کانگو وائرس سے ایک اور شخص جاں بحق، بچوں کو مویشی منڈی نہ لیجایا جائے، ماہرین

اسٹاف رپورٹر / طفیل احمد  ہفتہ 27 ستمبر 2014
مویشی منڈی میں فروخت کے لیے لائے جانے والے قربانی کے اونٹ کو خریدار دیکھ رہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

مویشی منڈی میں فروخت کے لیے لائے جانے والے قربانی کے اونٹ کو خریدار دیکھ رہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: شہر میں کانگو وائرس سے ایک اور شخص جاں بحق ہوگیا، متوفی مویشی منڈی گیا تھا جس کے بعداس کی حالت بگڑگئی جس کے بعد رواں برس کانگو وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 2 ہوگئی ہے۔

ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ڈاکٹر ظفراعجازکے مطابق کانگو وائرس کا شکار ہونے والا لیاقت آباد کارہائشی 51سالہ محمدجاوید چند روز قبل سپرہائی وے پر قائم مویشی منڈی گیا تھا جس کے بعداس کی حالت بگڑ گئی، متوفی کو تیز بخار (ہیمریجک فیور) کی تشخیص کی گئی اور خون کے مزید ٹیسٹ کیے گئے، لیبارٹری رپورٹ کے مطابق متوفی کوکانگووائرس لاحق ہوگیا تھا جس کے بعداس کی ہلاکت ہوگئی۔ ڈاکٹر ظفر اعجازنے بتایاکہ رواں سال کے دوران شہرمیں اب تک کانگو وائرس کے 3 کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں سے 2 مریض انتقال کر گئے جبکہ ایک مریض صحت یاب ہوگیا۔

ماہرین طب نے والدین سے کہا ہے کہ مویشی منڈی میں بچوں اور خواتین کو ساتھ لیکر نہ جائیں کیونکہ عیدالاضحی کے موقع پر کراچی میں اندرون ملک سے جانوروں لائے جاتے ہیںجن کی کھال پرٹس(پیسو) چپکے  ہوتے ہیں جو جانوروں کاخون چوستے ہیں ،،پیسوکے انسان کوکاٹنے سے کانگو وائرس کامرض لاحق ہوسکتاہے، بلوچستان سے لائے جانے والے جانوروں میں ٹس (پیسو) زیادہ ہوتے ہیں،خریداری کے  وقت جانوروں کو کے قریب جانے سے گریزکیاجائے۔

ماہرین نے بتایا کہ جانورمنڈی میں بچوں کوتفریحی کرانے کی غرض سے بھی نہ لے جایا جائے کیونکہ جانور منڈی میں بعض جانوروں میں مختلف بیماریاں بھی ہوتی ہیں  جس سے بچے متاثر ہوسکتے ہیں، مویشی منڈی میں جانوروں کے فضلے کے اٹھنے والا تعفن بھی بچوں کی صحت متاثر کرسکتاہے، مویشی منڈی میں جانوروں کی خریداری کیلیے فل آستیں والے کپٹرے پہن کریں کیونکہ بیمار جانوروں کی کھال اورمنہ سے مختلف اقسام کے حشرت الارض چپکے ہوئے ہوتے ہیں جو انسان کوکاٹنے سے  مختلف امراض میں مبتلا کرسکتے ہیں۔

کراچی میں نگلیریا کا مرض زور پکڑتا جا رہا ہے، اس وقت نگلیریا میں مبتلا متعدد مریض مختلف اسپتالوں میں زیرعلاج ہیں، کے ڈی اے آفیسر سوسائٹی کے رہائشی کی حالت تشویشناک ہے، تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ڈاکٹروں نے کے ڈی اے آفیسر سوسائٹی، نیشنل اسٹیڈیم کراچی کے رہائشی 67 سالہ محمد داؤد اقبال کے نگلیریا مرض میں مبتلا ہونے کی تصدیق کردی، داؤد کو 23 ستمبر کو تیز بخار ہونے پر آغا خان اسپتال لایا گیا تھا جہاں ابتدائی طبی امداد دیکر اسے گھر بھیج دیاگیا تھا تاہم اگلے دن دوبارہ داؤد کی حالت خراب ہوگئی جس پر اسے دوبارہ آغا خان اسپتال لایا گیا جہاں اسے داخل کرلیا گیا اور حالت تشویشناک ہونے پر اس کے خون کے ٹیسٹ کرائے گئے جن میں نگلیریا کی تصدیق ہوگئی۔

داؤد کی حالت گزشتہ روز مزید خراب ہوگئی جس پر ڈاکٹروں نے فوری طور پر اسے وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا، ڈاکٹر مریض کی حالت کو تشویشناک قراردے رہے ہیں، داؤد اقبال کے نگلیریا کے مرض میں مبتلاہونے کی تصدیق کے بعدمحکمہ صحت کی نگلیریا کمیٹی کے اراکان نے جمعہ کو اس کے گھر جاکر اہلخانہ کے خون کے نمونے حاصل کیے جبکہ مریض کے گھراوران کے اطراف میں پانی کے نمونے حاصل کیے گئے کیمیائی تجزیے کے دوران انکشاف ہوا مریض کے گھراوران کے گھرکے اطراف میں واقع مسجد کے پانی میں بھی کلورین شامل نہیں جس پر نگلیریا کمیٹی کے ارکان نے واٹربورڈ حکام کو بھی مطلع کردیا۔

معلوم ہوا ہے کہ پانی میں کلورین (سوڈیم ہائپوکلورائڈ) کی مطلوبہ مقدار شامل کرنے کیلیے ماہانہ ایک کروڑ30لاکھ روپے خرچ کیے جارہے ہیں اس کے باوجود واٹربورڈ حکام پانی میں کلورین کی مطلوبہ مقدار شامل کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ ماہانہ ایک کروڑ 30 لاکھ روپے خرچ کیے جانے کی باوجود کراچی میں نگلیریا کے مریضوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہے اور اب تک 12 افراد نگلیریا کے مرض کی بھینٹ چڑچکے ہیں ،ذرائع نے بتایا کہ پانی میں سوڈیم ہائپوکلورائڈ شامل کرنے کیلیے عالمی ادارہ صحت نے ڈوزنگ پمپ بھی دیے ہیں لیکن متعلقہ حکام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کراچی میں نگلیریا کے مریضوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہوتاجارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔