مسخ ہوا اور اس طرح سپریم کورٹ آف انڈیا بھی اپنے آئین کا بنیادی ڈھانچہ دریافت کر بیٹھے۔ ہاں ہم نے بھی اپنے آئین کا بنیادی ڈھانچہ دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ عاصمہ جیلانی کیس سے لے کر علی شاہ کیس تک مگر جب تک نظریہ ضرورت کی تلوار ہم پر لٹکتی رہے گی ہم نہیں کر پائیں گے خواہ مسائل کتنے ہی گھمبیر کیوں نہ ہوجائیں۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چل رہی ہو۔ خیبر پختونخوا زبوں ہو اور فاٹا بربادی کا ڈھیر ۔ ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھ سکتے۔

ذوالفقار علی بھٹو والی اسمبلی جب آئین بنا رہی تھی تو اس کے سامنے یہ ساری حقیقت تھی کہ کس طرح ون یونٹ نے وفاق کمزور کیا، کس طرح پھر جو 23 سالوں میںناانصافی بالآخر 1971 کے سانحے میں شکل بنا کے نمودار ہوئی۔ یہ ہے وہ پس منظر جس کے تحت آرٹیکل 239(4) فراہم کیا گیا۔ پاکستان کے آئین کے اندر اتنی بھرپور فیڈریشن واضح ہوئی کہ شاید ہندوستان بھی نہ ہو۔ لیکن پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ آمریتیں آتی گئیں اور 1973 کے آئین کو مسخ کرتی گئیں۔ بہرحال کوئی بھی اب تک صوبوں کی جغرافیائی وحدتوں کے ساتھ چھیڑ خانی نہیں کرسکا۔

1893 کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے اندر پہلی مرتبہ سندھ ہندوستان کے وفاق کے اندر ایک آزاد حیثیت لے کر نمودار ہوئی، سندھ کو ریاست کا نام دیا گیا اور اس کے حاکم اعلیٰ کو وزیر اعظم کہا جاتا تھا۔ پھر 1940 کی قرارداد میں جب جہاں شیر بنگال فضل الحق جناح کے برابر بیٹھے تھے یہ دو تھے جنھوں نے ایک ساتھ اس اجلاس کی صدارت کی تھی کنفیڈریشن نما مسلمان اکائیوں کا الحاق تجویز دیا تھا تو سندھ سے جی ایم سید بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔ وفاقی اکائیوں کا معنی ہے کہ ایسی اکائیاں جو تاریخی و ثقافتی، زباں و جغرافیائی حساب سے اپنی جداگانہ حیثیت رکھتی ہوں وہ کیوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ سرحدیں وغیرہ رکھتی ہیں یا تاریخی اعتبار سے تعلق رکھتی ہیں ، وفاق کی تشکیل سے منسلک ہیں۔

امریکا کی اس وقت تیرہ ریاستوں نے article of confederationکے تحت اپنی اسمبلیوں سے آئین کو منظور (Ratify) کیا تھا اور اس لیے ان کی جغرافیائی سرحدوں کو اب تک کوئی چھیڑ نہیں سکا کیونکہ انھوں نے متحدہ امریکا کو جنم دیا تھا ناکہ متحدہ امریکا نے ان کو۔ لیکن ہندوستان نے آزادی کے بعد بہت سی ریاستیں بنائیں۔ اس پر ان کے آئین کے ماہر ڈاکٹر باسوکہتے ہیں کہ ہندوستان کی ریاست نے ہندوستان نہیں بنایا۔ وہ اور ہندوستان روز اول سے ایک ساتھ رہے ہیں۔

جب کہ یہ 1590 کا واقعہ ہے جب اکبر اعظم نے بنگال اور سندھ کو ہندوستان میں شامل کیا۔ ٹھٹھہ میں موجود مرزا جانی کی حکومت کو ختم کیا اور سندھ کا الحاق ملتان کے ساتھ کیا۔ اس سے پہلے سندھ آزاد ملک کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پہ رہا ہے۔ قدیم زمانے میں دو ملک تھے بقول مولانا رومی کے یا ہند تھا یا سندھ تھا۔ سندھ وہ ملک تھا جس کی زرخیز وادی پہ سنسکرت اور دنیا کی پہلی کتاب رگ ویدا لکھی گئی۔ 1740 میں سندھ نے پھر دہلی سے آزادی پائی اور یوں 1843 میں چارلس نیپئر نے اسے فتح کیا۔

بمبئی کے ساتھ اس کا الحاق کیا۔ اور پھر 1935 کو انگریز نے نہ صرف سندھ کو بمبئی سے الگ کیا بلکہ آزاد ریاست کی حیثیت بھی دی۔ اسی 1935 گورنمنٹ آف انڈین ایکٹ کو 1947 کے Independence Act میں ضم کیا۔ پھر پاکستان بننے کے بعد ون یونٹ بنا کے 1940 کی قرارداد کی نفی کی گئی ۔ 1962 کا آئین آیا اور پھر 1970 میں ون یونٹ کو جنرل یحییٰ نے توڑ دیا۔ نئی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان ہوا، انتخابات کے نتائج قومی جنتا نے ماننے سے انکار کیا اور یوں یہ ملک دولخت ہوا۔

اس لیے جہاں فیڈریشن ہوگی وہاں حق خود ارادیت چاہے واضح طور پر آئین میں نہ ہو لیکن وہ مہذب آئین کا حصہ ہوتا ہے اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ حق ایسی قوموں کا مانا ہوا ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں کیا ہوا۔ 1707 میں اسکاٹ لینڈ union with england actکے تحت انگلستان کے ساتھ 1706 کے treaty of union  معاہدے کو قانونی حیثیت دی اور اس طرح Kingdom of England  United یا Great Britain وجود میں یعنی فیڈریشن بنی۔ نصف صدی سے اسکاٹ لینڈ کے عوام آزادی مانگ رہے تھے اور بالآخر 2010 میں انھوں نے اسکاٹ لینڈ کے اندر حکومت بنالی۔

حکومت بناتے ہی انھوں نے آزادی کے لیے ریفرنڈم کروایا ۔ بڑا ہنگامہ ہوا لیکن انگریز مہذب تھا۔ وہاں کے آئین کے ماہرین نے کہا کہ یہ حق اسکاٹ لینڈ کا بنتا ہے۔ اس طرح اسکاٹ لینڈ کی صوبائی اسمبلی نے Scotland referendom for Independence act 2013 منظور کرلیا۔ جس کو ملکہ برطانیہ نے منظور کرلیا اور پھر حالیہ ریفرنڈم اسی قانون کے سیکشن 30 کے تحت ہوا، جس میں قوم پرست حکومت ناکام ہوئی ۔ دراصل وفاق اور اکائیوں کا تعلق ایک رشتہ ازدواج کی طرح ہوتا ہے جس میں فریق کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ طلاق مانگے اسی طرح ہی حق خودارادیت ہے ، یہ بہت باریک اور نازک سا کام ہے۔

جہاں تک بلدیاتی نظام کا تعلق ہے وہ اس وقت بھی ناگزیر ہوگیا ہے۔ جس میں خصوصاً پیپلز پارٹی مخلص نہیں اور ایک لحاظ سے خود متحدہ بھی ، کیونکہ آبادی بے تحاشا بڑھی ہے اور کراچی کو فعال نظام دینے کے لیے نئی حد بندیوں ، زرعی یونیورسٹیوں اور روزگار کی ضرورت ہے۔ میرا یقین ہے کہ سندھ کی شہری مڈل کلاس سندھ کو جاگیرداری نظام میں پسے ہوئے لوگوں کو آزاد کرائے گی اور سندھی ہونے پر فخر محسوس کرے گی اور اسی طرح پاکستانی ہونے پر بھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔